معزز قارئین!۔ کل 13 محرم اُلحرام (13 ستمبر ) کو، روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ نے بنتِ مولا علی ؑ و ہمشیرۂ محترمہ حسنینِ کریمین علیہ السلام ، بی بی زینب سلام اللہ علیہا کی عظمت، علم و فضل و جُرأت کردار سے متعلق ایک خصوصی، معلوماتی اور خوبصورت ایڈیشن شائع کِیا۔ علامہ سخی احمد صاحب نے اپنے مضمون میں عاشقِ رسول ؐعلاّمہ محمد اقبالؒ کا یہ فارسی شعر شامل کِیا کہ … حدیث ِعشق ، دو باب اَست ، کربلا و دمِشق ! یکے حُسین ؑ رقم کرد ، دیگرے زینب س! یعنی۔ ’’عشق کی حدیث ( ارشاداتِ رسول ؐ ) کے دو باب ہیں ۔ ایک نواسۂ رسولؐ اور جگر گوشۂ بتول حضرت امام حسین علیہ السلام نے میدانِ کربلا میں لکھا اور دوسرا دمشق ( دربارِ یزید ) میں انتہائی جُرأت کا مظاہرہ کرتے ہُوئے سیّدہ زینب سلام اللہ علیہا نے ‘‘۔ مضمون نگار محترمہ راضیہ نوید صاحبہ نے اپنے مضمون کا آغاز بھی اِسی مفہوم سے کِیا۔ لکھتی ہیں کہ’’کتابِ کربلا ، دو ابواب پر مشتمل ہے ایک باب کا عنوان ’’ شہید کربلا امام حسین علیہ السلام ‘‘ہے اور دوسرے باب کا عنوان ’’سفیرۂ کربلا سیّدہ زینب سلام اللہ علیہا ‘‘ہے ۔ معزز قارئین!۔ حضرت امام حسین ؑ ، اُن کے خاندان کے افراد اور ساتھیوں کی شہادت کے بعد ، اِسلام کو زندہ رکھنے میں بی بی زینب سلام اللہ علیہا کا کردار ناقابلِ فراموش ہے ۔ سانحۂ کربلا کے بعد مدینہ سے کربلا اور کربلا سے شام تک، شُہدائے کربلا کی بیوائوں اور اُن کے یتیم بچوں کو اپنی سرپرستی میں لے کر سیّدہ زینب سلام اللہ علیہا کا سفر ۔ کوفہ اور شام کے بازاروںمیں اُن کی تقریروں ، یزید کے دربار میں ، فصیح و بلیغ خطبوں اور برجستہ جوابات کے بارے میں مؤرخین لکھتے ہیں کہ ’’ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ، گویا حضرت علی مرتضیٰ ؑ خطبہ دے رہے ہیں ‘‘۔ سیّدہ زینب سلام اللہ علیہا کا نام نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم نے رکھا تھا ۔ امام حسین ؑ اپنی بہن کی بہت عزّت کرتے تھے جب، سیّدہ زینب سلام اللہ علیہا اُن کے پاس تشریف لاتیں تو آپ ؑ کھڑے ہو جاتے اور اُنہیں اپنی جگہ بٹھاتے۔ ’’مصورِ پاکستان‘‘ علاّمہ محمد اقبالؒ اور ’’ بانیٔ پاکستان‘‘ قائداعظم محمد علی جناحؒ عاشقانِ رسولؐ و مولا علی ؑ تھے اور اہلِ بیت ؑ سے بہت عقیدت اور محبت رکھتے تھے ۔ اپنی ایک نظم میں علاّمہ اقبالؒ نے تو، مولا علی ؑ کے پیروکار ہونے کی حیثیت سے خود کو مولاؔئی قرار دِیا ۔ فرمایا کہ… بغضِ اصحابِ ثلاثہ ، نہیں اقبال ؔکو! دِق مگر اِک خارجیؔ آ کے مولاؔئی ہُوا! قیام پاکستان سے پہلے ایک صحافی نے قائداعظمؒ سے پوچھا کہ ’’ آپ ؒ شیعہ ہیں یا سُنی ؟‘‘ ۔ تو قائداعظمؒ نے کہا کہ ’’مَیں تو ایک عام مسلمان ہُوں لیکن’’ باب اُلعلم‘‘ حضرت علی مرتضیٰ ؑ کا یوم ولادت اور شہادت ہم سب مسلمان مل کر مناتے ہیں ۔ معزز قارئین!۔ قیام پاکستان میں اہل سنت اور اہلِ تشیع کے عُلماء کرام اور اُن کے پیروکاروں نے جدوجہد کی تھی لیکن، افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ ’’ خود مسلم لیگ کے نام سے سیاست کرنے والے کئی سیاستدانوں نے ، علاّمہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے افکار و نظریات پر عمل نہیں کِیا؟۔ 31 جنوری 2016ء کو شام کے داراُلحکومت دمشق میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے مزار کے قریب بم دھماکے ہُوئے اور پھر خود کُش حملہ آوروں نے خود کو بھی اُڑا لِیا تو، 60 سے زیادہ لوگ شہید ہُوئے اور متعدد زخمی۔ بین اُلاقوامی اور پاکستانی نیوز چینلوں پر بھی دھماکے کی خبر دِکھائی اور سُنائی گئی اور یہ بھی بتایا گیا کہ ’’ دہشت گرد تنظیم داعش ‘‘ نے مزارِ سیّدہ زینب سلام اللہ علیہا کے قریب دھماکے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے ‘‘۔ صدر مسلم لیگ (ن) میاں نواز شریف وزیراعظم تھے (اُن دِنوں ) پاکستان کا کوئی وزیر خارجہ نہیں تھا لیکن، وزیراعظم کے معاونِ خصوصی امورِ خارجہ (حضرت سیّدہ فاطمۃ اُلزہر ہ سلام اللہ علیہا کی اولاد کہلانے والے )سیّد طارق فاؔطمی تھے لیکن، ہماری وزارتِ خارجہ نے بی بی زینب سلام اللہ علیہا کے مزار پر دہشت گردی پر بین الاقوامی سطح پر احتجاج کرنے پر کوئی خاص توجہ نہیں دِی تھی۔ معزز قارئین!۔ ہر دَور میں اُمت ِ مسلمہ کے نامور اصحاب اور خواتین نے با عزّت زندگی گزارنے کے لئے حضرت امام حسین علیہ السلام اور بی بی زینب سلام اللہ علیہا کے اُسوہ ٔ حسنہ کی پیروی کرتے رہے ۔ اُسوۂ حضرت زینب سلام اللہ علیہا پاکستان کی تاریخ میں 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب کی اہمیت بہت زیادہ تھی ، جب کنونشن مسلم لیگ کے صدر ، فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے مقابلے میں ، قائداعظمؒ کی ’’ہمشیرہ محترمہ ‘‘ محترمہ فاطمہ جناحؒ کونسل مسلم لیگ ( پھر متحدہ اپوزیشن کی امیدوار تھیں ) ۔ ’’ مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ جناب مجید نظامی نے محترمہ فاطمہ جناحؒ کو ’’ مادرِ ملّت‘‘ کا خطاب دِیا۔ مَیں اُن دِنوں سرگودھا میں ’’ نوائے وقت‘‘ کا نامہ نگا ر تھا۔ مَیں نے پنجاب کے کئی شہروں میں ’’مادرِ ملّت‘‘ کے بڑے بڑے جلسوں میں شرکت کی۔ تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) ایک قد آور سیاستدان ، میانوالی کے مولانا عبداُلستار خان نیازی نے جب،کئی جلسوں سے خطاب کرتے ہُوئے یہ اعلان کِیا کہ ’’ مادرِ ملّت ‘‘ محترمہ فاطمہ جناحؒ کے خطابات سے سانحۂ کربلا کے بعد اُسوۂ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی روایت ڈال دِی گئی ہے ‘‘۔ مولانا عبداُلستار خان نیازی کے اِس اعلان کے بعد ، مادرِ ملّت کے کئی عوامی جلسوں میں ، مقررین نے بھی مولانا عبداُلستار خان نیازی کی تقلید میں ، اِسی طرح کا خطاب کِیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دَور (ستمبر1996ء میں ) مَیں نے ایک خبر پڑھی کہ ’’ تحریکِ نفاذِ فقہ جعفریہ‘‘ کے سربراہ آغا سیّد حامد علی شاہ موسوی نے وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی دعوت پر وزیراعظم ہائوس جانے سے معذرت کرلی ہے‘‘تو، مَیں نے آغا جی سے پہلی ملاقات کی ۔ اُنہوں نے علاّمہ اقبال ؒ اور قائداعظمؒ کو قوم کے ہیرو قرار دِیا اور ’’ مادرِ ملّت ‘‘ کو مارشلائی دَور میں شریکتہ اُلحسین ؑ ، سیّدہ زینب سلام اللہ علیہا بنت ِ علی ؑ کا کردار ادا کرنے پر خراج تحسین پیش کِیا۔ جنابِ آصف زرداری نے اپنے صدارتی دَور میں اپنی ہمشیرہ فریال تالپور صاحبہ کو ’’مادرِ ملّت ثانی‘‘ مشہور کرنے کی کوشش کی تھی۔ جولائی 2018ء سے پہلے کیپٹن (ر) محمد صفدر نے بھی اپنی خوش دامن بیگم کلثوم نواز کو ’’مادرِ ملّت ثانی‘‘ کا خطاب دِیا لیکن، دلچسپ بات یہ تھی کہ ’’ 5جولائی 2017ء کو اسلام آباد کی جوڈیشل اکیڈمی میں پانامہ لیکس کیس کی تحقیقات کے لئے سپریم کورٹ کی مقرر کردہ ’’ جے ۔ آئی۔ ٹی ‘‘ (Joint Investgation Team) کے رُو برُو پیش ہونے سے پہلے میڈیا سے خطاب کرتے ہُوئے ، مریم نواز صاحبہ نے حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے اُسوہ پر چلنے کی خواہش کا اظہار کِیا تو، مَیں نے اپنے 6 جولائی 2017ء کے کالم میں لکھا کہ ’’ پھر لندن میں مقیم مریم نواز صاحبہ کے دونوں بھائی حسن ؔنواز اور حسین ؔ نواز کیا کردار ادا کریں گے ؟‘‘۔ بہرحال معزز قارئین!۔ مَیں نے 2007ء میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہُوئے اپنی منقبت میں جو کچھ کہا ، حاضرِ خدمت ہے … خُدا کی رحمت ، مَدام ، تُم پر! رِدائے خَیراُالاَنامؐ ، تُم پر! بتُول س کا نُورِ تام، تُم پر! علیؑ کی بیٹی س سلام تُم پر! …O… قبیلہء پَنج تن ؑکی عظمت! اے نیک خُو ! بِنتِ بابِ حِکمت ؑ! ثناگری، صُبح و شام، تُم پر! علیؑ کی بیٹی س سلام تُم پر! …O… جہاں کو پیغام ِ حقّ سُنایا! حُسینَیِتؑ کا ، عَلم اُٹھایا! ہوں کیوں نہ نازاں اِمام ؑ تُم پر! علیؑ کی بیٹی س سلام تُم پر! …O… مُلوکِیت ، جیسے غم کدہ، تھی! یزِیدیت ، زلزلہ زدہ ، تھی! ہے ختم، زورِ کلام ،تُم پر! علیؑ کی بیٹی س سلام تُم پر! …O… وفا کے پَیکر ، شُمار ہوتے! وہاں ، جو ہوتے ، نِثار ہوتے! نبیؐ کے سارے ، غُلام تُم پر! علیؑ کی بیٹی س سلام تُم پر! …O… اثرؔ جو پایا ، اشارۂ ربّ! تو رکھّا ، ناناؐ نے نام زَینبس! ہے خُوب سجتا ہے ، نام تُم پر! علیؑ کی بیٹی س سلام تُم پر!