1857ء کی ناکام جنگ آزادی اور مغلیہ سلطنت کے خاتمہ کے بعد جب مسلمان بے کسی اور کسمپرسی کے دور سے گزر رہے تھے، تو دہلی کے اجمیری گیٹ پر واقع دہلی مدرسہ (حال اینگلو عربک اسکول) کے استاد مولوی مملوک علی کے دو شاگردوں نے قوم کو اعتماد لٹانے کی نیت سے دہلی کو خیر باد کہہ کر دو الگ سمتوں میں دو شہرہ آفاق اداروںکی بنیاد رکھی۔ گو کہ مسلمانوں کو دوبارہ با اختیار بنانے کیلئے تعلیم کو ذریعہ بنانے پر وہ متفق تھے، مگر اسکے نظام اور طریقہ کار پر ان میں اختلاف رائے تھا۔ مغربی اترپردیش کے قصبہ شاملی میں علما ء کے قتل عام سے پریشان مولانا قاسم نانوتوی نے 1866ء میں سہارنپور کی طرف کوچ کرکے دیوبند کے مقام پر ایک انار کے پیڑ کے نیچے دارالعلوم قائم کیا۔ جو آج اپنی آن ،بان اور شان کے ساتھ قائم ہے او ر جنوبی ایشیا میں ام المدارس کا درجہ رکھتا ہے۔ مولانا نانوتوی مسلمانوں کی دینی ضرورتوں کی تکمیل کے ساتھ ساتھ مغربی تہذیب و اقدار کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک نظریاتی فوج تیار کرنے کے فراق میں تھے۔ اس کے دس سال بعد مولوی مملوک کے دوسرے شاگرد سر سید احمد خان نے دہلی کے جنوب میں 250کلومیٹر دور 1877ء میں برطانوی حکومت کی مدد سے آکسفورڈ اور کیمبرج کی طرز پر ایک کالج کی بنیاد رکھی جس پر انہیں کفر کے فتوے سے بھی نوازا گیا۔ اسی کالج کو بعد میں 1920میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا۔ سرسیدمذہبی شناخت کوبرقرار رکھتے ہوئے مسلمانوں میں تعلیمی بیداری اورسائنسی مزاج پیدا کرکے انکو موجودہ دور کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کرکے ان کو مغرب کے ساتھ مکالمہ کرنے کے قابل بنانا چاہتے تھے۔ اپنے قیام سے لیکر آج تک مسلمانوں کو درپیش سیاسی اور سماجی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کیلئے دونوں کا لائحہ عمل متضاد رہا ہے۔ مغربی علوم پر دسترس رکھنے والے علی گڑھ کے اسکالرز نے 20ویں صدی کے اوائل ہی میں اقتدار میں شراکت داری کا مطالبہ شروع کرکے بعد میں مسلم لیگ کی سیاست اور تحریک پاکستان کیلئے راہ ہموار کردی۔ وہیں دیوبند کے فارغ التحصیل اکثر اسکالرز نے پاور سٹرکچر میں مرکزی کردار ڈھونڈنے کے بجائے کانگریس کے سیکولرازم پر بھروسہ کرکے اسکا دم چھلہ بننے پر ترجیح دی۔ دیوبندی علما ء کی تنظیم جمعیت علماء ہند تو 1992میں بابری مسجد کی شہادت تک ایک طرح سے کانگریس کی ذیلی تنظیم کی طرح کام کرتی رہی ہے۔ان کے اکابرین کو اس کے عوض راجیہ سبھا کی نشستیں نصیب تو ہوئی، مگر ان عہدوں کا کتنا فائدہ عام مسلمان کو ہوا ، اس کی پول 2006میں جسٹس راجندر سچر کمیٹی نے کھول دی۔ مغرب کے مشہور علمی اداروں کی طرز پر 1000 ایکڑ پر محیط علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں فی الوقت 30ہزار طالب علم زیر تعلیم ہیں۔ 11ہزار کے قریب اکیڈمک اور نان اکیڈیمک اسٹاف 350مختلف کورسز پڑھانے میں معاونت کرتے ہیں۔ علی گڑھ ریلوے اسٹیشن کے مغرب میں سول لائنز کے بعد پورا علاقہ ہی یونیورسٹی کے نام سے موسوم ہے۔ جہاں سابق پروفیسرز کی کالونیوں کے ساتھ ساتھ دیگر علاقوں کے متمول مسلمان بھی بس گئے ہیں۔ یہ شاید بھارت میں واحد جگہ ہے، جہاں مسلمانوں کی عظمت رفتہ اور ان کا عظیم الشان ماضی ایک فلم کی طرح چلتا پھرتا نظر آتا ہے۔ یہاں کا اسکالر اپنی مسلم شناخت کے ساتھ ساتھ عصری علوم میں بھی خاصی دسترس رکھتا ہے۔ بھارت کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں معیار کے حوالے سے اسکی رینکنگ ساتویں نمبر پر ہے، اس کا میڈیکل کالج نویں مقام پر ہے۔بس اسی وجہ سے یہ ادارہ فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں شہتیر کی طرح کھٹکتا ہے۔ کبھی اس ادارہ کی مسلم شناخت کو ختم کرنے کی سازش کی جاتی ہے اور کبھی کسی معمولی واقعہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرکے ایسا تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ یونیورسٹی ملکی سلامتی کیلئے خطرہ ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ادارہ کے رابط عامہ کے سابق افسر راحت ابرار کے کمرہ میں صبح سویرے ہند ی اخبارات اور چینل کے نمائندے آدھمکے ہوتے تھے۔ چائے بسکٹ نوش کرتے ہوئے وہ کہتے تھے کہ ان کے آفس سے دبائو ہے کہ یونیورسٹی سے کوئی تڑپتی پھڑکتی خبر لانی ہے، جس کونمک مرچ لگا کر مشتہر کرنا ہے۔ حال کا قضیہ بھی کچھ اسی کی کڑی ہے۔ 1938ء سے اسٹوڈنٹس یونین کے دفتر میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر اچانک قابل اعتراض ہوگئی۔ فرقہ پرست تنظیموں نے مقامی ممبر پارلیمنٹ کی شہ پر تشدد اور ہنگامے کئے ، حتیٰ کہ یونیورسٹی میں گھس کر طلبہ کو نشانہ بنایا اور پولیس تماشہ دیکھتی رہ گئی۔ چند سال قبل میں شملہ کے انڈین انسٹیٹیوٹ آف ایڈوانس اسٹڈیز کے ایک پروگرام میںمدعو تھا۔ وائسرائے ہائوس میں بنائے گئے اس ادارہ کے ایک ہال میں بھی قائد اعظم کی ایسی ہی ایک تصویر ٹنگی ہے۔ پارلیمنٹ اور دہلی کے تین مورتی ہاوٗس میں بھی جنگ آزادی کے سرخیلوں کے ساتھ قائد اعظم کی تصویر آویزاں ہے۔ علی گڑھ کو نشانہ بنانے کا مقصد صرف یہی ہے کہ نریندر مودی کی دوسری اننگ کیلئے فضا تیار کی جائے۔ بی جے پی کو جب بھی اپنی شکست نظر آتی ہے تو وہ ماحو ل کو فرقہ وارانہ رنگ دینے اور ہندوئوں کی ہمددری حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ معرف فلم نغمہ نگار جاوید اختر اور اسی قبیل کے کئی دیگر افراد یونیورسٹی کے ذمہ داران کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ از خود حالات کی بہتری اور ادارہ کے مفاد کی خاطر اس تصویر کو ہٹائیں۔ صحافی شمس تبریز قاسمی سوال کرتے ہیں’’ کہ کیا تصویر ہٹادینے سے تنازع ختم ہوجائے گا؟ کیا فرقہ پرستوں کی جانب سے مستقبل میں کسی اور معاملے کو لیکرادارہ پر حملہ نہیں کیاجائے گا ؟ یہ بھی معلوم کرنا ہوگا کہ بی جے پی کو تکلیف جناح کی تصویر سے ہے یا اے ایم یو کے وجودسے ؟۔وہاں تعلیم حاصل کرنے والے مسلم طلبہ سے؟۔مسلمانوں کی تعلیمی ومعاشی ترقی سے؟‘‘ان کا اگلا اعتراض یونیورسٹی کے نام میں شامل لفظ مسلم پر ہوگا۔ ویسے بھی بی جے پی کو اعتراض ہے کہ ایک سیکولر اور جمہوری ملک میں کسی تعلیمی ادارے کا نام کسی ایک مذہب کے نام پر نہیں ہوسکتاجس کے اخراجات حکومت اداکرتی ہو۔کبھی ان کا اعتراض کیمپس میں موجود مساجد کو لیکر ہوگا۔ 2015 میں ہی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے اپنا نظریاتی رنگ دکھاتے ہوئے سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔ بھارت میں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کا تناسب ویسے بھی سب سے نیچے ہے۔ سکولوں میں داخل ہونے والے 100بچوں میں سے صرف 11 اعلیٰ تعلیم تک پہنچ پاتے ہیں جبکہ ہندوئوں میں یہ تعداد 20 فیصد اور عیسائیوں میں31 فیصد ہے۔ اس صورت حال میں اگر اس کااقلیتی کردار چھن جاتا ہے تو مسلمانوں کی تعداد اور بھی کم ہوجائے گی۔ اس وقت علی گڑھ اور دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں 50 فیصد نشستیں مسلمان طلبہ کے لیے مختص ہوتی ہیں۔مزید دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس کے لیے سیکولرازم کی دہائی دی جارہی ہے۔ چنانچہ اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ میں کہا: ’’ایک سیکولر ریاست میں مرکزی حکومت کیسے ایک اقلیتی ادارہ قائم کرسکتی ہے‘‘۔ گویا جو سیکولرازم بی جے پی اور آر ایس ایس کے نزدیک ناپسندیدہ شے ہے، اقلیتوں کے آئینی حقوق سلب کرنے کے لیے اسی ’قابل نفرت‘ اصطلاح کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ چند برس قبل اس وقت کے وائس چانسلر صبغت اللہ فاروقی نے مجھے بتایا تھا کہ گزشتہ کانگریس حکومت نے بھی اس ادارے کو کافی نقصان پہنچایا ۔ ان کے مطابق 535کروڑ روپے کی سالانہ گرانٹ میں سے 95 فیصد تنخواہوں وغیرہ پرصرف ہو جاتی ہے اور ایک قلیل رقم ریسرچ اور دوسرے کاموں کے لیے بچتی ہے۔ اور تو اور گزشتہ حکومت نے کیرالا، مغربی بنگال، مہاراشٹر اور بہار میں علی گڑھ یونیورسٹی کے کیمپس بنانے کا اعلان کیا جن کے اخراجات اسی گرانٹ سے پورے کرنے ہیں۔ ان علاقوں میں معیاری سکول اور کالج بنانے سے پہلے یونیورسٹی میں پڑھنے کے لیے مسلم طلبہ کہاں سے آئیں گے؟ اس لیے اکثر ذی شعور افراد اسے بھی یونیورسٹی کی شناخت پر خاموش حملہ قرار دے رہے ہیں۔ حکومت اور بی جے پی کے لیڈروں کی دلیل یہ ہے کہ علی گڑھ اور جامعہ ملیہ مسلمانوں نے قائم نہیں کیے، بلکہ پارلیمنٹ کے ایکٹ سے معرض وجود میں آئے۔ ایک کالج کو یونیورسٹی میں اپ گریڈ کرنے کا آخر اورکون سا طریقہ ہے؟ پارلیمنٹ کے ایکٹ سے ہی یونیورسٹی کا قیام عمل میں آتا ہے۔ بہرحال، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تاریخی حیثیت ختم کرنے کی کوشش کا یہ پہلا موقع نہیں ہے۔60کی دہائی میںاسوقت کے وزیر تعلیم ایم سی چھاگلہ نے کیمپس کے ایک معمولی واقعہ کو بہانہ بنا کر پارلیمنٹ میں ایک قانون لاکر اس کا اقلیتی کردار ختم کروایا، جس کو 1967ء میں سپریم کورٹ کی تائید حاصل ہوئی۔ بڑی جد وجہد کے بعد 1981ء میں وزیراعظم اندرا گاندھی کی حکومت نے قانون سازی کے ذریعے اقلیتی کردار کو بحال کیا۔ اسی پارلیمانی ایکٹ میں 'خامی‘ نکالتے ہوئے 20 اکتوبر 2005ء کو الہ آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ یہ اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔ لیکن یونیورسٹی اور اسوقت کی من موہن سنگھ حکومت نے اسکو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا اور ابھی تک یہ کیس زیر سماعت ہے۔ اس تنازعہ میں بھارتی مسلمانوں کیلئے خیر کا ایک پہلو بھی چھپا ہے۔ پچھلے 70سالوں سے مسلم طبقہ کو ایک طرح سے تقسیم کا ذمہ دار ٹھہرا کر دائمی احساس جرم میں مبتلا کرکے رکھا گیا ہے۔ اس معاملہ میں سیکولر کانگریس اور راشٹریہ سیوم سنگھ (آر ایس ایس) کا موقف یکسا ں ہے۔ جہاں تقسیم اور اسکے محرکات پر کہیں بحث چھڑ گئی ، دونوں تنظیمیں اکٹھا ہوکر اسکو دبانے میں لگ جاتی ہیں۔بی جے پی کے اعتدال پسند لیڈر جسونت سنگھ نے جب Jinnah India-Partition Independence کتا ب لکھ کر محرکات پر (باقی صفحہ13پر ملاحظہ کریں) پردہ اٹھایا تو آر ایس ایس اور کانگریس دونوں نے یکجاہوکر ان کو سیاست سے ہی کنارہ کروایا۔ بی جے پی کے سابق صدر لال کشن ایڈوانی کا حال بھی سامنے ہے۔ وقت آگیا ہے کہ مسلمان اور انکے لیڈران تاریخ کے دریچے کھول کر تقسیم اور لیڈروں کے کردار پر کھل کر بحث کریں اور ان سبھی لیڈروں کو بے نقاب کریں جنہوں نے مسلمانوں کو بے وقعت کرنے کی قسم کھائی ہوئی تھی اور جن کی ہٹ دھرمی نے تقسیم کے علاوہ کوئی آپشن نہیں چھوڑا۔ وہ مسلمانوں کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہتے تھے ، جو انہوں نے بدھ مت، جین مت، سکھوں ، بھکتی تحریک وغیرہ کے ساتھ کیا ہے۔ اس ذہنیت نے ہر اس انقلابی ،مذہبی یا روحانی تحریک کو نگلا ہے، جس نے بھی اس کو چیلنج کرنے کی ہمت کی ہو۔ ان کی نیت صرف یہ تھی کہ مسلمانوں کے اندر سے وہ جوہر کھینچ کیا جائے جو انہیں زندہ اور بے باک رکھتا ہے۔بس یہی ایک چیز ہے جس سے ہندو فرقہ پرست عفریت پیچ و تاب کھا رہا ہے اور شکار پھانسنے کے نئے نئے منصوبے بناتا رہا ہے۔مسلمانوں کو معتوب بنانے کیلئے اسکو دائمی احساس جرم میں مبتلا رکھا گیا ہے، تاکہ وہ اپنے حقوق کا مطالبہ نہ کرے۔ سیکولر کانگریس کو خدشہ ہے کہ اگر یہ بحث چھڑ گئی تو نہ صرف اسکا سیکولر جامہ اتر جائے گا، بلکہ اسکے لیڈران کا پول بھی کھل جائے گی۔