علماء اکیڈمی ایڈمنسٹریشن نے 42ویں آئمہ /خطباء ریفریشر کورس کی افتتاحی تقریب "حضوری باغ"کی اس بارہ دری میں برپا کرڈالی ،جہاںکہیں مہاراجہ رنجیت سنگھ اپنی عدالت لگایا کرتا۔ ہمارے ایک سابق صدر بلکہ آرمی چیف اس" قرییکو دنیا کی خوبصورت ـ"Location"سے تعبیر کرتے تھے ۔جس کے ایک طرف مسلمانوں کی سطوت وشاہی کا عظیم نشان "شاہی قلعہ"اس کے بالمقابل تاریخی عالمگیری بادشاہی مسجد ،جس کے بانی کو اقبالؒ نیـ"خدنگ آخریں" لکھتے ہوئے ---اسلامی ترکش کے آخری تیر سے تعبیر کیا، اور اسی مسجد کے وہ کشادہ اور مضبوط زینے ----جن پر بیٹھ کر’’ آوازِ دوست ‘‘کا مصنف برصغیر کی تین گمشدہ صدیوں پر ماتم کناں ہوا تھا----جس پر مسجد کے مینار نے جھک کر اس کے کان میں راز کی یہ بات کہی تھی کہ ـ: ’’ جب مسجدیں بے رونق اور مدرسے بے چراغ ہوجائیں ،جہاد کی جگہ جمود اور حق کی جگہ حکائیت کو مل جائے ،ملک کی بجائے مفاد اور ملّت کی بجائے مصلحت عزیز ہو ،اور جب مسلمانوں کو موت سے خوف آئے اور زندگی سے محبت ہو جائے تو صدیاں یونہی گم ہو جاتی ہیں ۔‘‘اسی خطّے میں بادشاہی مسجد کے بلند وبانگ میناروں کے ساتھ وہ مضبوط اور عظیم مینار بھی ہے ،جسے ہم مینارِ پاکستان جبکہ مذکورہ مصنف’’مینارِ قرار داد پاکستان ‘‘تحریر فرماتے ہوئے کہتے ہیں ۔ــ’’یوں تو مسجد اور مینار آمنے سامنے ہیں ،مگر ان کے درمیان یہ ذراسی مسافت ،جس میں سکھوں کا گوردوارہ اور فرنگیوں کا پڑائو شامل ہیں ، تین صدیوں پر محیط ہیں ۔ بہر حال ----یہ حضوری باغ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے 1813ء میں والی افغانستان امیر شاہ شجاع درّانی سے شہرئہ آفاق "کوہِ نورہیرا"چھینے کی خوشی میں تعمیر کروایا۔رنجیت سنگھ اور شاہ شجاع کا ایک مکالمہ تاریخ میں بڑا مشہور ہے ، جس میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے شاہ شجاع سے کوہ نور ہیرے کی قیمت دریافت کی، تو اس نے جواب دیا ۔"طاقت"رنجیت سنگھ نے حیرت سے پوچھا کیا مطلب؟ شاہ شجاع درّانی نے اس کا تاریخی جواب دیا ـ،اس نے کہا: ’’ میرے باپ، دادا نے طاقت کے زور پر یہ ہیرا کسی سے چھینا تھا ،تم نے طاقت سے یہ ہیرا مجھ سے لے لیا، اور کل کو جو تم سے طاقتور ہوگا ---وہ اس کو تم سے لے جائے گا، پھر یہی ہوا،1849ء میںپنجاب میں "سکھ حکومت"کے اختتام کے ساتھ ہی ،قلعہ کی موتی مسجد کے توشہ خانے سے دیگر نوادرات کے ساتھ "کوہ نور ہیراـ"بھی برآمد ہوا ،جس کو ایسٹ انڈیا کمپنی نے ملکہ وکٹوریہ کی خدمت میں پیش کیا۔ اس موقع پر لندن میں ایک جشن بپا ہوا ،اور یوں دنیاکا مشہور ترین اور گراں قیمت "کوہ نور"یعنی" روشنی کا پہاڑ" سلطان خلجی، ظہیر الدین بابر،ہمایوں --- اور پھر جب عالم شا ہ رنگیلا نے نادر شاہ درّانی کے سامنے گھٹنے ٹیکے ،تویہ ہیرا نادر شاہ درّانی، اس سے احمد شاہ ابدالی اور پھر شاہ شجاع درّانی سے ہوتا ہوا،رنجیت سنگھ اور تادمِ تحریرملکہ برطانیہ کی ملکیت ہے ،بہر حال کوئی بات نہیں--- اس کی یاد میں بننے والا "حضوری باغ"توہمارے پاس ہے نا، محض اتفاق کہ یہ سب کچھ ایسے وقت میں احاطہ تحریر میں آرہا ہے، جب لاہور کے مذکورہ احاطے سے متصل سمادہ میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی 158ویں برسی کی تقریبات روبہ عمل ہیں ۔ پنجاب میں 50سالہ سکھ حکومت کا بانی مہاراجہ رنجیت سنگھ جو ہریانہ سے ملتان ،کشمیر سے پشاور تک کے علاقے کا طاقتور ترین حکمران رہا ۔1780ء میں گوجرانوالہ کے نواح میں ،سکھوں کی بارہ مسلوں میں سے ایک مسل کے سربراہ کے گھر پیدا ہوا ،وہ پڑھا لکھا نہ تھا، لیکن اس نے ایک طاقتور سلطنت کاخواب دیکھا اور پھر اس کی تکمیل میںلگ گیا ،اس کے ذہن میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے مقابلے کے لیے ، انہی کی طرز کی ایک منظم آرمی تشکیل دینے کی خواہش پیدا ہوئی ،اور پھر اس کے لیے اُ س نے فرانس اور اٹلی سے چار ماہر فوجی جرنیل منگوائے اور یوںبرصغیر میں "پانچ ہزار ی اور دس ہزاری"منصب کے مقابلے میں پہلی مرتبہ "مستقل فوج " تشکیل پائی ،جس کا جنرل ہیڈ کوآرٹر ،لاہور کے علاقے باغبانپورہ میںتھا۔ اس نے "Soft image"کے لیے اپنے دربار میں ہندوئوں کے علاوہ مسلمانوں کی نمائندگی کابھی اہتمام کیا، اور اندرون بھاٹی کے "فقیر خانہ "فیملی کے فقیر عزیز الدین ،فقیر نورالدین وغیرہ کواپنے دربار میں خاص جگہ دی ۔ بہر حال--- یہ ساری باتیں تو ایسے ہی درمیا ن میں آگئی، اصل تذکرہ توعلماء اکیڈمی کا مقصود تھا ،جو تاریخی بادشاہی مسجد کے پہلو میں 1970ء سے سرگرم عمل ہے۔ علماء اکیڈمی---دینی اور دنیاوی علوم کے حسین امتزاج سے مزّین اور روایتِ علم کے اسلامی اور دینی تقدس اور حرمت کو سمیٹے ہوئے---یہ منفرد او رمعتبر ادارہ 1970ء میں اس وقت قائم ہوا ، جب ابھی مدرسہ اور مکتب پر انتہا پسندی اور فرقہ وارانہ تشدد کے سائے نہیں پڑے تھے اور نہ ہی ہمارے تدریسی نظام اور محراب ومنبر کے حوالے سے بین الاقوامی برادری کی طرف سے یہ "تحفظات" سامنے آئے تھے ۔دینی درسیات کو جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی بحث--- بھی ابھی شروع نہ ہوئی تھی اورنہ ہی دینی مدارس کو "قومی دھارے "میں لانے اوراس کی ضابطہ بندی کا کوئی ایسا دبائو تھا۔لیکن آج سے 50سال پہلے ان تمام اہداف اور قومی ضروریات اورآئندہ دور کے تقاضوں کو بھانپتے ہوئے ، حکیم مشرق حضرت اقبالؒ کے پہلو ، تاریخی شاہی قلعہ کے ساتھ اور بادشاہی مسجد سے متصل --- یہ ’’علماء اکیڈمی ‘‘ قائم ہوئی ، جس کے لان کے لیے حضوری باغ نے اپنے سرسبز شاداب سولہ قطعات اور بارہ دری کے تمام دَروا کر دیئے تھے۔تقریباً50سال قبل ---مسجد کو مرکز ملّت ،نیز مساجد اور مدارس میں اسلامی اور جدید معاشرتی وسائنسی علوم بالخصوص پولٹیکل سائنس اور انگریزی کااہتمام اور ایک وسیع النظر ،روادارانہ فلاحی معاشرے کے قیام کے لیے ، اس ادارے کی وساطت سے حکومتی سطح پر عملی کاوشیں اور تدابیر یقینا لائق تحسین تھیں ۔اس ادارے کی "VISITING FACULTY"اتنی مؤثر اور مضبوط تھی جو شاید پاکستان کی کسی بھی یونیورسٹی کو میسر نہ ہو۔ اس ادارے کے ساتھ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات ،عربی ، معاشیات ، سیاسیات، فلکیات ، انسائیکلوپیڈیا آف اسلام ، تاریخ اور شعبہ اقبالیات کے ساتھ اس وقت کے گورنمنٹ کالج اور آج کی جی سی یونیوسٹی شعبہ انگریزی اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی کے سینئر ترین اساتذہ منسلک تھے ۔1978میں یہاں پر ’’تخصص فی العلوم العربیہ والاسلامیہ ‘‘ کا دو سالہ ڈگری کورس رائج ہوا، جس کی بدولت یہاں سے ایسے دینی سکالر اورعلماء فارغ التحصیل ہوئے، جنہیں مختلف اعلیٰ اداروں اور غیر ملکی یونیورسٹیوں میں بڑے اعزاز کے ساتھ سپیشلائزیشن اور دیگر خدمات کے لیے منتخب کیا گیا ۔ اسی دوران تخصص کی اس دو سالہ ڈگری کو ایم اے عربی وایم اے اسلامیات کے برابر قرار دینے کے لیے اس وقت کی یونیورسٹی گرانٹس کمیشن اورآج کے ہائر ایجوکیشن کمیشن سے خط وکتابت شروع ہوئی۔ در اصل یہ ادارہ نہ صرف پنجاب بلکہ ملکی سطح پر ایک شاندار علمی ، تدریسی اور تحقیقی ادارے کے ساتھ ساتھ ایک ایسا ’’پالیسی سٹڈی انسٹی ٹیوٹ‘‘ بننے جارہا تھا ،جہاں سے جدت پسند اور روادارانہ فکر کے حامل علماء اور دینی سکالرز کی کھیپ تیار ہوتی، جو معاشرے میں فرقہ وارانہ تعصّبات اورمسلکی اختلافات جیسے مفاسد کی بیخ کنی کر نے ،اور ملک کے دینی حلقوں اورمذہبی دائروں کی ضابطہ بندی کے لیے طویل المیعاد اور قلیل المیعاد منصوبے تیا ر کرنے کی استعداد کی حامل ہوتی ۔لیکن افسوس ! ترقی اور تسلسل کا یہ عمل ’’بوجوہ‘ ‘ زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکا اور یہ ادارہ پسماندگی کا شکار ہونے لگا۔آج بہت سے حادثات اور سانحات ہماری مذہبی زندگی پر اپنے سائے گہرے کیے ہوئے ہیں اور ہماری روایتی دینی زندگی کئی المیوں سے دو چار ہے ۔ ذرا پیچھے مڑ کے دیکھتا ہوں، تو یہ امر واضح ہوتا ہے کہ قومی سطح پر ہمارے دینی ومذہبی اداروں اوران کے فارغ التحصیل طلبہ کی ضروریات کا ادراک تو بروقت کر لیا گیا تھا ،مگر افسوس ایسے اداروں کی ترویج وترقی ،ہماری قومی زندگی میں ترجیحی نوعیت حاصل نہ کر سکی ۔ بایں وجہ ان المیوں کا تدارک نہ ہوسکا۔ جس سے آج ہماری سوسائٹی دو چار ہے ۔اس کے باوجود علماء اکیڈمی اپنے علمی اور فکری سفر کو جاری رکھَے ہوئے ---گراں قدر خدمات سرانجام دے رہی ہے۔