وزیر اعظم عمران خان کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سیشن میں خطا ب کا دنیا بھر میں شدت سے انتظار ہورہاہے۔انہوں نے کئی بار کہا کہ وہ ایک غیر معمولی خطاب کرنے جارہے ہیں جو مسئلہ کشمیر کے حل کی راہ ہموار کرسکتاہے۔سری نگر سے فہد شاہ جو عالمی جرائد ورسائل کے لیے لکھتے ہیں نے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا کہ کشمیری یہ خطاب سننے کے منتظر ہیں اور ان کی امیدیں بڑھ چکی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے دورہ امریکہ سے قبل یہ کہہ کر دنیا کو چونکا یاکہ جو بھی مقبوضہ کشمیر میں جہاد کے لیے جائے گا وہ کشمیریوں اور پاکستان کا سب سے بڑا دشمن ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا کوئی بھی اقدام کشمیریوں سے بہت بڑی دشمنی کے مترادف ہو گا اور بھارت اسے بہانہ بنا کر کشمیریوں پر مزید ظلم کرے گا۔اس بیان کی دنیا بھر میں تعریف ہوئی۔ خاص کر امریکی حکومت نے اسے بہت سراہا۔اگرچہ بھارت نے سرکاری سطح پر کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن عمومی طورپر اس بیان کی پزیرائی نظر آئی۔ وزیراعظم کا یہ بیان کشمیر پر سفارت کاری کے بنددروازے چوپٹ کھولنے کا باعث بھی بن سکتاہے۔ عشروں سے عالمی لیڈروں کے ساتھ سربراہی ملاقاتوں میں یہ مطالبہ سامنے آتارہاہے اور اس پر مسلسل اصرار بھی بڑھ رہاتھا کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر جانے کے خواہش مندوں کو منع کرے یا روکے۔ پاکستان نے گزشتہ کئی برسوں سے کوشش کی کہ مسئلہ کشمیر کا پرامن اور قابل قبول حل نکل آئے اور تشدد کی بھڑکتی آگ ٹھنڈی پڑے۔ کشمیر کے اندر عسکری کارروائیوں کی کسی بھی سطح پر حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی بلکہ سارا زور سیاسی اور سفارتی کوششوں پر دیاجاتاہے۔ وزیراعظم کادورہ سعودی عرب بھی نئے امکانات کی نوید سناسکتاہے۔ سعودی عرب کے بھارت کے ساتھ تعلقات ضرور ہیں لیکن وہ پاکستان کا اسٹرٹیجک شراکت دار اور مستقل حلیف ہے۔ چنانچہ امریکہ میں سفارت کاری میں سعودی عرب ہمیشہ پاکستان کے حق میں فضا ہموار کرنے میں دست تعاون دراز کرتارہا۔ وزیراعظم عمران خان کا سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ذاتی طیارے میں امریکہ کا سفر کرنا تعلقات میں گرم جوشی کی علامت بھی ہے اور باہمی رکھ کھاؤ کی گہرائی کی غمازی بھی۔ امریکہ حکام سے ملاقاتوں سے قبل سرد وگرم چشیدہ سفارت کار ملیحہ لودھی نے ممتاز کشمیری کاروباری شخصیت فاروق کاٹھوار ی کے ساتھ وزیراعظم عمران خان کی ملاقات کا اہتمام کیا۔ فاروق کاٹھواری نہ صرف کشمیری ہیں بلکہ امریکہ کے بڑے کاروباری افراد میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کئی دھائیوں سے سرگرم ہیں۔ پرویز مشرف اور اٹل بہاری واجپائی نے ان کی دانش اور تعلقات سے استفادہ کیا تھا۔ پرویز مشرف کا چارنکاتی کشمیر فارمولا بھی فاروق کاٹھواری کے تجربات کا نچوڑتھا۔ اگر وہ کشمیر پر پھر سرگرم نظرآتے ہیں تو ان کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ نریندر مودی بھی امریکہ میںموجود ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عندیہ دیا تھا کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرانے میں کردار ادا کریں گے۔ ممکن ہے کہ وہ دونوں ممالک کے سربراہوں کے درمیان بلاواسطہ نام وپیام کا سلسلہ شروع کرانے کی ذمہ داری لے لیں۔ سعودی عرب کی بھی آشیر بادانہیں حاصل ہے۔وزیراعظم عمران خان کا کشمیر پر بالکل واضح اور دوٹوک موقف ہے۔ وہ سفارتی کاری کو موقع دینا چاہتے ہیں اور محدود مقاصد کی حامل کسی مہم جوئی کے حق میں نہیں۔ بھارت کی عالمی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ۔وزیراعظم مودی امریکہ میں جہاں جاتے ہیں مظاہرین ان کا تعاقب کرتے ہیں۔ گاندھی کا بھارت جسے دنیا امن اور محبت کا پرچارک گردانتی تھیں اب گاندھی کے قاتل نتھو رام گوڈسے کے نام سے شناخت کیا جاتاہے۔ کل تک لوگ کشمیر کو مقبوضہ کہنے سے کتراتے تھے اب دنیا بھر یہ اصطلاح مستعمل ہوچکی ہے۔ عالم یہ ہے کہ دنیابھر کے انصاف پسند کشمیریوں کی حمایت کے لیے سیاسی ،سماجی اور مذہبی تفریق سے بالاتر ہوکر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہورہے ہیں۔ عالمی یوم امن کے موقع پر ہفتہ رفتہ میں دنیا کے کئی شہروں میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیاگیا۔ لندن، واشنگٹن، نیویارک، باسٹن، اوسلو اور کولکتہ میں بھی لوگوں نے حکمران بھارتیہ جنتاپارٹی کے اقدمات کی مذمت کی۔ اسلام آباد نیشنل پریس کلب کے سامنے گلوبل اسٹینڈآئوٹ فار پیس کے پلیٹ فارم پر کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ممتاز شاعروں، ادیبوں، صحافیوں، سماجی اور سیاسی کارکنوں نے ایک احتجاج میں شرکت کی۔ پریس کلب کے عقب سے گزرتی ہوئی سڑک پر سرے شام جڑواں شہروں سے لوگوں کی بڑی تعداد جمع ہونا شروع ہوئی۔ سڑک کے کنارے کھڑے ہوکر پاکستان کی ممتاز شاعرہ کشور ناہید اور محمد اظہار الحق نے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اپنا تازہ کلام پیش کیا۔دونوں شعرا نے کشمیریوں کے جذبہ حریت اور مزاحمت جاری رکھنے کے عزم کو خراج تحسین پیش کیا۔ اینکر پرسن حامد میر نے اپنے مخصوص انداز میں متنبہ کیا کہ کشمیریوں کی آواز کو سنا جائے اس سے پہلے کہ کشمیرلاوا بن کر پورے جنوبی ایشیا کے امن کو تباہ کردے۔ مظاہرے میں شہریوں بالخصوص عورتوں اوربچوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی جن میں کئی ایک نے سرخ رنگ کے دوپٹے اوڑھ رکھے تھے جو مزاحمت کی علامت ہیں۔ مظاہرین نے بڑے دلچسپ کتبے اٹھارکھے تھے جن پر آزادی کی تحریکیوں کے عالمی ہیروز کی تصویریں چسپاں تھیں۔ مقررین نے مطالبہ کیا کہ مقبوضہ کشمیر سے فوری طور پر کرفیو اٹھایاجائے۔ انٹرنیٹ اور ٹیلی فون پر سے پابندیاں ختم کی جائیں۔ بھارت کے دانشمند حلقے اپنی حکومت کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ حالیہ اقدامات کو واپس لے اور کشمیر پر سنجیدگی سے مذاکرات شروع کرے۔ کیونکہ حالیہ بھارتی اقدامات نے اسے عالمی سطح پر زبردست ہزیمت کا شکار کیاہے۔امریکی صدر اور سعودی عرب کی کوششوں سے ممکن ہے کہ مذاکرات کا ڈھول ڈلاجاسکے۔ اس طرح کشمیر کا مسئلہ ایک نیا رخ اختیار کرسکتاہے تاہم قطعی طور پر کوئی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں۔