پاکستان اس وقت تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔خدا کا شکر ہے کہ وزیر آباد میں وہ کچھ نہ ہو سکا جو راولپنڈی میں دو بار ہو چکا ہے۔ 1951ء میں راولپنڈی میں اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خاں کو گولی مار دی گئی اور حملہ آور بھی مارا گیا تھا۔ آج تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ لیاقت علی خاں کے قتل کے پیچھے اصل لوگ کون تھے۔ 2007ء میں پاکستان کے دو بار وزیر اعظم رہنے والی بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں اس وقت شہید کر دیا گیا جب وہ ایک جلسہ سے خطاب کر کے واپس نکل رہی تھیں۔ خود کش حملہ نے اپنے آپ کو بھی اڑا دیا۔تحریک طالبان پاکستان نے اس کی ذمہ داری قبول کی اس واقعہ کی بھی شفاف تحقیقات نہ ہو سکیں کہ وہ کون تھا جس نے بے نظیر کو فون کر کے جیپ سے باہر آنے کو کہا اور جیپ میں موجود سب لوگ محفوظ رہے اور بے نظیر موت کا شکار ہو گئیں۔ بے نظیر کے فون رکھنے والے خود قبر میں اتر گئے اور یہ راز باقی رہ گیا۔اقوام متحدہ نے بھی اپنی تحقیقات کی اور کچھ لوگ کلین چٹ لیکر اطمینان سے بیٹھ گئے۔ عمران خان کا لانگ مارچ پانچویں دن کے اختتام سے پہلے وزیر آباد کے اللہ ہو چوک میں تھا۔ عمران خان نے کچھ دیر بعد عوام سے خطاب کرنا تھا کہ وہ کچھ ہو گیا جس کا خدشہ بہت سے لوگوں کو تھا مگر امید کسی کو نہ تھی۔ ایک آدمی عمران خان کے کنٹینر کے پاس سے پسٹل نکال کر فائرنگ شروع کر دیتا ہے۔ کچھ لوگ اس پر لپکتے ہیں ایک آدمی معظم اس کی گولی کا شکار ہو جاتا ہے اور ایک اور نوجوان جس کا نام ابتسام تھا قاتل کو قابو کر لیتا ہے اس عمل میں اس کا نشانہ چوک جاتا ہے۔ قاتل کو پولیس گرفتار کر لیتی ہے۔مگر کہانی یہاں پر ختم نہیں ہوتی کچھ دیر بعد مبینہ قاتل کی وڈیو منظر عام پر آجاتی ہے جس میں وہ عمران خان پر حملے کا اعتراف کر لیتا ہے۔حیرت ہوتی ہے کہ اتنا ہائی پروفائل کیس ہے اور مجرم کی وڈیو بن رہی ہیں اور وائرل ہو رہی ہیں۔ وزیر اطلاعات کی پریس کانفرنس ہو جاتی ہے اور معاملہ ٹھنڈا ہونے کے بجائے اور گرم ہو جاتا ہے۔ عمران خان کو علاج کے لئے شوکت خانم لے جاتے ہیں اور وہاں پر وہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ پر قتل کا الزام لگا دیتے ہیں۔ جوابی پریس کانفرنس ہوتی ہے اور وزیر داخلہ اپنا نکتہ نظر پیش کرتے ہیں۔وزیر اعظم شہباز شریف بھی ایک پریس کانفرنس کرتے ہیں اور بے بنیاد الزامات لگانے پر شدید ایکشن کی نوید سناتے ہیں۔ عمران خان ہسپتال سے ایک تقریر کرتے ہیں اور اپنے مطالبات دہراتے ہیں۔ اس وقت الزامات کی بھر مار ہے ہر کوئی معاملہ کو بگاڑنے پر تلا کھڑا ہے۔ابھی یہ طوفان رکا نہیں تھا کہ اعظم سواتی کی پریس کانفرنس ہو جاتی ہے جس کے مندرجہ جات اتنے شرمناک ہیں کہ انکو دہراتے ہوئے شرم آتی ہے۔ پاکستان کی پوری ریاست کا وقار دائو پر ہے۔ وزیر اعظم ہاوس سے آڈیو لیک ہوتی ہے۔ کوئٹہ کے ججز کے اپارٹمنٹ محفوظ نہیں ایسا لگتا ہے سارے پاکستان کے گھروں میں کیمرے ہیں اور کوئی کہیں بھی محفوظ نہیں۔یہ وقت الزامات لگانے کا نہیں ہے ان الزامات کا خاتمہ کرنے کا ہے۔ ان واقعات کی انکوائری ہونی چاہیے ان سب کو اپنا دامن صاف کرنا پڑے گا جن کی طرف لوگ انگلی اٹھا رہے ہیں۔ بے شک یہ انگلی غلط ہو۔مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آئی یہ حکومت ہے یا اپوزیشن۔ حکومت کا کام کرنا ہوتا ہے اور اپوزیشن کا کام اعتراض کرنا۔یہ پہلی حکومت ہے جو ہر وقت دوسروں پر حملہ کرنے میں لگی رہتی ہے عمران خان کی تقاریر پر پابندی اور پھر اس فیصلہ کو واپس لینا ۔ کوئی بات تو ہو دانش مندی کی۔ عمران خان بلا شبہ اس وقت پاکستان کے مقبول ترین لیڈر ہیں۔ جب سب لوگ کہ رہے کہ ان پر حملہ ہو سکتا ہے اور وہ خود بھی کہتے ہیں کہ ان پر حملہ ہو سکتا ہے تو اپنی حفاظت کا وہ مناسب بندوبست کیوں نہیں کرتے۔ کنٹینر پر بلٹ پروف شیشہ کی عدم موجودگی ثابت کرتی ہے کہ عمران خان بھی خو د کشی کے لئے تیار ہیں۔ اس حملہ میں عمران خان سمیت نو دس آدمی کنٹینر پر زخمی ہوئے ہیں۔ اگر مناسب اقدام ہوتے تو کافی نقصان سے بچا جا سکتا تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے اس وقت مفاہمت کے ساتھ ہی ملک چل سکتا ہے۔ طاقتور لوگوں کو بھی اس بات کا پتہ ہونہ چاہیے کہ انکے کچھ اقدامات کی بنا پر سارے ادارے کا وقار دائو پر لگ چکا ہے جو کچھ پشاور میں ہوا اسکو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جس وقت شاہ ایران کے خلاف تحریک چلی وہ بہت کم لوگ تھے پھر ایک وقت ایسا آیا جب سارا ایران شاہ کے خلاف تھا پاکستان کے ایک دانشور بیوروکریٹ مختار مسعود ان دنوں ایران میں تھے انکی کتاب میں اس انقلاب کا خلاصہ بہت اچھے طریقے سے کیا گیا ہے۔ تاریخ کا ایک سبق ہے کہ اس سے کسی نے سبق نہیں لیا۔ اس وقت مفاہمت کی ضرورت ہے سب لوگ اپنے اختلافات کو بھول کر ملک کا سوچیں جنوبی افریقہ کے نجات دہندہ نیلسن منڈیلا کی پیروی کرنی پڑے گی مگر مشکل یہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں لندن سمیت کوئی لیڈر ایسا نہیں ہے جو وقت کی آواز کو سن سکے۔ دشمن اس وقت ہماری سرحد پر موقع کی تاڑ میں ہے اور ہم معاشی طور پر دیوالیہ ہو چکے ہیں معاشی دیوالیہ پن تو ایک دو سال میں دور ہو سکتا ہے اخلاقی دیوالیہ پن کے لئے ایک دو نسلیں ختم ہو جائیں گی۔ سپین کو یاد رکھنا چاہئے کیسے سات سو سال کی حکومت ختم ہو گئی ہے اور وہاں سے مسلمانوں کی نسل بھی ختم ہو گئی۔ پاکستان تو صرف 75 سال کی بات ہے۔ خدارا ہوش کے ناخن لو ورنہ تمہاری قبروں کا نشان نہیں رہے گا ۔ ٭٭٭٭