سیاسی منظر نامے پر ایک قضیہ ختم ہوتا ہے، کوئی نیا جنم لے لیتا ہے۔گزشتہ دو تین ماہ خاص طور پر سیاسی گہما گہمی سے زیادہ، سیاسی اور عدالتی جھٹکوں کے تھے جس سے حکومتی اور ادارہ جاتی چولیں ہلی نہیں تو تھوڑی تھوڑی کھسکی ضرور ہیں۔موجودہ سیاسی ہلچل کی بنیاد بھی انہی عوامل کے باعث پیدا ہو رہی ہے۔ اپوزیشن اور خاص طور پر حکومتی اتحادیوں کا خیال ہے کہ اس وقت حکومت وقت کمزور پچ پر ہے اس لئے اس پر دبائو بڑھا کربہت سی ایسی رعائیتیں حاصل کی جا سکتی ہیں جو پہلے ممکن نہیں تھا۔ مسلم لیگ(ق)، ایم کیو ایم، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس، اور بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل) جب حکومت کے ساتھ شامل ہوئی تھیںتو تحریری معاہدوں کے ذریعے اپنے مطالبات کی تکمیل کی یقین دہانی لی تھی۔بی این پی (مینگل) تو گاہے بگاہے اپنے مطالبات کے حق میں پر زور طریقے سے آواز اٹھاتی رہی۔ باقی اتحادیوں نے گلے شکوے ضرور جاری رکھے لیکن اس قدر برہمی کا اظہار کبھی نہیں کیا جیسے اب کیا جا رہا ہے۔ ان میں سب سے پیش پیش مسلم لیگ(ق) ہے۔ طارق بشیر چیمہ جو کہ وفاقی وزیر بھی ہیں نے سب سے پہلے ٹی وی چینلز پر کھلے الفاظ میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور خصوصاً پنجاب میںحکومتی کارکردگی کو اپنے سیاسی مستقبل کے لئے خطرناک قرار دیا۔ مسلم لیگ (ق) کے ایک اور لیڈر کامل علی آغا نے د وہاتھ آگے بڑھکر اس وقت حکومت پر کڑی تنقید کی جب حکومتی مذاکراتی ٹیم اور مسلم لیگ(ق) کے نمائندوں کی ملاقات ہو چکی تھی اور انہوں نے معاملات طے پا جانے کی بھرپور امید ظاہر کی تھی۔کامل علی آغا نے بڑھتی ہوئی مہنگائی ، بیروزگاری اور کرپشن کی بھرمار کے طعنے دینے کے بعد تان اس بات پر توڑی کہ جب ان حالات میںچوہدری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بنانے کی بات کرتے ہیں تو انکی چیخیں نکلتی ہیں۔مجھے علم نہیں کہ وزیر اعلیٰ بننے کی خواہش کا اظہار چوہدری پرویز الٰہی نے کبھی کیا ہو لیکن انکے مطالبات اپنی جگہ جائز بھی ہیں اور انکو پورا کرنا حکومتی ذمہ داری بھی ہے۔بلکہ پنجاب میں حکومت کی اپنی ساکھ بہتر کرنے کے لئے بھی از حد ضروری ہے۔تاریخی طور پر بھی چوہدری برادران اپنی سیاسی ساکھ کے حوالے سے ہمیشہ بہت حساس واقع ہوئے ہیں۔1985 ء میں جب جنرل ضیاء کا اقتدار زوروں پر تھا اور نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تو عوامی مسائل کے حل کے حوالے سے انہیں نواز شریف حکومت سے شدید تحفظات تھے۔ پھر ایک وقت آیا کہ انہوں نے بغاوت کی ٹھانی۔ اسکے لئے انہوں نے ایک اچھی تعداد میں پنجاب کے ممبران صوبائی اسمبلی کو اپنا ہمنوا بنایا اور تحریک عدم اعتماد کا ڈول ڈالنے کی کوشش کی، بر وقت خبر ہو جانے کے باعث یہ تحریک پیش بھی نہ ہو سکی۔ جنرل ضیاء نے نواز شریف کے حق میں مشہور زمانہ بیان دیا کہ،’’نواز شریف کا کلہّ مضبوط ہے‘‘ جو کہ اخباروں کی شاہ سرخی بنا اور چوہدری صاحبان کی حمایت کے دعویدار زیادہ تر پنچھی اگلے روز اڑ کر نواز شریف کی شاخ پر جا بیٹھے۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جنرل ضیاء جیسے ڈکٹیٹر کے ہوتے ہوئے بھی چوہدری صاحبان نے اپنی سیاسی ساکھ کے لئے ٹکر لی۔اب بھی وہ یقیناً سنجیدگی سے اپنے مطالبات کے پورا کرنے کی آواز اٹھا رہے ہیں۔جن لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ وہ پنجاب میں کسی کی شہہ پر حکومتی تبدیلی کے درپے ہیں اور اسکے لئے اکثر حلقے یہ دلیل دے رہے ہیں کہ مسلم لیگ(ن) کی طرف سے انہیں حمایت کی یقین دہانی کرائی گئی ہے، یہ خام خیالی ہے۔ چوہدری برادران حکومت کے ساتھ کئے گئے اپنے معاہدے پر عملدرآمد پر کاربند رہیں گے، بھلے انکے سارے مطالبات پورے نہ ہوں اور دوسرا وہ کبھی بھی میاں صاحبان کے وعدوں پر اعتبار نہیں کرینگے جنکے فریبوں کے وہ ڈسے ہوئے ہیں۔صرف ایک صورت میں پنجاب میں تبدیلی کی بات بن سکتی ہے اگر مسلم لیگ(ن) کے ارکان کی اکثریت مسلم لیگ (ق) کو جوائن کر لے۔ اس صورت میں بھی وہ اپنا حق اقتدار کا دعویٰ اپنے اتحادی عمران خان کے سامنے رکھیں گے نہ کہ پیٹھ میں چھڑا گھونپیں۔ایم کیو ایم کے علاوہ جتنے اتحادی ہیں انکے مطالبات بھی جائز ہیں اور انکو پورا کرنا حکومتی ذمہ د اری ہے جس کے لئے کوششیں جاری ہیں ۔ ایم کیو ایم جب بھی کسی حکومتی اتحاد میں ہوتی ہے وہ عادتاً کچھ عرصے بعد اس قسم کا واویلا شروع کرتی ہے، وزارتیں چھوڑ دینا روٹھ کر گھر جا بیٹھنا ، اور پھر کچھ عرصے بعد واپس آجانا۔ اپنی صحافتی زندگی میں گزشتہ تیس سال سے یہی کچھ ہوتا دیکھ رہا ہوں۔ایم کیو ایم ہر سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد میں شامل رہی ہے اور یہی کام کرتی رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی2008 ء کے بعد بننے والی حکومت کی بات زیادہ پرانی نہیں ہے، ہر دوسرے مہینے اس وقت کے وزیر داخلہ لندن جایا کرتے تھے اور ایم کیو ایم سے صلح ہو جاتی تھی۔اب لندن والا معاملہ تو نہیں رہا دیکھیں اب کن شرائط پر معاملات طے پاتے ہیں۔ عمران خان کی سیاسی مشکلات کی وجہ اپنی حکومت کے ابتدائی پندرہ ماہ میں کرپشن کے خاتمے کے نام پر فل سپیڈ میںحکومتی گاڑی کو بھگانا بنا ہے۔ انہوں نے کسی سپیڈ بریکر، کھڈے اور کھائی کی پرواہ کئے بغیر اسے بگٹٹ بھگایا ہے اور بالآخر یہ گاڑی، مفاہمت کہہ لیں، مجبوری یا پھر معاملہ فہمی کے قد آور درخت سے ٹکرا کر رک گئی ہے۔ گاڑی کے رکنے پر وزیر اعظم کو احساس ہوا ہے کہ گاڑی کو جو نقصان ہوا سو ہوا انکے ساتھ بیٹھی سواریوں کا انجر پنجر بھی ہل کر رہ گیا ہے۔ اس صورتحال میں انکی چیخ و پکار فطری بات ہے۔اسکو اپنے خلاف سازش سمجھنا ایک بہت بڑی غلطی ہو گا۔اسکے لئے ٹھنڈے دل و دماغ سے صورتحال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور اپنے اتحادیوں کے سا تھ مذاکراتی ٹیم نہیں خود وزیر اعظم کو بیٹھ کر پوائنٹ تو پوائنٹ بات کرنے کی ضرورت ہے ۔ انکے جائز مطالبات کو پورا کرنے کے لئے انکو اتنی ہی دلجمعی اور طاقت سے کام کرنا ہوگا جتنا انہوں نے اپنے گزشتہ سترہ ماہ معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ سیاسی مشکلات پر بھی قابو پانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔