قوم کے 75فیصد مسائل کے ذمہ دار علمائے سو ہیں۔ فرمایا وزیر سائنس و ٹیکنالوجی جناب فواد چودھری نے۔ اس پہ ایک صاحب بولے کیا وزیر موصوف کو علمائے سو کے معنی معلوم بھی ہیں۔ دوسرے صاحب نے لقمہ دیا کہ اگر علما برے ہو کر علمائے سو کہلاتے ہیں تو وزراء حضرات نالائق و ناکام ہو کر وزراء سو کیوں نہیں کہلا سکتے۔ ایک سیاستدان مسلسل و متواتر پارٹیاں بدلتا رہے تو اس میں بھی ’’سُو‘‘ کا سابقہ لگنا چاہیے اور جن وزراء کی خراب کارکردگی کی بنا پر ان کی وزرات تبدیل کر دی جائے یا جو وزیر زعم وزارت میں کسی اینکر کے رخسار پر طیش میں آ کر طمانچہ رسید کر دے تو وہ وزیر سُو ہوا یا نہیں…؟ اصل میں ہمارے معاشرے میں جتنا آسان کام مُلّا، مولوی اور مفتی کو ہدفِ تنقید بنانا اور انہیں بے توقیر کرنا ہے شاید ہی کسی دوسرے پیشے سے وابستہ لوگوں کو حقارت سے دیکھنا اتنا سہل اور آسان ہو۔ ناقدین کو معلوم ہے کہ مُلّا، مولوی، مفتی پلٹ کر جواب تو دیں گے نہیں۔ لہٰذا جس عالم دین کو چاہو علمائے سُو کے قبیلے میں شامل کر دو اور پھر جتنی گالیاں دینی ہے، دے لو۔ کسی کو ان کے دفاع یا حمایت کی توفیق تو ہو گی نہیں۔ دوسری طرف غریب مولوی غریب ملا اور مفتی یہ جاننے کے باوجود کہ برخود غلط قسم کے لوگ انہیں کس نظر سے دیکھتے ہیں انہوں نے کبھی کوئی شکایت نہیں کی۔ ان برخود غلط لوگوں کے بچوں کو قرآن ناظرہ پڑھانے کی ضرورت پیش آ جائے تو ایسے ہی کسی مولوی کو چند سو روپوں کے عوض یہ ذمہ داری دے دی جاتی ہے۔ کوئی مذہبی معاملہ آ پڑے تو فتوے کے لیے مفتی صاحب ہی سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ مولویوں کے طبقے کو گالیاں دینے والا مر جائے تو اسی طبقے کا کوئی مولوی نماز جنازہ پڑھانے کے لیے آگے کر دیا جاتا ہے تو اگر وزیر موصوف نے یہ فرمایا کہ ہمارے 75فیصد مسائل کی وجہ علمائے سو کی فتویٰ بازی ہے تو اسی ذہنیت کا مظاہرہ کیا گیا۔ یہ وزیر موصوف جو کبھی پیپلزپارٹی کا نطق ناطقہ رہے۔ جب اقتدار کی باگ ڈور جنرل پرویز مشرف کے ہاتھ آئی تو یہ ان کے ہاتھ مضبوط کرنے پر کمربستہ ہو گئے۔ چوں کہ آدمی موقع پرست بھی ہیں اور ذہین بھی۔ تبدیلی کا نعرہ لگا تو بھانپ گئے کہ ہوا کا رُخ بدلنے والا ہے، چنانچہ بھاگ کر تحریک انصاف میں جا گھسے۔ اور اب جب سے عمران خان کی حکومت ڈگمگاتی دکھائی دے رہی ہے تو پیپلزپارٹی سے گاہے، گاہے پینگیں بڑھاتے نظر آ رہے ہیں۔ چند روز پہلے اخبارات میں بلاول بھٹو سے نہایت خلوص سے ملے جو موصوف کے وزیر اعظم کوسلیکٹڈ کہتے نہیں تھکتے اور ان کا تازہ بیان بھی در اصل بلاول بھٹو کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے دیا گیا تھا۔ گویا اب ایک بار پھر کوشش ہے کہ جو کشتی ڈولتی ڈگمگاتی دکھ رہی ہے اس سے تھوڑا سا نکل کر اپنا ایک پائوں دوسری کشتی میں رکھ دو تا کہ موقع محل نازک دیکھ کر چھلانگ لگانے میں سہولت رہے۔ یعنی سہولت سے انہیں قبول کر لیا جائے۔ برادرم سمیع ابراہیم کا اور کیا قصور تھا، یہی ناکہ انہوں نے موصوف کی بابت ان ہی خیالات کا جرأت مندی سے اظہار کر دیا تھا جو موصوف کو اس لیے بری لگی کہ بہ قول یوسفی سچی تھی۔ جھوٹی الزام تراشی پر کون برا مانتا ہے۔ اگر وزیر موصوف نے مولانا فضل الرحمان کو علمائے سو میں شامل کیا تو انہیں شاید یہ بھی معلوم نہیں کہ مولانا ایک سیاسی آدمی ہیں۔ انہوں نے نہ کبھی کسی مذہبی معاملے پر فتویٰ دیا اور نہ کبھی فتویٰ بازی کے چکر میں پڑے۔ عمران خان کے کسی بیان پر اگر صحابۂ کرام کی توہین کا انہوں نے الزام لگایا اور یہ چاہا کہ اسے عمران خان کے خلاف تحریک چلانے کے دوسرے اسباب کے ساتھ اسے بھی ایک سبب بنایا جائے تو یہ بھی ایک سیاسی چال ہی تھی۔ خواہ کتنی ہی ناپسندیدہ ہو…اس میں فتوے کا کوئی پہلو نہ تھا۔ محض ایک سیاسی معاملے کو بنیاد بنا کر وزیر موصوف کا علمائے کرام کو علمائے سو قرار دینا بذات خود ایک مذہبی معاملے کو سیاسی معاملہ بنانا ہے اور جس یقین سے وزیر موصوف نے بیان دیا ہے اس میں بھی ’’فتوے بازی‘‘ ہی کی بو آ رہی ہے۔ ہمیں افسوس ہے کہ جناب وزیر اعظم نے کیسے کیسے سیاسی لوگوں کو تحریک انصاف میں نہ صرف شامل کیا بلکہ انہیں وزارت بھی عطا کر دی۔ ان ہی وزیر صاحب کے بیانات کی وجہ سے عمران خان اور ان کی حکومت کو شرمساری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ حیرت ہے کہ فتوے بازی کی طرح وزیر موصوف کی طمانچے بازی کے نتیجے میں وزیر اعظم کو سمیع ابراہیم سے معافی مانگنی پڑ گئی لیکن میڈیا میں شاید یہ رپورٹ نہ ہو سکا کہ وزیر اعظم نے وزیر موصوف کے کان کھینچے یا نہیں۔ یا انہیں اسی طرح طمانچے بازی کے لیے آزاد و بے مہار چھوڑ دیا گیا۔ عید کے چاند کے نظر آنے یا نہ آنے کے مسئلے پر یہی وزیر موصوف رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین اور جید عالم دین مفتی منیب الرحمان سے الجھ پڑے۔ دونوں کے مضامین ایک اخبار نے آمنے سامنے شائع کیے۔ صاف نظر آ گیا کہ موصوف کو علم نہ سائنس کا ہے اور نہ مذہب کا۔ اپنے بچپن کے واقعات دہرا کر رہ گئے۔ حالیہ چند واقعات جس میں وزراء حضرات یا پارٹی رہنمائوں نے صحافیوں پر جو ’’ہتھ چھوڑ‘‘ سلوک کیا ہے۔ اس کا واحد نسخہ حل کرنے کا یہ ہے کہ جملہ وزراء کرام کو ایک ریفریشر کورس کرایا جائے جس میں انہیں اخلاق و آداب کی تربیت دی جائے۔ یہ سکھایا جائے کہ الفاظ کی قدر و قیمت کیا ہے اور بیان بازی میں مخالفوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کن باتوں کا خیال رکھا جانا چاہیے۔ یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ کون سی باتیں کہنے کی اور کون سی چھپانے کی ہیں۔ تحریک انصاف کے ایک ممبر قومی اسمبلی جناب واوڈا نے جس بے رحمی سے پانچ ہزار افراد کو تحقیق اور چھان پھٹک کے بعد اذیت دے کر مارنے اور اس تشدد کے نتیجے میں قوم و ملک کی نجات دیکھی ہے اس سے یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ وہ جمہوریت کے اصول و آداب کی روح سے واقف نہیں اور نہ وہ اس سے کہ وہ کسی کو دعوت دے رہے ہیں، اس کے عواقب و نتائج سے ہی آگاہ نہیں۔ ہمیں اپنے علمائے کرام عزیز ہیں۔ بے شک ان میں کمزوریاں بھی ہیں۔ کمزوری کس طبقے کے افراد میں نہیں ہوتی۔ جب اساتذہ، وکلائ، جج اور جرنیل صاحبان اور اسی طرح ہر طبقے میںا یسے لوگ ہوتے ہیں اور بالضرور ہوتے ہیں جن کے ساتھ ’’سُو‘‘ کا سابقہ بآسانی لگایا جا سکتا ہے تو پھر علماء ہی کو مورد الزام کیوں ٹھہرایا جائے۔ آج اگر ہمارا دین بالکل محفوظ حالت میں ہے تو یہ خدمت علمائے کرام ہی نے انجام دی ہے۔ اس لیے کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ بے بنیاد شکایات اور من گھڑت الزام کو بنیاد بنا کر علماء کے دستار فضیلت سے کھیلے۔ وزارت آنی جانی شے ہے اور جسم و جاں بھی ہمیشہ سلامت نہیں رہتے۔ آخر کو یہی علماء یہی مولوی ہی تمہاری نجات اور بخشش کی دعا مانگیں گے۔!