نراد چودھری غیر آریائی برطانوی ہندو تھے۔یہ اپنی کتاب ’’سرسی کا جزیرہ The continent of Circeمیں لکھتے ہیں کہ ہندوئوں کے ساتھ مل جل کر رہنا ناممکن ہے ۔ان کی نفسیات یہ ہے کہ اگر وہ اپنے معاشرے میں غیر ہندو معاشرے کو کچل نہ دیں گے تو وہ غیر ہندو معاشرہ انہیں کچل کے رکھ دے گا۔یہی حال ہمسایوں کے ساتھ روابط کا ہے۔بھارت کے اعلیٰ تعلیم یافتہ فیلسوف صدر 1962-67ء ڈاکٹر رادھا کرشنن اپنی کتاب ’’ویدانتا‘‘ vedentaمیں لکھتے ہیں کہ ہندومت نے بدھ مت کو بھائیوں کی طرح گلے لگایا اور مار ڈالا۔ڈاکٹر رادھا کرشن بھارت کے دس سال 1952-62ء نائب صدر بھی رہے ہیں۔یعنی یہ ہندو بھارت کے مفکر حکمران تھے۔سوامی دھرما تیرتھ جی مہاراج اپنی کتاب اکھنڈ بھارت کے مذموم عزائم میں لکھتے ہیں کہ ہندوئوں کا جاتی بندھ‘‘ یعنی برہمن اقتدار ابلیسی اور شیطانی ہے۔سوامی جی نے ڈاکٹر رادھا کرشن کے سفید جھوٹ کا تفصیلی جائزہ لیا اور لکھا کہ بدھ مت ہندوستان کا حکمران مگر مقامی مذہب تھا۔جب بدھ مت کی چند صدیاں قائم رہنے والی حکمرانی نہ رہی تو ہندو برہمن نے حاکم بن کر مالدار اور طاقتور بدھ گھرانوں کو دوست بنا کر گلے لگایا اور کمزور غریب بے بس اور نہتے بدھ عوام کا گلا کاٹ کر مار دیا۔ان کے گھر جلائے‘ بچوں ‘ بوڑھوں عورتوں اور جوانوں کو مارا۔بدھ بستیوں میں لوٹ مار اور قتل غارت کا بازار گرم رکھا۔بدھ عوام کے لئے معاشی تنگی پیدا کی کاروبار کے ذرائع بند کر دیے۔ان کا انفرادی اور اجتماعی طور پر قتل عام کیا۔جو بدھ مت کے غریب عوام بچ گئے۔انہیں ہندو بنا لیا۔القصہ ہندو برہمن نے ہندوستان میں جنم لینے والے بدھ مت کو گلے لگا کر گلے کاٹے۔اس دوران طاقتور بدھ اشرافیہ ظالم ہندو برہمن کی دوست بن کر بے بس تماشائی بن کر رہ گئی۔مسلمانوں نے بھی بدھ مت کی طرح ہندوستان میں سینکڑوں برس حکومت کی۔جب برطانوی انگریز نے ہندو برہمن۔دلت عوام (مرہٹہ‘ گورکھا‘ سکھ جاٹ وغیرہ) اور مسلم غدار اشرافیہ میر جعفر و میر صادق کے ساتھ مل کر مسلم حکومت ختم کی تو مذکورہ انگریز پرست نسلوں کے ساتھ مسلمانوں کی نسل کشی (بدھ مت کی طرح) شروع کر دی۔ انگریز چلا گیا مگر ہندو برہمن کو اپنا جانشین بنا لیا۔جس نے مودی کی سرپرستی میں گجرات کے اندر مسلمانوں کا قتل عام(فروری مارچ 2002ء کیاصرف گجرات اور آج سارے بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے اور طاقتور مسلمان اور مسلم ریاستیں محض تماشائی ہیں۔کاغذی اور زبانی مذمت عام ہے۔ عوامی جلسے جلوس اور مظاہرے بھرپور ہیں۔مسلم اشرافیہ عالمی طاقتوں اور اداروں سے قرار دادوں کی صورت میں درخواست گزار ہے کہ بھارت میں نہتے مسلمانوں کا قتل عام روکا جائے… ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مقاجات۔نراد چودھری لکھتے ہیں کہ پولینڈ اور مشرقی یورپ کی آبادی پر عالمی طاقتوں نے بدترین ظلم روا رکھا مگر بھارتی مسلمان ہندو برہمن کے ہاتھوں اس سے بھی بدتر حال میں ہیں۔یاد رہے کہ تحریک پاکستان کی مسلم قیادت اور عوام برہمنی مکروہ عزائم سے بخوبی آگاہ تھے۔ہندوستان کی کل مسلم آبادی نے 1945-46ء کے عام مرکزی اور صوبائی انتخابات میں 100فیصد ووٹ پاکستان کے حق میں دیا تھا ۔مسلم اقلیتی ہندو صوبوں کے عوام و خواص بخوبی جانتے تھے کہ وہ پاک سرزمین کا حصہ اور باشندہ نہیں بن سکتے مگر ان کے جمہوری حق اور ووٹ سے مسلم اکثریتی صوبوں کے مسلمان عوام آزاد ریاست پاکستان بنا سکتے ہیں تو انہوں نے تحریک پاکستان کا بھر پور ساتھ دیا۔قائد اعظم اور دیگر مسلم قائدین نے بھارت میں رہ جانے والے مسلمان عوام کے مذکورہ عظیم ایثار اور احسان کا بار بار ذکر کیا۔قائد اعظم نے مسلم لیگ کنونشن دہلی 17اپریل 1946ء کو خطاب کے دوران دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ اگر ہندو بھارت مسلم اقلیت اور اقلیتوں کے ساتھ بدسلوکی شروع کر دیتے ہیں اور ان کو ستاتے ہیں تو پاکستان ایک خاموش تماشائی نہ بنے گا۔اگر گلیڈ سٹون کے زمانے میں برطانیہ اقلیتوں کے تحفظ کے نام پر امریکہ میں مداخلت کر سکتا تھا تو اگر ہندوستان (بھارت) میں ہماری اقلیتوں پر مظالم کئے گئے تو ہمارا مداخلت کرنا کیونکر حق بجانب نہ ہو گا۔یاد رہے کہ عالم اسلام کی اکثریتی آبادی بھارت کی مظلوم ترین اقلیت ہے۔ہندو شناس استاد گرامی پروفیسر محمد منور نے اپنی کتاب پاکستان حصار اسلام‘ میں شامل مضمون بعنوان قائد اعظم کا مطلوب ۔وسعت پذیر پاکستان میں قائد اعظم اور مولانا ابوالکلام آزاد کی کلکتہ میں ہونے والی ایک ملاقات متوسط مسلم لیگی سید بدرالدین (بدر اللہ جی کلکتہ والے) کا ذکر کیا ہے۔یہ ملاقات تقسیم ہند کے 3جون پلان کے بعد ہوئی مولانا ابوالکلام آزاد نے قائد اعظم سے کہا کہ ’’جس طرح کا پاکستان آپ نے قبول کر لیا ہے اس سے ہندوستان کے ساتھ مسلمان بھی تین حصوں میں بٹ جائیں گے۔قائد اعظم نے فرمایا اس وقت میں نے ایک قلعہ مسلمانوں کو لے دیا ہے جہاں وہ قوتیں مجتمع کریں اور اپنی اہلیتوں سے کام لے کر اپنے شاندار ماضی کا احیاء کر لیں۔مجھے جو کام کرنا تھا وہ میں نے کر دیا۔جب مولانا آزاد نے قائد اعظم کے یہ الفاظ سنے تو اٹھ کھڑے ہوئے اور انہیں گلے سے لگایا اب مولانا کا رویہ بدل گیا اور انہوں نے بعدازاں مرکزی حکومت کے ہر ملازم (بشمول عربی زبان و ادب کے استاد اور اورنٹیئل کالج لاہور ‘ پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر برکت علی قریشی ‘جنہیں وزیر اعظم بھارت جواہر لال نہرو نے اسلامی ممالک میں بھارتی سفیر کے طور پر تعیناتی کی تحریری آفر کی تھی‘ رد کر دی) کو یہی مشورہ دیا کہ وہ بھارت میں رہنے کے بجائے پاکستان جائیں اور پاکستان کو مضبوط بنائیں بے شک آج پاکستان جوہری ‘ جہادی اور نظریاتی ریاست ہے کوئی عالمی یا علاقائی طاقت بشمول بھارت پاکستان سے جنگ کرنے کا رسکRiskنہیں لے سکتی اس وقت عالمی و علاقائی طاقتوں اور اداروں نے پاکستان کو معاشی تنگی مغربی نظام پالیسی اور مغرب کی دلدادہ اور پروردہ قیادت کے ذریعے دبوچ کر بے بس کر رکھا ہے۔پاکستان کے جملہ وسائل کا حل تحریک پاکستان کی جرات مند قائدنہ پالیسی میں مضمر ہے۔ اٹھ باندھ کمر‘ کیا ڈرتا ہے پھر دیکھ‘ خدا کیا کرتا ہے عالمی اور علاقائی امن اور مسلمانوں کی سلامتی کے لئے پاکستان میں اللہ و رسولؐ سے وفادار اور جانثار قیادت کی ضرورت ہے۔اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔واللہ اعلم باالصواب