علیم خان کو نیب نے گرفتار کر لیا اور گرفتاری کے ساتھ ہی علیم خان نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا۔تبدیلی اور کسے کہتے ہیں؟اسی کا نام تبدیلی ہے۔ تبدیلی کا یہ سفر بھلے اب چیونٹی کی رفتار سے طے ہو ،اسے روکا نہیں جا سکتا۔خود عمران خان بھی چاہیں تو روک نہ پائیں۔ بد گمانی ساون کی رم جھم ہوتی ہے۔ قطروں کا شمار ممکن نہیں۔علیم خان کی گرفتاری پر بھی بد گمانی میں لپٹے کئی اندیشے سر اٹھائیں گے۔اس کے استعفے کی بھی کئی تاویلات کی جائیں گی۔لیکن جب تک یہ اندیشے اور یہ تاویلات حقیقت بن کر سامنے نہیں آتے اس پیش رفت کو صرف قانون کی حکمرانی کہا جائے گا اور تبدیلی کے باب میں درج کیا جائے گا۔ہاں کبھی یہ گمان حقیقت بن کر سامنے آ گئے تو الگ بات ہے۔وہ وقت آیا تو ہم جیسوں کو ’ترکش‘ خالی کرتے ایک لمحہ نہیں لگے گا۔ جہانگیر ترین عمران خان کے سب سے قریبی ساتھی تھے، وہ تاحیات نا اہل ہو چکے۔اعظم سواتی استعفی دے کر گھر جا چکے ، عمران خان کی بہن قانون کا سامنا کر رہی ہیں اور اب علیم خان کو نیب نے گرفتار کر لیا ہے۔عمران خان ان میں سے کسی کی مدد کو نہیں پہنچے۔وہ قانون اور اپنے قریبی عزیزوں اور رفقاء کے درمیان حائل نہیں ہوئے۔کیا اب بھی اس نا معتبر دلیل کا سہارا لیا جا سکتا ہے کہ احتساب صرف ان کا ہو رہا ہے جو عمران خان کی مخالف صف میں کھڑے ہیں؟ علیم خان اور جہانگیر ترین گویا عمران خان کے میمنہ اور میسرہ کے سالار تھے۔ دونوں قانون کی گرفت میں آ گئے ۔طعنہ دیا جاتا تھا کہ تحریک انصاف ایک لانڈری ہے جس میں سب کچھ دھل جاتا ہے۔ ایسا ہی تھا تو یہ لانڈری جہانگیر ترین اور علیم خان کے داغ کیوں نہ دور کر سکی؟اہم ترین لوگوں میں سے ایک تاحیات نا اہل ہو چکا اور ایک گرفتار کر لیا گیالیکن تحریک انصاف کی زبان پر شکوہ تک نہیں آیا۔ علیم خان کی گرفتاری پر خود تحریک انصاف کے کارکنان نے کہا اللہ کا شکر ہے ملک میں قانون کی حکمرانی کے نقوش واضح ہو رہے ہیں۔کیا یہ تبدیلی نہیں ہے؟ ہمیں ایک بات سمجھنی چاہیے کہ سیاسی اور جمہوری معاشرے میں تبدیلی راتوں رات نہیں آتی ، یہ دھیرے دھیرے ارتقاء کی صورت ظہور کرتی ہے۔عمران خان کی حکومت کے چند مہینوں میں ارتقاء کا یہ سفر بہت نمایاں اور بہت واضح ہے۔عمران خان سے یہ توقع کبھی بھی نہیں تھی کہ وہ اللہ کا ایسا برگزیدہ بندہ ہے جس کی ایک نگاہ لوگوں کی زندگیاں بدل دیتی ہے۔جیسے ہی اقتدار میں آئے گا دودھ اور شہد کی نہریں پھوٹ پڑیں گی ۔عمران اسی عالم اسباب میں اسی سیاست کا ایک کردار ہے اور دوسروں کی طرح اسباب زندگی کا محتاج۔ جیتنے کے لیے الیکٹیبلز کا اور حکومت قائم رکھنے کے لیے نمبر گیم کا۔ اس کے بارے میں صرف اتنا گمان تھا کہ دوسروں سے بہتر ہے ، کرپٹ نہیں ہے اور اس میں کچھ کرنے کا جذبہ زندہ ہے۔ خوابوں کے شیش محل تعمیر کر لینا الگ بات ہے ، حقیقت یہ ہے کہ جتنے اسے ووٹ ملے ، وہ اتنی ہی تبدیلی لا سکتا ہے۔دو تہائی اکثریت ملی ہوتی تو تبدیلی کا حجم بھی دو تہائی ہوتا۔ اب حلیفوں سے مل کر حکومت بنی ہے تو جتنے حلیف ہوں گے اتنی مصلحتیں بھی ہوں گی اور اتنے کمپرومائز بھی کرنا پڑیں گے۔فیصلہ اب جز پر نہیں ، کُل پر ہو گا اور اس میں کیا شک ہے کہ اپنی کئی خوفناک غلطیوں اور نا پسندیدہ کمپرومائزز کے باوجود مجموعی طور پر یہ حکومت سابقہ حکومتوں سے بہتر ہے اور اس کی صورت ایک امید آج بھی زندہ ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ عمران خان اپنے تصورات کے مطابق اپنے قائم کر دہ معیارات پر قائم نہیں رہ سکے۔انہیں علیم خان اور جہانگیر ترین کے خلاف خود ہی کوئی فیصلہ کر لینا چاہیے تھا ۔ لیکن وہ ان دو مال دار ترین شخصیات کے معاملات کو جان بوجھ کر نظر اندازکرتے رہے۔یہ اعتراض بھی اپنی جگہ غلط نہیں کہ عمران خان نے اعظم سواتی کے معاملے میں بھی چشم پوشی سے کام لیا اور عدالت کے حکم کے باوجود اعظم سواتی کا استعفی قبول نہیں کیا گیا۔ عوام سے کہہ دیا گیا کہ اعظم سواتی مستعفی ہو گئے ہیں لیکن استعفی قبول کیا گیا نہ ان کے مستعفی ہونے کا نوٹی فیکیشن جاری کیا گیا۔ جب روزنامہ 92 میں خبر شائع ہو گئی اور سپریم کورٹ نے پوچھ لیا تب جا کر حالت مجبوری میں یہ کڑوا گھونٹ پیا گیا۔اچھی شہرت نہ رکھنے والوں کو پارٹی میں شامل کیا اور ان کے نامہ اعمال کے بوجھ سے اپنی حکومت کی کمر دہری کروا لی۔اپنی حکومت کا اخلاقی وجود دائو پر لگا دیا۔ لیکن ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا کہ قانون نے جب بالآخر عمران کے قریبی لوگوں کے در پر دستک دی تو عمران نے اپنا وزن اپنے رفقاء کے پلڑے میں نہیں ڈالا۔ جہانگیر ترین ، پھر اعظم سواتی ، علیمہ خان اور اب علیم خان، کیا پارٹی کے کسی ایک رہنما نے بھی قانون کے مقابلے میں ان شخصیات کا ساتھ دیا ؟دلوں کے حال اللہ جانتا ہے۔ ہو سکتا ہے حکومت نے یہ سب کچھ بھاری دل سے قبول کیا ہو۔ہو سکتا ہے حکومت ان سب کو بچانا چاہتی ہو لیکن عومی دبائو اور رد عمل کے ڈر سے نہ بچا سکی ہو لیکن دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے اگر ایسا بھی ہے تو کیا یہ تبدیلی نہیں ہے؟ جمہوریت میں تبدیلی ہوتی کیا ہے؟ یہی کہ عوامی شعور حکمرانوں کو راہ راست پر رکھے اور حکمران غلط فیصلہ کرتے وقت دس بار سوچے کہ شعور اجتماعی اسے قبول کرے گا یا نہیں۔ جمہوریت کو اس لیے اچھا نہیں کہا جاتا کہ اس میں حکمران انتخابات جیتنے کے ساتھ ہی اللہ کا ولی بن جاتا ہے بلکہ جمہوریت کو اس لیے اچھا کہا جاتا ہے کہ حکمران عوامی شعور اور رد عمل کے ڈر سے غلط فیصلے نہیں کرتا یا کرتا ہے تو بہت کم۔عمران خان کی کامیابی یہ ہے کہ سماج میں یہ شعور اور یہ حساسیت اس نے بیدار کر دی ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ ہر شام اس کی اپنی حکومت کٹہرے میں کھڑی ہوتی ہے اور سوشل میڈیا پر اس کے اپنے وابستگان اس پر فرد جرم پڑھ کر سنا رہے ہوتے ہیں۔اندھی تقلید بھی کافی کی جاتی ہے اور بد ذوقی کی حد تک مگر جب فرد جرم پڑھی جاتی ہے تو اس کے اپنے کارکنان کا لہجہ بے باک ہوتا ہے۔ایسے گستاخ وابستگان بھی تبدیلی ہی کا نقش کہلائے جاتے ہیںکہ وابستگی اور برہمی کے اسی امتزاج کا نام تبدیلی ہے۔