سرینا کے سامنے سے گزرتے ہوئے’ کرفیو کائونٹر‘ پر نظر پڑی تو معلوم ہوا کشمیر میں کرفیو کو 100 دن ہو چکے۔ دل لہو سے بھر گیا۔ گیبریئل گارشیا مارکیز کا ’’تنہائی کے 100 سال‘‘ یاد آ گیا۔ اب بیٹھا سوچ رہا ہوں سری نگر کے محلے حیدر پورہ میں بیٹھے علی گیلانی بھی ’’ تنہائی کے 100 دن‘‘ کے نام سے ایک ناول لکھ دیں تو نارسائی کے ان موسموں میںکیا عجب ایک ایسا شاہکار تخلیق ہو جائے کہ Magic Realism کو حقیقی معنوں میں مجسم کر دے۔ علی گیلانی ایک فرد واحد نہیں، وہ عزیمت کا استعارہ ہیں۔ جانے کیوں ان کے چہرے کی جھریوں میں صدیوں کا پھیر نظر آتا ہے۔سالوں پہلے جب آئوٹ آف باکس سالوشن کا غلغلہ تھا میں نے اپنے شو میں انہیں فون پر زحمت دی۔سادہ سا سوال ،سیدھا سا جواب اور پھر ایک طویل چپ۔پروگرام کا تقاضا نہ ہوتا تو مزید بولنے کا یارا تھا نہ ضرورت۔سوال تھا : زمینی حقائق کی روشنی میں کشمیر کا امکانی حل کیا ہو سکتا ہے؟ جواب ملا : ایک ہی امکان ہے، حق خود ارادیت لیں گے یا شہید ہو جائیں گے۔اس لمحے مجھے لیبیا کا عمر مختار آیا۔ پائوں میں بیڑیاں اور ہاتھوں میں ہتھ کڑیاں ڈال کر اس بوڑھے کو اٹلی کے جرنیل کے سامنے لایا گیا تو اس نے بھی کچھ ایسا ہی سوال پوچھا تھا۔ مارشل روڈولفو کی گواہی ہے کہ عمر مختار نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیا: یہ تو ہو سکتا ہے کہ تم ہم سب کو مار دو، لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم میں کوئی ایک بھی سرنڈر کر دے۔صدیاں بیت جاتی ہیں اور ہم سمجھتے ہیں وقت بدل گیا لیکن وقت خود کو دہراتا ہے اور ایک طرف کھڑے مسکراتا رہتا ہے۔ہر دور کا ایک عمر مختار ہوتا ہے، وہ کبھی ولیم ایلس کی شکل میں ظہور کرتا ہے تو گاہے بھگت سنگھ کی شکل میں۔ علی گیلانی ہمارے دور کا عمر مختار ہے۔ ارنسٹ ہیمنگوے کا مختصر سا ناول ’’ اولڈ مین اینڈ دا سی‘‘کا وہ بوڑھا سانتیاگو میرا پسندیدہ کردار تھا۔But man is not made for defeat. A man can be destroyed but not defeated.۔ اس جیسے کتنے ہی دائیلاگ تھے ، پڑھتا اور کتاب بند کر دیتا۔ چشم تصور مجھے کسی دور افتادہ ساحل پہ لا پٹختی اور میں میں بوڑھے ماہی گیر کے جھریوں بھرے ماتھے کا بوسہ دیتا۔’’ آدمی ہار جانے کے لیے نہیں بنا۔آدمی برباد تو ہو سکتا ہے لیکن ہار نہیں سکتا‘‘۔ اس فقرے میں کیا جادو ہے، وجود میں جلترنگ بج اٹھتے ہیں۔ آج مگر سری نگر کے مقتل میں بے بسی کے 100 دن پورے ہونے پر مجھے نہ عمر مختار یاد آ رہا ہے نہ ولیم ویلس۔ آج گبریئل گارشیا مارکیز ہی کا ایک اور ناول یاد آ رہا ہے اور بے طرح یاد آ رہا ہے۔No One Writes to the Colonel۔ کرنل کو کوئی خط نہیں لکھتا۔ اس فقرے میں وہی درد ہے جو سٹیشن سے روانہ ہوتی ریل کی سیٹی میں ہوتا ہے۔’’ تنہائی کے 100 سال‘‘ اگر آپ سو دفعہ بھی پڑھ لیں تو آپ کا مطالعہ ادھورا ہے۔ یہ تب مکمل ہوتا ہے جب آپ ’’ کرنل کو کوئی خط نہیں لکھتا ‘‘ بھی پڑھ ڈالیں۔یہ ناول میں نے کتنی ہی مرتبہ پڑھا ہے اور محسوس کر کے پڑھا ہے۔ یہ ان چند کتابوں میں سے ایک ہے جو گویا مجھ پر بیت گئیں اور اب میرے لاشعور کا حصہ ہیں۔جانے کیوں آج صبح سے یوں محسوس ہو رہا ہے گارشیا کے کرنل اور سری نگر کے گیلانی کا دکھ سانجھا ہے۔ نہ کرنل کو کوئی خط آتا تھا نہ علی گیلانی کے نام کوئی سندیسہ بھیجتا ہے۔دونوں اپنے وقار اور اپنی وجاہت تھامے انتظار میں ہیں۔کوئی دکھ سا دکھ ہے۔ No One Writes to the Colonel میں باقی سب زیب حکایت ہے۔ کہانی بس اتنی ہی ہے کہ ’’ کرنل کو کوئی خط نہیں لکھتا‘‘۔ اس ایک فقرے میں جو درد چھپا ہے اس کی تفہیم کے لیے بھلے تنہائی کے100 سال پڑھ لیجیے یا اسی ناول کو بار بار اور بار بار پڑھتے رہیے، درد کے کچھ مضامین پھر بھی بلا عنوان رہ جائیں گے۔شاید یہ بیان کی چیز ہی نہیں ہے، اس کا تعلق صرف احساس سے ہے۔کرنل اور گیلانی میں کتنی مماثلت ہے؟ شاہد بہت، شاید بالکل نہیں۔ یہ اپنا اپنازاویہ نگاہ ہے۔ کرنل اپنی عمر رسیدہ بیوی کے سات ایک یخ بستہ گائوں میں رہتا ہے ۔اس کا بیٹا شاید مارا جا چکا۔ ناول کا آغاز ایک جنازے کے لیے کرنل کی تیاری سے ہوتا ہے ۔یہ جنازہ اس شخص کا ہے جو سالوں بعد اس بستی میں قدرتی موت مرنے والا پہلا آدمی ہے۔کرنل کو اپنی پنشن کا انتظار ہے۔ انیس سال پہلے کانگریس نے قانون بنایا، کرنل کو اپنا حق ثابت کرنے میں آٹھ سال لگے اور فہرست میں نام ڈلوانے میں کرنل کو مزید چھ سال لگ گئے۔ہر صبح کرنل ڈاکیے سے پوچھتا ہے :میرے نام کوئی خط اور جواب ملتا ہے نہیں۔ پھر یہ نوبت آتی ہے کہ سوال سے پہلے ہی جواب آ جاتا ہے : Nothing for the Colonel.۔ ایسے ہی ایک مرحلے پر کرنل جواب پا کر پاس بیٹھے ڈاکٹر سے کہتا ہے : کرنل کو کوئی خط نہیں لکھتا۔ عزت نفس اور بانکپن کا یہ عالم ہے کہ تپتا جسم دیکھ کر بیوی کہتی ہے آپ کو بخار ہو گیا تو وہ مسکرا دیتا ہے:کرنل کو بخار نہیںہو سکتا، جس روز بخار ہو گیا میں خود کو کوڑے کے ڈرم میں پھینک دوں گا۔ ایک روز بیوی اس سے کہتی ہے:we are orphans of our son۔ کتنی معنویت ہے اس فقرے میں؟گویا کشمیر کے مقتل کا نوحہ ہو۔وہی بستی، وہی لاشے ، وہی انتظار ، وہی مایوسی۔ کون کہتا ہے وقت بیت جاتا ہے، وقت تو دائروں کی مسافت کا نام ہے۔لوٹ لوٹ آتا ہے۔ سوچتا ہوں اس بوڑھے کرنل کی طرح سید علی گیلانی بھی اپنے وقار اور متانت کو تھامے روز دیکھتے ہوں گے ، شاید کوئی خط آیا ہو، پاکستان سے، او آئی سی سے یااقوام متحدہ سے۔مگر سہمی فضائیں جواب دیتی ہوں گی: علی گیلانی کے لیے کوئی خط نہیں آیا۔ علی گیلانی کو اب کوئی خط نہیں لکھتا۔