ہم نے جو کچھ بھی کیا اپنی محبت میں کیا گو سمجھتے ہیں زمانے کی ضرورت کیا تھی ہو جو چاہت تو ٹپک پڑتی ہے آنکھوں سے اے مرے دوست بتانے کی ضرورت کیا تھی آج ہم خان صاحب کے حق میں ایک کالم لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں مگر اس سے پہلے دو پیاری سی خبریں سامنے آ گئیں اور ہم بے کل ہو گئے۔ نظرانداز کریں گے تو دل میں حسرت اظہار رہ جائے گی۔ اخبار کے صفحۂ اول پر ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی مرتبہ ماسک کے ساتھ تصویر نظر نواز ہوئی ہے۔ لکھا ہے کہ ٹرمپ نے پہلی مرتبہ ماسک پہن لیا چونکہ یہ اولین کاوش ہے اس لیے ماسک ذرا بڑا پہن لیا ہے کہ آخر امریکہ کے صدر کا ماسک ہے۔ یا پھر ماسک ہی کچھ بڑا ہے کہ صرف آنکھیں ہی باہر رہ گئی ہیں اور وہ بھی بجھی بجھی سی۔ اگر تحریر ساتھ نہ ہو تو کوئی شخص بھی نہیں پہجان سکتا کہ ماسک کے پردے کے پیچھے کون ہے پردے سے میرا دھیان کہیں کا کہیں چلا گیا ’’پردے میں رہنے دو‘‘کی بلاغت بھی میرے سامنے ہے۔ ٹرمپ کی آنکھوں پر تو بظاہر کوئی پر دہ نہیں۔ علامتی یا تخلیقی بیانیہ اپنی جگہ ہے کہ آپ تعصب کا پردہ بھی استعمال کرتے ہیں اور خود غرضی کا بھی۔ یہ حجاب ہی تو ہے اور جب یہ اٹھ جاتا ہے تو پھر کچھ بھی ممکن ہو سکتا ہے۔ مولانا روم نے کہا تھا: چون غرض آمد ہنر پوشیدہ شد صدحجاب از دل بسوئے دیدہ شد یعنی جب خود غرضی انسان کو پکڑتی ہے تو پھر اس کے دل کے سو پردے اس کی آنکھوں پر آن پڑتے ہیں اور اس کو کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے بعد بندہ وہی کچھ کرتا ہے جو اس کا دل چاہتا ہے۔ اچھے برے کا امتیاز ختم ہو جاتا ہے۔ دوسری خبر بھی ماسک کے حوالے سے ہے کہ ایک اردنی شیف بینگن کے چھلکوں سے ماسک تیار کیا۔ ہم تو سمجھے تھے کہ بینگن صرف تھالی کا ہی ہوتا ہے۔ ویسے اس محاورے کے مطابق ہی بینگن کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کر لیا گیا ہے کہ اس کے چھلکے سکھا کر پھر نمک لگا کر، ماسک میں ڈھال دیا گیا۔ اسے خوش نما بنانے کے لیے ڈیزائنر کی خدمات حاصل کی گئیں۔ واقعتاً یہ فنکار بھی کمال ہوتے ہیں جو بینگن کو خوش نما بنا دیں۔ وہ اس کے اوپر والے حصے کو بھی تاج ہی کہتے ہیں لیکن بنیادی بات تو کورونا کی وبا سے بچنے کے لیے یہ موٹی ویشنل سرگرمی ہے۔ ہو سکتا ہے کل کلاں اور قسم کے ماسک بھی نمائش میں لائے جا سکتے ہیں۔ اگر بینگن جیسی گرم سبزی سے یہ تیار ہو سکتا ہے تو پھر تربوز کے چھلکے سے بھی بن سکتا ہے اور یہ تاثر میں بھی ٹھنڈا ہو گا۔ یہ ترغیب اس لیے بھی ضروری ہے کہ لوگوں نے خوش فہمی میں ماسک اتار دیئے ہوئے ہیں۔ اب آتا ہوں موضوع کی طرف کہ خان صاحب کچھ نہ کچھ ضرور کر رہے ہیں اور ادارے بھی کچھ نہ کچھ پرفارم کر رہے ہیں۔ دور کیوں جائیں ابھی ماسک کا ذکر ہو رہا تھا تو پاکستان نے ماسک برآمد کرنے شروع کر دیئے ہیں۔ ویسے بھی یہ سرپلس ہو گئے تھے کہ یہاں لوگوں کو ماسک کا شعور بھی نہیں جو پہنتے بھی ہیں وہ ایک ماسک سے ایک ماہ گزار لیتے ہیں۔ بعض تو اپنی جیب میں رکھتے ہیں جہاں ضروری ہو پہن لیتے ہیں حالانکہ محکمہ صحت نے بار بار یہ شعور عام کرنے کی کوشش کی ہے کہ آپ اور کچھ پہنے یا نہ پہنیں ماسک ضرور پہنیں۔ ٹرمپ سے پہلے عمران خان نے بھی پہن لیا تھا۔ یعنی دونوں نے ہی حفاظتی تدابیر اختیار کر لی ہیں۔ مجھے خان صاحب کے حق میں لکھنے کی یا اپنے انداز تحریر کو بدلنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اثر لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ آپ موجودہ حکومت پر بے جا تنقید کر جاتے ہیں اور وہ بہت ہی بے جا اور ظالمانہ اس لیے ہے کہ آپ بھی ان کے زبرداست طرفداروں میں تھے مگر میں خود کو برا بھلا نہیں کہوں گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں بھی وہی پینترا مار رہا ہوں جو 17ویں ترمیم پر دستخط کرنے کے بعد ملا تھا کہ وہ مشرف کو سٹیبل کرنے میں اور اس کے وردی نہ اتارنے میں مجرم نہیں کہ وعدہ خلافی تو مشرف نے کی ہے۔ میں ایسا نہیں کہہ سکتا۔ میں نے اور میرے دوستوں نے تبدیلی کے لیے سب کچھ کیا اور ہم سب خان کو مجرم یا قصور وار نہیں سمجھتے۔ وہ نظام کو بدلنے آیا تھا، نظام نے اس کو بدل دیا۔ ڈاکٹر خواجہ ذکریا کا شعر یاد آ گیا: سوچا تھا جوانی میں دنیا کو بدل دیں گے دنیا نے مگر ہم کو چب چاپ بدل ڈالا خان صاحب کے حوالے سے ہم بدگمانی کرنے والے کون ہوتے ہیں۔ ویسے بھی نیتوں کا حال اللہ ہی جانتا ہے۔ زمینی حقائق ہی دیکھنا پڑتے ہیں۔ ان کے مصاجین کہہ رہے ہیں کہ عوام خان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ فواد چودھری کا فرمانا ہے کہ عمران کے قد کا آدمی پورے ملک میں نہیں، عثمان ڈار فرماتے ہیں کہ وزیر اعظم نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ مافیاز کو نکیل ڈالی ہے اور پھر ہم تو غالب کا حوالہ دیں گے: ہم بھی دشمن تو نہیں ہیں اپنے غیر سے تجھ کو محبت ہی سہی مجھے ڈاکٹر اصغر علی یزدانی جو کہ پروفیسر اور آرٹسٹ ہیں کہ ایک بڑے مزاحیہ پروگرام میں سٹار ہیں، کہنے لگے۔ شاہ صاحب! کچھ لکھیں سرکاری ملازمین کے حوالے سے کہ ان کی مدت ملازمت 55سال ہوئے جا رہی ہے اور ان کو پنشن نہیں ملے گی بلکہ یک مشت ہی کوئی گولڈ شیک ہینڈ قسم کا ہاتھ ہو جائے گا۔ وہ یہ بتاتے ہوئے تو تقریباً رو ہی پڑے کہ انہوں نے کس درجہ عمران خان کی سپورٹ کی تھی۔ مزے کی بات بتانے لگے کہ میں نے چھوٹے بیٹے کو سکھا بجھا کر اس کی ماں کے ساتھ بھیجا کہ وہ بلے کے علاوہ کہیں اور مہر نہ لگائے۔ ڈاکٹر صاحب درست کہتے ہیں۔ اکثر سرکاری ملازم خان صاحب کے حق میں تھے۔ اساتذہ تو کلاسوں میں بچوں کے سامنے اس محبت کو نہیں چھپاتے تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ کہ شریف برادران سرکاری ملازموں کو ذاتی ملازم سمجھتے تھے۔ یہ پنشن کے بغیر 55سال کی عمر میں ریٹائر کرنے والا فارمولا پہلی مرتبہ نہیں آیا۔ اس کے لیے پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے بھی اپنے اپنے دور میں کوشش کی مگر پریشر نہ لے سکے اور یہ کام لٹک گیا۔ اب لگتا ہے کہ سب کچھ آئی ایم ایف کے ہاتھوں سے سرانجام پا رہا ہے تو سرکاری ملازم سہمے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے میں تفصیل نہیں لکھ سکتا۔ تاہم خان صاحب کو اس حوالے سے اقدام کرنا پڑے گا وگرنہ ان کی پوزیشن ہی بدل جائے گی۔ اتنے لوگ بے روزگار ہو جائیں گے کہ سنبھالے نہیں جائیں گے۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ سرکاری ملازم تیس یا پینتیس سال ملازمت کرنے کے بعد اس قابل نہیں رہتے کہ یک مشت ملنے والے پیسوں سے کوئی کاروبار وغیرہ کر سکیں۔ اکثر تو اس عمر میں کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ دوسرا یہ کہ پینشن وغیرہ انہی کی تنخواہوں سے پیسے کٹتے آتے ہیں۔ اگر یہ لوگ عدم تحفظ کا شکار ہوئے تو مسائل بہت بڑھ جائیں گے۔ ایک شعر کے ساتھ اجازت: ہم بھی سوتے تھے کوئی یاد سرہانے رکھ کر ہاں مگر گردشِ ایام سے پہلے پہلے