کسی نشیبی علاقے میں خوب بارشیں برسیں۔ حکومت نے مکینوں کو خبردار کیا کہ نزدیکی بند ٹوٹنے کا خطرہ ہے‘ محفوظ مقامات پر منتقل ہو جائیں۔ لوگوں نے جلدی جلدی اپنا سامان لیا بلند اور محفوظ جگہ چلے گئے۔ ایک زاہد و عبادت گزار نے جانے سے انکار کر دیا۔ اسے گمان تھا کہ بستی گناہگاروں کی وجہ سے اس مصیبت کی شکار ہونے والی تھی اب وہ چلے گئے تو پانی اللہ کی ہروقت عبادت کرنے والے تنہا شخص کو ڈبونے نہیں آئے گا۔ بستی کے امام مسجد نے انہیں وہ ساری آیات اور احادیث مبارکہ سنا کر اپنے ساتھ آنے کا کہا جن میں احتیاط‘ جان بچانے اور روز مرہ معاملات میں اولی الامر کی بات ماننے کی ہدایت کی گئی ہے۔ زاہد نے انکار کر دیا‘ گائوں کا سرپنچ ہاتھ جوڑ کر سامنے آ بیٹھا اور بولا: حضرت ہم سب آپ سے محبت کرتے ہیں‘ آپ کو یوں تنہا چھوڑنا نہیں چاہتے۔ آپ بندگان خدا کا دل ہی رکھ لیں۔ زاہد نے پھر انکار کر دیا۔ بستی خالی ہو گئی۔ آخر میں ایک چور رہ گیا جو لوگوں کا بچا ہوا مال و اسباب اکٹھا کر رہا تھا۔ برائی کی وجہ سے وہ بدنام تھا۔ چور نے دیکھا کہ زاہد ابھی تک اپنے حجرے میں ہے تو وہ اس کی خدمت میں حاضر ہوا اور وعدہ کیا کہ اگر زاہد بستی کو چھوڑ دے تو وہ چوری چھوڑ دے گا۔ یہ التجا بھی بے کار گئی۔ چور سامان اٹھا کر محفوظ علاقے کو رخصت ہوا۔ تھوڑی دیر بعد پانی نے زور کیا‘ بند ایک دھماکے سے ٹوٹا اور پانی نے بستی کے ویران مکانوں کے ساتھ ساتھ زاہد اور اس کے حجرے کو بھی ڈبو دیا۔ زاہد مرنے کے بعد اللہ کے حضور پہنچا اور شکایت کی : اے اللہ میں نے تیرے بھروسے پر کسی کی نہ مانی اور تونے میری کوئی مدد نہ کی۔ اللہ نے جواب دیا۔ اے میرے بندے میں تو تیری مدد کو آیا تھا۔ پہلے امام مسجد‘ پھر سرپنچ اور آخر میں چور کو بھیجا کہ تیرا دل نرم ہو اور تو آنے والی مصیبت سے بچ جائے لیکن تونے ہٹ کا مظاہرہ کیا۔ تونے خدا کی نشانیوں کو نظر انداز کر دیا۔ اٹلی میں کورونا نے بہت تباہی مچائی ہے۔ ایک کروڑ آبادی والے ملک میں پندرہ ہزار لوگ مر گئے اور ہزاروں متاثر پڑے ہیں۔ مرنے والوں میں 50 پادری اور چرچ کے خادم بھی شامل ہیں۔ اسرائیل میں کٹر مذہبی طبقے نے حکومتی احکامات نظر انداز کر دیے ہیں۔ ایک ایسی ریاست جو یہودیت کے مرکز کے طور پر قائم کی گئی وہاں مذہبی طبقے کا طاقتور ہونا قدرتی بات ہے۔ ساری دنیا کی ٹیکنالوجی اور اس سے منسلک کاروبار یہودیوں کے ہیں۔ ان کے کچھ لوگوں نے سائنسی اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے عبادت گاہوں کے متعلق حفاظتی اقدامات تجویز کئے جن کی مزاحمت کی جا رہی ہے۔ گزشتہ دنوں ان کے ایک بڑے ربی مور ڈیچائی گوریرے کو یہ وبا نگل گئی۔ دنیا بھر میں 40ربی کورونا کے ہاتھوں انتقال کر چکے ہیں۔چند روز پہلے کی بات ہے پاکستان میں کورونا کے ہاتھوں ایک جید عالم دین شاہ عبدالعزیز رحلت فرما گئے۔ ممکن ہے انہوں نے حتی الامکان احتیاط سے کام لیا ہو لیکن کسی طرح سے یہ مہلک وائرس ان کو چمٹ گیا اور ان کی جان لے کر چھوڑا۔ مفتی منیب دینی اور سماجی امور کے تعلق کو جس سلیقے سے بیان کرتے ہیں میرے لئے وہ ہمیشہ ایک مثال رہا ہے۔ ان کی تحریر کی سلاست‘ ذخیرہ الفاظ اور موضوع کا ہمہ پہلو احاطہ انہیں دیگر علماء سے ممتاز کرتا ہے۔ مفتی صاحب ایک برگزیدہ‘ مخلص اور دینی خدمات کے لئے مستعد شخصیت ہیں۔ رویت ہلال کے معاملے پر ان کے اور فواد چودھری کے مابین جو تبادلہ خیال بیانات کی صورت میں سامنے آیا اس سے یہ تاثر ابھرا کہ مفتی صاحب حقائق اور جدید روایات کو ٹھوس منصوبہ بندی کا حصہ بنانے میں مزاحم ہیں۔ ایسا کیلنڈر بن چکا ہے جس میں چاند اور سورج کے طلوع و غروب کا وقت کئی سال پہلے بتایا جا سکتا ہے۔ پھر اس کیلنڈر کی جگہ علماء کی بیٹھک کو دلیل قرار دینے پر زور نئے عصری شعور کے لئے سمجھنا دشوار ثابت ہوا‘ کسی کا کچھ نہیں بگڑا مفتی صاحب کے عقیدت مندوں کے لئے مشکل پیدا ہوئی۔ کسی بڑے مفتی صاحب کا قول ان دنوں پڑھا‘ فرمایا کہ ہنگامی حالات میں اولی الامر یعنی انتظامیہ کے احکامات ہی فتویٰ کا درجہ اختیار کر لیتے ہیں۔ ایران میں علما کی حکومت ہے۔ شروع میں انہوں نے بھی انتظامی تدابیر کو مغربی سازش اور عبادت گاہوں کو بند کرنے کا منصوبہ قرار دے کر مزاحمت کی لیکن بعد کے حالات نے انہیں قائل کر لیا کہ انسان بچے تو عبادت گاہیں آباد ہو جائیں گی۔ ہمارے ہاں تاجروں نے دھمکی دی ہے کہ حکومت نے انہیں دکانیں کھولنے کی اجازت نہ دی تو وہ سول نافرمانی کریں گے‘ زبردستی دکانیں اور کاروبار کھولیں گے۔ تاجروں کی ضد سمجھ میں آتی ہے۔ کچھ کا مال خراب ہو رہا ہے‘ کچھ کو وصول کئے گئے مال کی ادائیگی کا مسئلہ ہے‘ کچھ کو اخراجات چلانے میں دقت ہے اور بڑی تعداد ایسے تاجروں کی ہو گی جو صرف منافع کے صدمے میں مرے جا رہے ہیں۔ علما کرام یقینا تاجر نہیں‘ ان کے بارے میں ایسا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ وہ تو لوگوں کو نیکی اور خیر کی تعلیم دیتے ہیں۔ انسانوں کو ہلاکت سے بچانے کی فکر میں رہتے ہیں‘ ان کا دل کسی ایک جان کے چلے جانے پر رنجیدہ ہو جاتا ہے‘ یہاں تو کروڑوں انسانوں کی جان بچانے کا معاملہ ہے۔ کورونا نے دکھا دیا کہ اس کے لئے یہودی ربی‘ عیسائی پادری اور مسلمان عالم ایک جیسے ہیں۔ دنیا کے امیر غریب سب اس کا نوالہ بن رہے ہیں۔ مساجد کعبتہ اللہ کی بیٹیاں ہیں یہ بند نہیں کی جا سکتیں احتیاطی تدابیر بہرحال ضروری ہیں۔ فروعی معاملات میں مسلمان ایک دوسرے سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن جب پوری امت کا معاملہ ہو تو فیصلے اجتہاد کا مطالبہ کرتے ہیں۔ کیا یہ اجتہاد کی سند نہیں کہ سعودی عرب ، ترکی اور ایران کے علماء کرام ایک نکتے پر متفق ہو رہے ہیں۔ صدر عارف علوی سے علماء کے نمائندوں کی ملاقات میں احتیاطی تدابیر پر اتفاق ہوا ہے، اطمینان کا اظہار تاحال نہیں کیا جا سکتا کہ جانے کس محترم عالم یا مذہبی سیاستدان کو یہ اتفاق رائے کب دین سے دشمنی معلوم ہونے لگے۔