علامہ اقبال اور مولانا سید ابوالاعلی مودودی کے بعد میں نے جس اسلامی مفکر کو پڑھا اور رغبت سے سنا، وہ عمران نذر حسین ہے۔ آج کے جدید دور میں مغربی فکر اور جدید مغربی تہذیب کا جو زوردار وار امت مسلمہ کی تہذیب، فکری روایت اور تصور دین پر ہے، اسکا جتنا ادراک عمران حسین کو حاصل ہے، شاید ہی کسی اور مفکر یا مذہبی سکالر کو حاصل ہو۔ وہ خود کو اسلام کے علمِ آخرالزماں (Eschatology) کے بڑے سمندر کا غواض سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں انکا علم ،قرآن و حدیث میں موجود ایسی علامات کے بارے میں بہت وسیع ہے جو قیامت سے پہلے کے آخری زمانے کے بارے میں موجود ہیں ، وہیں اس دور فتن میں مسلمانوں کے مقابل کھڑی ہونے والی قوتوں کا بھی انہیں خوب ادراک ہے۔ جدید عالمی سودی مالیاتی نظام پر انکی دسترس بلا کی ہے اور وہ دنیا بھر کے ان اکثر علما سے مختلف ہیں جو بظاہر حرام سمجھتے ہوئے بھی جدید بینکاری نظام میں اسلامی پیوندکاری سے اسے حلال نہیں بلکہ "نیم حلال" بنا کر عوام کے لیے آسانی پیدا کرنے کے نام پر فتوے جاری کرتے ہیں۔ عمران حسین کا موقف دو ٹوک ہے اور وہ اس جدید مغربی سیکولر تہذیب کی بنیاد میں اصل قوت متحرکہ (Driving force) اسی عالمی مالیاتی سودی نظام کو تصور کرتے ہیں۔ انہوں نے مدتوں بعد علامہ اقبال کے اس شعر کی جامع تفسیر کرتے ہوئے یاجوج وماجوج کی نشاندہی کی ہے اور اپنے اس دعوے کے لئے اسلامی علمی روایت کے ساتھ مغربی دنیا کے تصورِ یاجوج ماجوج (Gog & Magog) کا بھی رد کیا ہے۔ علامہ اقبال کا شعر ہے کھل گئے یاجوج اور ماجوج کے لشکر تمام چشمِ مسلم دیکھ لے تفسیر حرف ینسلون اقبال کا یہ شعر دراصل سورہ الانبیا کی ان آیات کی تفسیر ہے "جس بستی کے لوگوں کو ہم نے ہلاک کر دیا تھا اور ان پر حرام کر دیا تھا کہ وہ واپس جا سکیں ،حتی کہ یاجوج اور ماجوج کھل جائیں اور وہ تمام بلندیوں سے اترتے نظر آئیں" (الانبیا:95،96) ۔انکے نزدیک یہ بستی یروشلم ہے جہاں یہودیوں کی واپسی یاجوج اور ماجوج کے کھلنے سے مشروط ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ یاجوج وماجوج وہ نظام ہے جو یورپ کے اشکنازی (Ashkenazi) یہودی ، جو دراصل یورپی النسل ہیں، انکے مغربی عیسائی رومن کیتھولک یورپ کے ساتھ گٹھ جوڑ سے پیدا ہوا ہے۔ یہ جدید مغربی تہذیب ان دونوں مذہبی گروہوں کے ملاپ کا نتیجہ ہے جنہوں نے اپنے مذہبی عقائد کو پس پشت ڈال کر دنیا کو قابو کرنے کے لیے سودی مالیاتی نظام، سیکولرازم، جمہوریت، حقوق نسواں، کارپوریٹ نظام تجارت سے آراستہ ایک ایسا نظام ترتیب دیاہے جو آج براستہ سیٹلائٹ پوری دنیا پر قابض ہے اور قرآن پاک کی ان آیات کے عین مطابق اس نظام کا آغازعین اسوقت ہوا جب 1920 میں یہودی واپس ارض فلسطین میں جا کر آباد ہونا شروع ہوگئے۔ یعنی امت جن یاجوج اور ماجوج کی تلاش میں تھی وہ یہی جدید مغربی نظام ہے ۔ امت مسلمہ کی تاریخ میں اس آیت کی تفسیر کا یہ ادراک سب سے پہلے علامہ اقبال کو ہوا اور پھر عمران حسین نے اسے قرآن سنت کی روشنی میں اس طرح کھول کر بیان کیا اور مغربی سیاست و معیشت کے اپنے وسیع علم سے اسے ایسا روز روشن کی طرح واضح کیا کہ کم از کم میرے ذہن میں کوئی شک نہیں ہے تاوقتیکہ کوئی اسکے رد میں مضبوط دلیل نہ لے آئے۔ لیکن علم کی چکا چوند کا معاملہ یہ ہے کہ وہ روشنی اتنی تیز کر دیتی ہے کہ راستہ دکھائی نہیں دیتا ۔عمران حسین گزشتہ چند سالوں سے سابقہ کیمونسٹ روس اور اس سے ملحقہ مشرقی یورپ میں دوبارہ عیسائیت کے فروغ کو بھی آخرالزماں کی علامت تصور کرتے ہیں اور اس عیسائیت یعنی راسخ العقیدہ (Orthodox) چرچ کو قرآن پاک کی اس آیت کی تفسیر میں مسلمانوں کا دوست قرار دیتے ہیں۔ "تم یہ بات ضرور محسوس کرو گے کہ مسلمانوں میں سب سے سخت دشمنی رکھنے والے ایک تو یہودی ہیں اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو کھل کر شرک کرتے ہیں۔ اور تم یہ بات بھی ضرور محسوس کرو گے کہ مسلمانوں میں دوستی سے قریب تر وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپکو نصرانی (عیسائی)کہا ہے (المائدہ : 81,82)۔ یہ بات درست ہے کہ جس طرح سابقہ سوویت یونین کے علاقوں میں اب عیسائیت کا ازسرنو عروج ہوا ہے اور وہاں کے رہنے والے اپنے آپکو فخر سے عیسائی کہتے ہیں، بلکہ پیوٹن کے الفاظ تو یہ ہیں کہ "روس ایک عیسائی ملک ہے اور امریکہ ایک ہم جنس پرست سوویت یونین"۔ مغربی یورپ اور امریکہ میں ہر کوئی اپنے عیسائی مذہب کے حوالے سے پکارے جانا پسندنہیں کرتا ہے جبکہ اس آرتھوڈوکس چرچ کے لوگ خود کو عیسائی کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ عمران حسین صاحب اس آیت کی تفہیم کے بعد آرتھوڈوکس چرچ کے ارباب حل و عقد سے ملاقات کے لیے یوگوسلاویہ گئے، جہاں ان کا پرتپاک استقبال ہوا اور انہوں نے وہاں مشرقی یورپ کے عیسائیوں سے خلافت عثمانیہ کے سلطان محمد فاتح کے عیسائی مرکز قسطنطنیہ فتح کرنے پر معذرت بھی کی۔ یہ وہ لمحہ تھا جو میرے لئے چونکا دینے والا تھا۔ کیونکہ وہ دجال کی آمد سے پہلے ہونیوالی قسطنطنیہ یعنی استنبول کی فتح میں اتنے گم ہوگئے کہ وہ یہ بھول گئے کہ اس شہر کو فتح کرنے کے لیے صحابہ کرام کے زمانے سے ہی لشکر روانہ ہوتے رہے اور آج بھی میزبانِ رسول حضرت ایوب انصاری ؓکا مزار اسی قسطنطنیہ کی فصیل کے پاس ہے جو اس پہلے لشکر میں شریک تھے جو اس پر حملہ آور ہوا ۔ یقینا رسول اکرمﷺ کی احادیث میں موجود علم آخرالزمان عمران حسین سے کہیں زیادہ اصحاب رسول کو تھا کہ وہ صحبت ِ رسول کے امین اور فصیح عربی کے امین تھے۔ ہم کیا ،ہمارا مقام کیااور ادراک کیا ۔ ویسے کمال کی بات یہ ہے جس استاد کے سامنے میں نے عربی سیکھنے کے لیے زانوئے تلمذ طے کیا عمران حسین نے بھی اسی استاد سے عربی سیکھی۔ یوں تو وہ جنوبی امریکہ کے جزائر ٹرینیڈاڈ (Trinidad) میں پیدا ہوئے اوروہیں رہتے ہیں لیکن انہوں نے سوئٹزرلینڈ سے تعلیم کے بعد کراچی میں مولانا فضل الرحمن انصاری کے ادارے سے مذہبی تعلیم حاصل کی۔ مولانا انصاری کی کتاب The Quranic foundations and structure of Muslim society ایک متاثر کن کتاب ہے۔ عمران حسین صاحب آخرالزمان میں یروشلم کے معرکے میں اس قدر گم ہوئے اور جدید مغربی تہذیب کو اپنا اصل دشمن گرداننے میں اتنا محو ہو گئے کہ انہوں نے آخر الزماں کے ذخیرے کی ان اٹھارہ مستند احادیث سے بھی انکار کر دیا جو غزوہ ہند کے بارے میں ہیں۔ اس حد تک تو خیر بات بحث طلب تھی۔ لیکن موجودہ کشمیر کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے ہندوں کو جس طرح موحد اور شرک سے پاک ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے اور برصغیر کی تاریخ کے بارے میں اپنے محدود بلکہ بہت ہی محدود علم کے مطابق یہاں آنے والے مسلمانوں کو ویسا ہی غاصب قرار دیا ہے جیسا انہوں نے خلافت عثمانیہ کے سلطان محمد فاتح کو قرار دیا تھا اور مسلمانوں کو بھارت کے ہندوئوں سے ویسی ہی معافی مانگنے کو کہا جیسی انہوں نے خود آرتھوڈوکس چرچ کے سامنے مانگی تھی،اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ خلافت عثمانیہ اور بھارت دونوں میں مسلمان دور اقتدار کی الف ب سے بھی واقف نہیں ۔ انکی ہندوئوں کے بارے میں دلیل اتنی بودی ہے کہ ٹرینیڈاڈ میں وہ جن ہندوئوں کے ساتھ پلے بڑھے وہ بہت اعلی کردار کے لوگ تھے اور انکی دانست میں موحد بھی تھے ۔ ان چند ہندوئوں کی بنیاد پر انہوں نے پورے برصغیر میں اس ظلم و بربریت کی تاریخ کو مسترد کر دیا جو زیادہ دور نہیں تو کم از کم ایک سو سال سے مسلمان آبادیوں پر جاری ہے اور اب تو اپنے نقطہ عروج پر ہے۔ انہوں نے کشمیر میں دنیا کا بدترین تشدد یہاں تک کہ Rape as a weapon جنسی زیادتی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کو بھی نظر انداز کر دیا جسکے نتیجے میں ہزاروں مسلمان عورتیں ریپ کی گئیں ۔ گجرات کے مسلم کش فسادات سے لے کر گڑ گائوں مسلمانوں کے قتل، بے گھری اور تشدد کو بھی بھول گئے۔ عمران حسین صاحب ! چونکہ آپ اسلام کے آخر الزماں کے علم کے شناور ہیں اور جس آیت کی بنیاد پر آپ عیسائیوں کو دوست کہتے ہیں، وہی آیت یہودیوں اور کھلا شرک کرنے والوں کو مسلمانوں کا دشمن بھی بتاتی ہے۔ پوری دنیا میں بھارت کے مندروں سے زیادہ کہیں اور کھلا شرک ہوتا ہو تو ہمارے علم میں اضافہ فرما دیں ۔ اگر یہ شرک نہیں ہے تو پھر خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے تین سو ساٹھ بتوں کو بھی میرے آقا کبھی نہ گراتے۔ آج دنیا میں اگر کہیں مشرکین مکہ سے مشابہ شرک موجود ہے تو وہ صرف اور صرف بھارت میں ہے۔ اگر ایسا ہے تو سورہ المائدہ کی جس آیت سے آپ عیسائیوں کو دوست کہتے ہیں، وہی آیت دوبارہ پڑھ کر بھارت کے شرک زدہ معاشرے کے خلاف بھی بات کیجئے اور بتایئے کہ اللہ فرماتا ہے مسلمانوں کے مستقل دو دشمن ہیں ایک یہودی اور دوسرے کھلا شرک کرنے والے ۔ کھلا شرک یا بھارت میں ہوتا ہے یا پھر ان سیکولر معاشروں میں جو عوام کو حاکم اعلی کی مسند پر بٹھاتے ہیں جو اللہ یعنی الملک(حقیقی حکمران )کی مسند ہے ۔