وزیر اعظم عمران خان نے وسیب کے ارکان اسمبلی سے ملاقات کے دوران کہا ہے کہ جنوبی پنجاب کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے اور تعلیم، صحت، روزگار کے مواقع مہیا نہیں کئے گئے لیکن اب وسائل کا رخ پسماندہ علاقوں کی طرف موڑ دیا گیا ہے اور سول سیکرٹریٹ کے قیام کا مقصد محروم اور پسماندہ علاقوں کو ترقی دینا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان برسراقتدار آنے سے پہلے بھی وسیب کی محرومی کا تذکرہ کرتے رہے ہیں اور یقین دلاتے رہے کہ برسراقتدار آنے کے بعد صوبہ بنائیں گے اور وسیب کی محرومی ختم کریں گے۔ تعلیم ، صحت روزگار کے ساتھ ساتھ شناخت کے حوالے سے بھی حکمرانوں نے وسیب کو محرومی کا شکار کر رکھا ہے۔ عمران خان اور دیگر حکومتی لوگ وسیب کو جنوبی پنجاب کا نام دیتے ہیں جبکہ یہ لغوی اعتبار سے بھی غلط ہے کہ وسیب کے بہت سے اضلاع پنجاب کے جنوب میں نہیں آتے۔ یہ بات اپنی جگہ سوالیہ نشان ہے کہ جو حکمران وسیب کو شناخت کا حق دینے پر آمادہ نہیں وہ دیگر حقوق کیا دیں گے؟ وزیر اعظم نے سول سیکرٹریٹ کی بات ہے حالانکہ تحریک انصاف کا منشور اس بات کا گواہ ہے کہ وعدہ صوبے کا ہوا تھا سول سیکرٹریٹ کا نہیں۔ معروف کالم نگار اشرف شریف نے روزنامہ 92 نیوز کے شہر نامہ میں ’’پنجاب میں ایک نہیں دو تبدیلیوں کا امکان‘‘ کے عنوان سے اپنے گزشتہ روز کے کالم میں بجا طور پر لکھا کہ فرض کیجئے کہ ایک آرڈیننس کے ذریعے جنوبی پنجاب کو عبوری صوبہ بنا دیا جاتا ہے تو عثمان بزدار کو وہاں بھیجا جا سکتا ہے۔ یہ بات اہمیت کی حامل ہے اور حکومت کو اس پر غور کرنا چاہئے اور بلا تاخیر آرڈیننس کے ذریعے صوبہ بنا دینا چاہئے اور جس طرح دیگر آرڈیننس اسمبلیوں سے منظور کرا کر آئین کا حصہ بنا دیئے جاتے ہیں یہ کام بھی اسی طرح ممکن ہے۔ اس سے جہاں لوگوں کو سہولت میسر آئے گی وہاں تحریک انصاف کا ایک وعدہ پورا ہو گا اور عمران خان کی مقبولیت میں یقینا اضافہ ہو گا۔ اس قدم سے نہ صرف وفاق متوازن ہو گا بلکہ ایوان بالا جو کہ وفاق پاکستان کا اہم ترین ادارہ ہے، بہت حد تک بیلنس ہو جائے گا کہ اب تک یہ ادارہ اس بناء پر غیر متوازن ہے کہ 38 فیصد آبادی کے صوبوں نے سینٹ میں 75 فیصد حصہ حاصل کیا ہوا ہے اور 62 فیصد آبادی کے ایک صوبہ پنجاب کو محض 25 فیصد حصہ حاصل ہے۔ صوبوں کی آبادی کے حوالے سے 62 اور 38 کے فگرز میں نے سابقہ مردم شماری کے حوالے سے عرض کئے ہیں کہ موجودہ مردم شماری کے نتائج سرکاری طور پر سامنے نہیں آئے۔ کہا جاتا ہے کہ موجودہ مردم شماری میں صوبوں کی آبادی کے نتائج پنجاب 62کی بجائے 60 اور دیگر تین صوبے 38 کی بجائے 40 کی سطح پر آگئے ہیں۔ اگر اس بات کو بھی مان لیا جائے تو یہ کوئی اتنا بڑا فرق نہیں ہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے پہلے جب مغربی پاکستانی کو ون یونٹ یعنی ایک صوبے میں تبدیل کیا گیا تو دیگر صوبوں کی طرف سے سخت احتجاج ہوا اور اینٹی ون یونٹ محاذ قائم ہوئے۔ اس موقع پر حکمرانوں کی طرف سے یہ دلیل پیش کی گئی کہ ایک صوبہ مشرقی پاکستان کی آبادی ، مغربی پاکستان کے تمام صوبوں کو ملانے کے بعد بھی زیادہ ہے۔ اس فرق کو برابر کرنے کیلئے ون یونٹ ضروری ہے۔ سوال اتنا ہے کہ اگر اس وقت صوبوں کی آبادی کو برابر کرنے کیلئے ون یونٹ ضروری تھا تو کیا اب صوبوں کو متوازن بنانے کیلئے پنجاب کو دو یا تین صوبوں میں تقسیم کرنا ضروری نہیں؟ خصوصاً ان حالات میں جبکہ تاریخی، ثقافتی اور جغرافیائی لحاظ سے پوٹھو ہار اور سرائیکی وسیب پنجاب سے الگ ہیں۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ تقسیم کے وقت پنجاب کا چھوٹا حصہ ہندوستان کے پاس اور بڑا حصہ پاکستان کو ملا ، ہندوستان کے چھوٹے حصے کے تین صوبے ہریانہ، ہماچل پردیش اور پنجاب بن گئے اور دہلی جو کہ صوبہ لاہور کا حصہ تھا ان کو بھی وفاقی اکائی کا درجہ حاصل ہوا۔ اس بناء پر ہندوستان کے حصے میں آنے والے چھوٹے حصے کے چار صوبے بن گئے جبکہ ہمارے ہاں مغربی پاکستان میں صورتحال یہ رہی کہ ون یونٹ کے خاتمے پر سابق ریاست بہاولپور کو بھی پنجاب میں شامل کر دیا گیا۔ اس پر بہت بڑا احتجاج ہوا اور بہاولپور میں لوگ شہید بھی ہوئے اور وسیع پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں اور ستر کے الیکشن میں ووٹروں نے پنجاب میں شمولیت کے خلاف اپنا حق رائے دہی استعمال کیا اور اسی بناء پر اس وقت کی مقبول جماعت پیپلز پارٹی کو بھی پوری ریاست بہاولپور میں شکست ہو گئی۔ اسی بناء پر ضروری ہے کہ تاریخی حقیقتوں کا ادراک کیا جائے اور ملک و قوم کی بہتری کیلئے سوچا جائے۔ زندہ قومیں تاریخ سے سبق حاصل کرکے مستقبل کا راستہ ہموار کرتی ہیں۔ صوبے کے حوالے سے تاریخ عرض کرنے کا مقصد اتنا ہے کہ مقتدر قوتیں صوبے کے مسئلے پر سنجیدگی سے غور کریں کہ وسیب کے لوگ الگ ملک نہیں بلکہ وفاق پاکستان کے اندر اپنی اکائی طلب کر رہے ہیں۔ اس سے وفاق پاکستان مضبوط اور مستحکم ہو گا۔ چھوٹے صوبوں کا احساس محرومی ختم ہو گا اور وسیب کے ساتھ ساتھ چھوٹے صوبوں کے عوام میں پنجاب کے خلاف جو نفرت کے جذبات ہیں اُن میں کمی آئے گی۔ یہ وہ کام ہے جو کہ قیام پاکستان کے فوری بعد کر دینا چاہئے تھا مگر اسے جان بوجھ کر طوالت دی گئی۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ اگر مشرقی پاکستان میں بھی نئے صوبے بنائے جاتے اور پنجاب کے حجم کو بھی کم کر دیا جاتا تو مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے پاکستان کو بچایا جا سکتا تھا کہ بھارت نے اپنے صوبے 9 سے بڑھا کر 36 کر دیئے ہیں۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ سابق دور میں میاں شہباز شریف نے پنجاب اسمبلی سے دو صوبوں کی قرار داد پاس کرائی جس میں وفاق سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ صوبہ کمیشن قائم کرے۔ پنجاب اسمبلی کی قرارداد پر صوبہ کمیشن قائم ہوا۔ صوبہ کمیشن نے کام شروع کیا اور کمیشن اس نتیجے پر پہنچا کہ دو صوبے نہیں بلکہ پنجاب میں ایک نیا صوبہ بننا چاہئے۔ (ن) لیگ نے بائیکاٹ کیا مگر کمیشن نے اپنا کام جاری رکھا اور سرائیکی صوبے کا بل سینٹ کو بھیجا اور سینٹ نے دو تہائی اکثریت کے ساتھ صوبے کا بل پاس کر دیا۔ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ قرارداد اور بل میں فرق ہوتا ہے بل پاس ہونے کا مقصد یہ تھا کہ سرائیکی صوبے کو دو آئین ساز اداروں میں سے ایک ادارے کی طرف سے آئینی تحفظ حاصل ہو گیا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ عمران خان آئینی طور پر صوبے کا کام اسی جگہ سے شروع کریں جہاں یہ کام رکا تھا۔