بیس اکتوبر، : 1994دہلی کے ایک ڈھابہ میں کھانا کھانے والے امریکی سیاح بیلا نوس یا ناس (Nuss)کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ بیس اکیس سالہ نوجوان روہت شرما جو اس کے ساتھ بیٹھا خوش دلی سے گپیں ہانک رہا ہے ، وہ برطانیہ پلٹ بھارتی شہری نہیں بلکہ جہادی تنظیم سے تعلق رکھتا اور اسے اغوا کرنے کے چکر میں ہے۔ کیلی فورنیا کے سکول ٹیچر کو کیا خبر تھی کہ چند ماہ قبل سری نگر میں دو ایسے لوگ پولیس نے گرفتار کئے ہیں، جو جہادی تنظیموں کے لئے بہت اہم ہیں۔ بیلانوس نے گپ شپ میں تذکرہ کیا کہ اسے بھارت میں اتنے دن ہوگئے ہیں، مگر کسی نے گھر میں مدعو کرنے کی زحمت تک نہیں کی۔ عمر سعید شیخ کی یہ سن کر باچھیں کھل گئیں۔ ا س نے ترنت امریکی سیاح کو دعوت دی اور وہی کہانی سنائی کہ میرا ایک چچا پورا گائوں میرے نام ترکہ کرکے مرا ہے۔ وہاں تازہ مکھن، دودھ کے علاوہ مزے کے کھانے ملیں گے اور دیہاتی خواتین کا روایتی ناچ گانا بھی دیکھنے کو ملے گا۔ امریکی سیاح عمر سعید شیخ کے ساتھ چل پڑا۔ عمر شیخ نے اسے دہلی کے قریب غازی آباد کے ایک مضافاتی گھرلے جا کرباندھ کر ڈال دیا۔ عمر سعید شیخ نے ان چاروں مغویوں کے پاسپورٹ وغیرہ کی تصاویر لیں اور ایک خط ڈرافٹ کیا کہ اگرجموں کی کوٹ بلوال جیل میں قید حرکت الانصار کے کمانڈروں سجاد افغانی، مسعود اظہر اور نصراللہ منصور لنگڑیال کو رہا نہ کیا گیا تو ان چاروں کو باری باری قتل کر دیا جائے گا۔ اس نے یہ پیکٹ دہلی میں بی بی سی کے دفتر کے باہر گارڈ کو پکڑایا اور رفو چکر ہوگیا۔پیکٹ کھول کر دیکھا گیا تو اس ہنگامہ خیز خبر کی کلیئرنس کی تصدیق کے لئے بی بی سی نے پیکٹ بھارتی وزارت داخلہ بھجوا دیا۔ وہاں یہ خبر پہنچتے ہی سنسنی پھیل گئی۔ یاد رہے کہ پاکستان میں ایسے اندرونی اور بیرونی چیلنجز ہماری پریمئیر ایجنسی آئی ایس آئی ہی ڈیل کرتی ہے۔ بھارت میں اندرونی معاملات کے لئے انٹیلی جنس بیور و ذمہ دار ہے جبکہ را کی ذمہ داری بیرونی آپریشنز ہیں۔ کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ بھارت میں داخلی طور پر آئی بی بہت طاقتور ادارہ ہے اور اس کے اور بیرونی معاملات کو ڈیل کرنے والی ایجنسی را کے مابین ایک چپقلش اور مسابقت کی فضا موجود ہے۔ اتفاق سے ہمیں اس واقعے کے حوالے سے ایک ذمہ دار عینی شاہد صحافی کی دلچسپ رپورٹ میسر ہے۔ ممتاز کشمیری صحافی اور کالم نگار افتخار گیلانی جو کشمیر کے لیجنڈری حریت پسند لیڈر سید علی گیلانی کے داماد بھی ہیں، وہ بھارت میں کشمیر ٹائمز، بی بی سی اور کئی اہم اطلاعاتی اداروں کے لئے کام کرتے رہے ہیں۔انہوں نے روزنامہ 92نیوز میں شائع ہونے والے اپنے کالم(چودہ اپریل، 2020) میں انکشاف کیا کہ اکتوبر1994 کی اس دوپہراتفاق سے وہ بھارتی وزارت داخلہ کے ہیڈ کوارٹر نارتھ بلڈنگ میں کسی بریفنگ کے لئے موجود تھے۔ اچانک وزارت داخلہ میں افراتفری مچ گئی۔ آئی بی اور را کے سینئر افسران بھی آ گئے، معلوم ہوا کہ کسی نے ریلوے اسٹیشن کے قریب پہاڑ گنج کے ہوٹلوں میں مقیم چند غیر ملکی اغواکر لئے ہیں، تاہم اغواکاروں کا کچھ پتہ نہیں چل رہا۔اس دوران غازی آباد میں ایک اور تماشا ہوا۔ عمر سعید شیخ مبینہ طور پر بی بی سی کے دفتر میں پیکٹ دے کر واپس گھر پہنچا جہاں امریکی قیدی موجود تھا۔ اتنے میں مقامی پولیس ایک چوری کے ملزم کو ساتھ لئے مال مسروقہ برآمد کرانے اس محلہ میں وارد ہوئی۔ وہ کم بخت ہتھکڑی چھڑا کربھاگ نکلا ۔ پولیس پیچھے پیچھے دوڑی۔ چور دیوار پھلانگ کر ایک مکان میں گھسا ، سپاہی اس کے پیچھے کودے۔ ادھر عمر سعید شیخ ایک تنائو بھرا دن گزارنے کے بعداپنے بوٹ اتار کر ریلیکس ہونے بستر پر دراز ہوا تھا۔ کودنے والے سپاہیوں کو دیکھ کر بوکھلا گیا، اس نے آئو دیکھا نہ تائو گن اٹھا کر فائرنگ شروع کر دی۔ پولیس والے حواس باختہ دروازہ کھول کر گلی میں بھاگ گئے ۔ تھانے دار نے مزید نفری منگوا لی اور پھر ہلہ بول کر عمر سعید شیخ کو گرفتار کر لیا۔ رسیوں سے بندھے گورے کو کھولا گیا تو اس نے انکشاف کیا کہ نہ صرف وہ بلکہ تین مزید برطانوی سیاح بھی اغوا ہوئے ہیں۔ یوں پولیس ان تینوں تک بھی پہنچی۔ عمر سعید شیخ نے پکڑے جانے کے بعد پولیس اہلکاروں سے خاصی لڑائیاں لڑیں۔ ہنگامہ خیزیوں سے تنگ آ کر اسے ہائی سکیورٹی تہاڑ جیل بھیج دیا گیا، جہان وہ اگلے پانچ سال تک اسیر رہا۔ سجاد افغانی اور مسعود اظہر، نصراللہ منصور لنگڑیال کے ساتھ بدستور کوٹ بلوال جیل قید رہے۔ سجاد افغانی کی قید کے حوالے سے نیٹ پر بھارتی اخبارات اور جرائد کے آرکائیوز کو کھنگال رہا تھا تو بعض دلچسپ معلومات ملیں۔ بھارتی میڈیا نے انٹیلی جنس ذرائع سے بتایا کہ سری نگر پولیس نے جب سجاد افغانی اور مسعود اظہر کو گرفتار کیا تو وہ انہیں نہیں پہچانتی تھی۔ سجاد افغانی نے مسعود اظہر کو بچانے کے لئے قربانی دیتے ہوئے اپنی شناخت ظاہر کر دی۔ سری نگر پولیس کواپنا بتایا اور کہا کہ اس مولوی (مسعود اظہر)کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں بلکہ میں نے اسے اغوا کرنے کی نیت سے دھوکہ دے کر ساتھ رکشے پر بٹھایا تھا۔پولیس شائد یہ کہانی مان جاتی، مگر ایک سب انسپکٹر کو شک ہوا۔ ا س نے مسعود اظہر کو الگ کر کے تفتیش کی اور ٹارچر کیا تو حقیقت کھل گئی۔ سجاد افغانی اور مسعود اظہر کا سرسری تعارف پچھلے کالم میں آ گیا تھا۔نصراللہ منصور لنگڑیال کا بنیادی طور پر تعلق حرکتہ الجہاد الاسلامی سے رہا۔ حرکت الانصار کے پلیٹ فارم سے انہوں نے بڑی تندوتیز کارروائیاں کیں، مگر ایک کارروائی میں گرفتار ہوگئے۔ لنگڑیال کی گرفتاری کے بعد سجاد افغانی نے ردعمل میں کئی بڑی جارحانہ کارروائیاں کیں اور تب مبینہ طور پر حرکت الانصار کے چیف کمانڈر کوٹھنڈا کرنے کی نیت سے مسعود اظہر کو بھیجا گیا۔ وہ پرتگالی پاسپورٹ پرقانونی ویزا لگوا کر ڈھاکہ سے جانے والی فلائیٹ کے ذریعے دہلی پہنچے اور پھر سری نگر گئے۔ ان تینوں کمانڈروں کو رہا کرانے کے لئے عمر سعید شیخ کی ناکامی کے صرف سال بعدایک اور بڑا اہم آپریشن حرکتہ الجہاد الاسلامی کے کمانڈر اور ان کے مشہور 313بریگیڈ کے سربراہ الیاس کشمیری نے کیا، اس نے بھی چند غیرملکی سیاح اغوا کئے تھے۔ یہ وہی الیاس کشمیری ہے جن کی بعد میں امریکہ نے کئی ملین ڈالر ہیڈ منی مقرر کی تھی، یہ جنرل پرویز مشرف پر قاتلانہ حملے میں بھی ملوث بتائے جاتے ہیں جبکہ بعد میں ٹی ٹی پی اور القاعدہ کے ساتھ مل کر الیاس کشمیری نے پاکستانی اداروں اور فورسز کے خلاف بہت سے آپریشن کئے ،جن میں بعض ہائی پروفائل کلنگ بھی شامل تھیں۔ الیاس کشمیری چند سال پہلے جنوبی وزیرستان میں ایک ڈرون حادثے میں ہلاک ہوئے۔ الیاس کشمیری نے سجاد افغانی، مسعود اظہر، نصراللہ لنگڑیال اور عمر شیخ وغیرہ کو رہا کرانے کے لئے اپنا آپریشن 1995ء میں کیا جو ناکام ہوا۔ الیاس کشمیری تو بچ نکلنے میں کامیاب ہوا، مگر اس کے بعض ساتھی جنگجو ہلاک اور گرفتار ہوئے۔مغوی مغربی سیاحوںمیں سے ایک خوش قسمتی سے فرار ہو کر بچ نکلا جبکہ باقی مارے گئے۔ اس آپریشن کے حوالے سے ایک اہم بات یہ ہے کہ دو یورپی مصنفین اڈریان لیوی اور کیتھی سکاٹ نے اس واقعے کی بھرپور تحقیق کر کے ایک کتاب The Meadowلکھی۔ 515 صفحات کی اس ہوشربا کتاب میں یہ بتایا گیا کہ بھارتی انٹیلی جنس کو اس آپریشن کے بارے میں معلوم تھا ،مگر دانستہ انہوں نے یہ کارروائی ہو جانے دی اور بعد میں مغویوں کے ٹھکانے کا علم ہوجانے کے باوجود انہیں بچانے کی کارروائی نہیں کی تاکہ جہادی تنظیمیں اور جنگجو بدنام ہوں۔ اس طرح ان غیر ملکوں کی موت کے ذمہ دار بھارتی خفیہ ادارے بھی ٹھیرے۔خاکسار کے پاس اس کتاب کی پی ڈی ایف موجود ہے۔ 1999ء میں کوٹ بلوال جیل سے فرار کی ایک ناکام کوشش کے بعد سجاد افغانی کو موقعہ پر تشدد کر کے ہلاک کر دیا گیا۔ اس حملے میں مسعود اظہر فرار نہیں ہوسکے تھے، بھارتی اخبار دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق اپنے بھاری جسم کے باعث مسعود اظہر جیل سے باہر نکلنے والی سرنگ میں نہیں داخل ہوسکے۔ بہرحال سجاد افغانی کی ہلاکت نے یہ خطرہ بڑھا دیا کہ بھارتی پولیس مولانا مسعود اظہر کو بھی کسی روز بہانے سے مار دے گی۔ یوں جہادی تنظیموں نے بھارتی طیارے کی ہائی جیکنگ کا بڑا آپریشن کیا جو کامیاب رہا۔افغانستان میں طالبان حکومت ہونے کی وجہ سے انہیں فائدہ ہوا۔ یرغمالی مسافروں کے بدلے بھارتی جیل میں اسیر تین قیدیوں مولانا مسعود اظہر، عمر سعید شیخ اور العمر نامی جہادی تنظیم کے سربراہ مشتاق زرگرافغان شہر قندھار پہنچائے گئے۔ یہ حیران کن امر ہے کہ ہائی جیکرز نے نصراللہ منصور لنگڑیال کی رہائی کا مطالبہ کیوں نہیں کیا؟مشتاق زرگر کی رہائی بھی ناقابل فہم تھی، کیونکہ وہ عمر بڑھنے کی وجہ سے فعال کمانڈر نہیں رہے تھے اور بعض بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق انہیںویسے ہی جلد رہا کر دیا جاتا۔ بہرحال ہائی جیکنگ کے نتیجے میں عمر سعید شیخ پاکستان پہنچے۔ وہ پانچ سال جیل کاٹ کر آئے تھے مگر اپنی اگلی زندگی پرامن گزارنے کے بجائے عمر شیخ نے صرف اٹھارہ بیس ماہ بعد امریکی صحافی ڈینیل پرل کو اغوا کر کے ایسا آپریشن کیا جس نے دنیا بھر میں تہلکہ مچا دیا۔ اس کی تفصیل اگلی نشست میں بیان ہوسکے گی۔ (جاری ہے)