سیکولر اور لبرل لابی کی سندھ اسمبلی میں مذہب کی تبدیلی کے بل پر ذِلّت آمیز ناکامی کے بعد اب ان کی پناہ گاہ اور ٹھکانہ شیریں مزاری کی وزارتِ انسانی حقوق بن گئی۔ پاکستان کو بدنام کرنے کی ایسی تمام کوششیں ضائع ہو رہی تھیں، جو میڈیا میں بیٹھے ہوئے سیکولر، لبرل گماشتوں نے چند ایک جھوٹے مقدمات تراش کر پھر انہیں خبروں کی مین ہیڈ لائن بنا کر ایسا تاثر قائم کرنے کی کوشش کی تھی کہ جیسے پاکستان میں مسلمان بندوقیں اُٹھائے چاروں جانب گھوم رہے ہیں اور ہندوئوں کو پکڑ پکڑ کر مسلمان بنا رہے ہیں۔ وہ الزام جو کبھی برِصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکمرانی کی تاریخ میں متعصب ترین اسلام دُشمنوں نے بھی نہیں لگایا تھا، پاکستان کے سیکولر، لبرل، بددیانت طبقے نے عالمی اور بھارتی ایجنڈے اور خاص طور اپنے خبث ِباطن کے طور پر میڈیا کی حد تک لگا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ شیریں مزاری کی انسانی حقوق کی وزارت کے ایماء پر سندھ اسمبلی میں اس بل کی نامنظوری کے صرف چالیس دن کے اندر ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی جس کے نام میں خاص طور پر ’’جبری مذہب کی تبدیلی‘‘ (Forced Conversion) شامل کیا گیا تاکہ دُنیا کو یہ تاثر پہنچایا جائے کہ یہ پاکستان میں ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ کیا کبھی صحت کی کمیٹی کا نام ’’بیماریوں کی کمیٹی‘‘ یا خوراک کی کمیٹی کا نام ’’بھوک‘‘ کی کمیٹی رکھا گیا۔ مذہبی آزادی کی کمیٹی کا ایسا نام کیوں رکھا گیا۔ اس لئے کہ دیگر کمیٹیوں میں بدنام کرنے کا مقصد پوشیدہ نہیں ہوتا جبکہ یہاں تو پوری کی پوری نیت ہی فتور سے بھر پور تھی۔ پُھرتیاں ملاحظہ فرمائیں، اس کمیٹی نے سات دن کے اندر 28 نومبر 2019ء کو ہی اپنی پہلی میٹنگ بلائی اور پھر پے در پے آٹھ میٹنگ کر کے صرف ایک سال دو ماہ بعد 16 فروری 2021ء کو اپنی رپورٹ جمع کرا دی۔ 16 نومبر 2021ء کو ہونے والی نویں میٹنگ میں کمیٹی کے سامنے یہ ’’متنازعہ ڈرافٹ بل‘‘ لایا گیا جس کا عنوان تھا "The Prohibition of Forced Conversion Bill 2021" ’’جبری تبدیلیٔ مذہب کا امتناعی قانونی بل 2021‘‘ ۔کمیٹی نے متفقہ طور پر کہا کہ شیریں مزاری کی وزارت نے تو سندھ اسمبلی کے مسترد کردہ بل کو ہی نقل کر کے بھیج دیا ہے۔ حالانکہ اس پر پاکستان کے ہر طبقے نے اعتراضات کئے تھے۔ کمیٹی نے یہ بل واپس کیا اور پانچ دن کے اندر دوسرا بل پیش کرنے کو کہا گیا۔ اگلی میٹنگ 8 فروری 2021ء کو منعقد ہوئی اور ڈھٹائی کا عالم یہ تھا کہ اسی بل کو چند الفاظ اور فل سٹاپ ’’کامے‘‘ بدل کر دوبارہ پیش کر دیا گیا۔ اس ڈھیٹ پن کے جواب میں کمیٹی نے بل کو دوبارہ وزارتِ انسانی حقوق کو بھیجا اور ساتھ لکھا "for further insight" یعنی ’’مزید بصیرت کیلئے‘‘۔ لیکن کمیٹی کو کیا علم کہ جہاں سیکولر، لبرل تعصب ہو وہاں ’’بصیرت‘‘ غائب ہو جاتی ہے۔ اس رپورٹ کے بعد یہ کمیٹی اپنی مدت پوری کر کے ختم ہو گئی اور سینیٹر لیاقت علی خان ترکئی کی سربراہی میں نئی کمیٹی بنا دی گئی ، لیکن کمیٹی کا نام وہی رہا۔ حیرت ہے کہ ان تمام ممبرانِ اسمبلی اور اراکینِ سینٹ کو اس نام پر کبھی کوئی ’’حیرانی‘‘ نہیں ہوئی۔ نئی کمیٹی کا ایک اجلاس 30 جولائی 2021ء کو منعقد ہوا جس میں موصوفہ شیریں مزاری اور مذہبی اُمور کے وزیر نورالحق قادری نے بھی شرکت کی۔ اس میٹنگ میں یہ ’’متنازعہ بل‘‘ پیش ہوا اور تین ممبران لال چند، جے پرکاش اور رمیش کمار نے زور دیا کہ اس بل کو فوری طور پر اسمبلی میں پیش کیا جائے۔ اقلیتی کمیشن کے اراکین نے کہا کہ ہمیں اٹھارہ سال سے کم عمر میں اسلام قبول کرنے پر سخت اعتراضات ہیں کیونکہ ایسا ہوا تو پھر یہ فوراً شادی پر منتج ہو جایا کرے گا۔ بل کے بارے میں وزیر مذہبی اُمور نورالحق قادری نے کہا کہ یہ ایک ’’حساس‘‘ مسئلہ ہے اس لئے اس پر اتفاقِ رائے ضروری ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے بل کو وزارتِ مذہبی اُمور کو بھجوا دیا تاکہ وہ اس کا بغور جائزہ لے۔ اس کمیٹی کے اجلاس کے پانچ دن بعد 4 اگست 2021ء کو کمیٹی کے اراکین کو ایک مراسلے کے ساتھ وہی پرانا جبری تبدیلی کی روک تھام والا بل بھیجا گیا جس کے بارے میں کمیٹی کہہ چکی تھی کہ یہ سندھ حکومت کے مسترد شدہ بل کا چرپہ اور نقل ہے۔ مراسلے کے اوپر والے کونے میں لکھا ہوا ہے "immediate" یعنی ’’فوراً‘‘ اور "By Special Messenger"یعنی ’’مخصوص ڈاک لے جانے والے کے ذریعے‘‘ گویا یہ بل کمیٹی میں اجتماعی طور پر پیش کرنے کی جرأت نہ ہوئی، بلکہ تمام ممبران کو علیحدہ علیحدہ ان کے گھروں اور دفاتر میں تقسیم کیا گیا۔ عمران خان صاحب کی وزارتی ٹیم کے کچھ ’’اعلیٰ دماغ‘‘ اراکین کو ایسے معاملات میں بہت جلدی بھی ہوتی ہے مگر وہ عوامی ردِعمل کے خوف سے اپنی اس حرکت کو خفیہ بھی رکھنا چاہتے ہیں۔ سندھ اسمبلی میں سرِعام مسترد کردہ بل کو دوبارہ منظور کروانے اور وہ بھی اسے قومی سطح پر قانون کا درجہ دلوانے کی سازش انہی وزیروں کے دماغ کا نفرت انگیز ’’پھوڑا‘‘ تھا، ورنہ سندھ میں زرداری، بلاول بھٹو، شیری رحمان اور رضا ربانی جیسے سیکولر، لبرل سیاسی رہنمائوں کا اس معاملے میں حشر دیکھ کر بھی یہ وزراء اگر مخلص ہوتے تو کبھی بھی عمران خان کو اس آگ میں کودنے کا مشورہ نہ دیتے۔ لیکن ان کا تو ایجنڈا ہی اور ہے۔ یوں لگتا ہے انہوں نے عمران خان کو عوامی سطح پر ذلیل و رُسوا کرنے کا پورا بندوبست کر رکھا ہے۔ اس بل کا آغاز ایک جھوٹ پر مبنی فقرے سے ہوتا ہے۔ "The Government of Pakistan is obligated to fulfill its commitment under international convention on civil and political rights and International convention of Economic culture and social rights" ’’حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ عالمی کنونشن برائے سول اور سیاسی حقوق اور عالمی کنونشن برائے معاشی و معاشرتی اور سوشل حقوق کی پاسداری کرے‘‘۔ وزارتِ قانون اور وزارتِ انسانی حقوق کی ’’جہالت‘‘ کا عالم یہ ہے کہ یہ دونوں "Convention" نہیں بلکہ "Covenant" یعنی ’’عہد نامہ‘‘ ہیں۔ یہ دونوں عہد نامے 16 دسمبر 1966ء کو اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں منظور ہوئے۔ ان دونوں میں کسی آرٹیکل میں کہیں یہ درج نہیں کہ کس عمر سے پہلے آپ مذہب تبدیل نہیں کر سکتے، بلکہ ایسے معاملات کا ذکر تک نہیں ہے۔ لیکن اسی جھوٹی وجۂ تسمیہ کی بنیاد پر اس بل کی شق نمبر (2)5 کے تحت اگر کوئی اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکا یا لڑکی اسلام قبول کرتا ہے تو قانون اسے مسلمان تسلیم نہیں کرے گا۔ ان دونوں ’’عہد ناموں‘‘ پر یورپ اور امریکہ جیسے لاتعداد ممالک نے بھی دستخط کئے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک ملک میں بھی ایسا قانون نہیں ہے کہ کوئی لڑکا یا لڑکی اٹھارہ سال سے پہلے مذہب تبدیل نہیں کر سکتے۔ شاید ان عالمی ’’عہد ناموں‘‘ کی ’’انگریزی‘‘ کی خصوصی سمجھ صرف شیریں مزاری کی وزارتِ انسانی حقوق کی حاصل ہے۔ ان سیکولر، لبرل حضرات کی مہربانی ہے کہ آج اس اسلامی ملک میں ایک اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکی یا لڑکے کو گھر سے بھاگنے کی تو اجازت ہے، اسے والدین کی بجائے دارالامان بھیجا جاتا ہے لیکن مسلمان ہونے والے لڑکے یا لڑکی کو اس قانون کے مطابق واپس ’’پنڈتوں‘‘ کے حوالے کیا جائے گا جو اسے پھر ہندو ہونے پر قائل کریں گے۔ بل چونکہ اب وزارتِ مذہبی اُمور کے پاس ہے۔ اس لئے ان کی سفارشات کا انتظار رہے گا۔ لیکن ایسی ہی خاموشی، راز داری اور سازش سے پہلے خواجہ سرائوں کے نام پر ’’ہم جنس پرستی‘‘ کی سرپرستی کا بل منظور کروایا گیا، ’’گھریلو تشدد‘‘ کا بل پیش کیا گیا، تجربے کی بنیاد پر خوف یہی ہے کہ اس بل کے ساتھ بھی کہیں ایسا نہ ہو جائے۔ لیکن ایسا کرنے سے یہ وزراء حضرات پاکستان کے اسلامی تشخص کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے، البتہ عمران خان کے عوامی مستقبل کو مکمل تاریک ضرور کر دیں گے۔ خان صاحب !آپ کی وزارت میں چار وزراء ایسے ہیں، کہ اگر وہ اپنی سازشوں میں کامیاب ہو گئے تو آپ اور آپ کے اُمیدواران اگلے الیکشنوں میں عوامی اجتماعات منعقد کروانا تو دُور کی بات ہے، لوگوں کا سامنا تک نہیں کر سکیں گے۔ اس چار کے ٹولے کو آپ بخوبی جانتے ہیں۔(ختم شد)