برصغیر پاک و ہند میں اولیاء کرام نے اشاعت اسلام میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے ۔ اس سلسلے میں چشتیہ کے اولیائے عظام کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ یہ نفوس قدسیہ پیکر شریعت و طریقت احسن طریقے سے اسلامی نور و بصیرت مخلوق خدا تک پہنچاتے رہے ۔ ان ہی باکمال بستیوں میں حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا شمار ہوتا ہے ۔ آپ نے علاقہ پوٹھوہار کے قصبہ گولڑہ شریف کو اپنا مسکن بنایا۔ وہ شمع تھی جس کی کرنیں پوری دنیا میں پھل گئیں۔ حضرت سید پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ تعالیٰ کو اللہ تعالیٰ نے فرزند ارجمند سید غلام محی الدین شاہ گیلانی سے نوازا۔ حضرت بابو جی کی تعلیم و تربیت آپ کے والد گرامی نے فرمائی۔ اس تعلیم و تربیت نے حضرت بابو جی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات والا صفات کو ایسا روشن آئینہ بنا دیا کہ جس کی نظیر نہیں ملتی۔ حضرت بابو جی کے ہاں دو فرزندان ارجمند کی ولادت باسعادت ہوئی جن کے اسمائے گرامی خود حضرت اعلیٰ پیر مہر علی شاہ صاحب نے رکھے اور حسب روایت اپنے پوتوں کی تعلیم و تربیت کا آغاز اپنی زیر نگرانی کیا جس کو حضرت قبلہ بابو جی نے تکمیل تک پہنچایا اور علم حاصل کرنے کے لیے ممتاز عالم دین حضرت مولانا غلام محمد شیخ الجامعہ اسلامیہ بہاولپور کے پاس بھیجا۔ حضرت بابو جی کی ہدایت کے مطابق بہاولپور سے گولڑہ شریف تک ٹرین کے تھرڈ کلاس ڈبے میں سفر کرتے تاکہ مشکلات برداشت کرنے کے عادی ہو جائیں۔ تعلیم کی طرف خصوصی توجہ کے علاوہ حضرت بابو جی نے اپنے خطوط میں اپنے صاحبزادگان کو لوگوں میں گھل مل کر رہنے کی تلقین بھی فرمائی۔ خودنمائی سے بچنے اور حضرت اعلیٰ پیر مہر علی شاہ صاحب کا سچا خادم بننے پر زور دیا۔ حضرت بابو جی دونوں صاحبزادگان کو سفر و حضر میں اپنے ہمراہ رکھتے تھے جس سے ان میں مثالی اتفاق و محبت پیدا ہوا اور وہ یک جان اور دو قلب ہوئے ۔ ان کی ذات اخلاق حسنہ کا نادر نمونہ تھی۔ آپ نے ساری زندگی یاد الٰہی اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی‘ خدمت خلق اور مخلوق کی رشد و ہدایت میں بسر کی۔ مارچ 1997ء میں حضرت بڑے لالہ جی کے وصال کے بعد حضرت شاہ عبدالحق گیلانی درگاہ شریف کے تمام امور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے احسن طریقے سے انجام دیتے رہے ۔ تمام تر ظاہری مصروفیات کے ساتھ ساتھ یاد الٰہی‘ عبادت اور ریاضت میں مصروف رہتے تھے ۔ گویا آپ حضرت بابو جی کی اس تلقین پر عمل پیرا رہے کہ میں یہ نہیں کہتا کہ دنیا سے الگ تھلگ ہو کر رہو لیکن جہاں بھی رہو با خدا رہو۔ آپ اپنے دادا بزرگوار پیر مہر علی صاہ رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک و مشرب کے امین رہے ۔ آپ نے ان کی تعلیمات میں ذرہ برابر فرق نہ آنے دیا۔ آپ اپنے خاندانی وجاہت و کمال کے آئینہ دار تھے اور ان تمام اوصاف کے مظہر تھے جو گلشن مہر علی کے ہر پھول کا طرۂ امتیاز ہے ۔ انتہائی خلوص و محبت کے ساتھ مہمانوں کے آرام و آسائش کا پورا خیال رکھتے تھے ۔ آپ پیکر اخلاص و محبت‘ سراپا عجز و انکسار‘ نرم خو اور شگفتہ مزاج تھے ۔ نہایت ہی فیاض اور کم گو تھے ۔ غرباء اور مساکین کے ساتھ بے حد شفقت سے پیش آتے تھے ۔ آپ کے الفاظ میں سکون بخش تاثیر اور دعا میں بے حد اثر تھا۔ آپ کا وصال یوم عرفہ کے دن ہوا اور آپ کے جنازے میں لوگوں کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ دعا ہے کہ ہمیں جو گلستان مہر علی سے نسبت ہے وہ تاقیامت برقرار رہے اور شاہ جیلاں کی چوکھٹ سلامت رہے تا قیامت رہے ۔ آمین ثم آمین۔