سینئر کالم نگاروں سے بجا طور پہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ متانت،دیانت داری اور حقائق کو مد نظر رکھیں گے بالخصوص اس وقت جب انہوں نے حق گوئی کا علم بلند کررکھا ہو۔ پاکستان جیسے معاشرے میں مذہبی کارڈ کھیلنا، لوگوں کے مذہبی جذبات بھڑکانا اور انہیں اپنے مطلوبہ رخ پہ ڈال دینا غالبا آسان ترین کام ہے۔ایک قلم کار کو خوب خبر ہوتی ہے کہ اس کے الفاظ حساس معاملا ت پہ کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں بالخصوص اگر اس کی عوام میں خاصی پذیرائی بھی ہو۔سیاسی معاملات میں ہم بھٹو کے خلاف نظام مصطفی تحریک کا ہنگام دیکھ چکے ہیں حالانکہ بھٹو نے ملک کو اسلامی آئین دیا،شراب پہ پابندی لگائی، جمعہ کی چھٹی کی اور دیگر مذہبی نوعیت کے اقدامات کئے ۔ ایسے امیر المومنین کے خلاف نظام مصطفی جیسی کسی تحریک کی تک بنتی تو نہیں تھی لیکن وہ چلی اور درحالانکہ وہ خود بھرے جلسوں میں کہتا تھا کہ شراب پیتا ہوں غریبوں کا لہو تو نہیں پیتا، وہ کسی سیکولر ایجنڈے پہ نہیں تھا۔ہاں یہ ایک علیحدہ بات ہے کہ اس کی پارٹی کا منشور ہی اسلام ہمارا دین اور سوشلزم ہماری معیشت ہے تھا پھر بھی وہ کسی سیکولر ایجنڈے پہ نہیں تھا۔ سوشلزم اور سیکولرازم چونکہ دو علیحدہ مسالک ہیں۔ ہم بھٹو کو تاریخ کے حوالے کرتے ہیں جو کہ وہ ہو چکے اور وہ ہمارا موضوع بھی نہیں۔ہمارا موضوع عمران خان ہیں اور یہ الزام کہ وہ سیکولر ایجنڈے پہ ہیں اور ریاست مدینہ کا نعرہ انہوں نے پاکستان کی بھولی بھالی عوام کو دھوکہ دینے کے لئے لگا رکھا ہے جو مذہب سے کسی صورت دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔مجھے یاد ہے عمران خان کسی زمانے میں ایک انگریزی روزنامے میں کالم لکھا کرتے تھے۔ یہ ایک ایسے شخص کے مشاہدات تھے جو اسلا م کو نہ صرف اس کی روح کے مطابق سمجھنا چاہتا تھا بلکہ مغربی تہذیب سے برگشتہ ہو رہا تھا ۔ انہوں نے مغربی تہذیب سے مرعوب ایشیائی لوگوں کے لئے ایک مخصوص اصطلاح برائون صاحب ایجاد کی تھی اور مغربی عورت کی کم لباسی اور اس کے مضمرات پہ کمال مضامین لکھے تھے جس میں وہ مشرقی عورت کے پردے کے بھرپور حامی نظر آتے تھے۔ ان کا ایک فقرہ مجھے آج بھی یاد ہے۔انہوں نے لکھا :عورت جتنی کم لباس ہوگی اسے اپنے جسمانی حسن کی نگہداشت پہ اتنے ہی اخراجات برداشت کرنے پڑیں گے اور یہ کام بھی مرد نہیں وہ خود ہی کرے گی کیونکہ مرد اس کا کفیل نہیں رہا۔ماضی چھوڑئے، حال پہ آجایئے۔ جس شخص پہ سیکولر ایجنڈے پہ ہونے کا الزام لگاکر ایک خطرناک رجحان کا آغاز کیا گیا ہے،اسے دنیا طالبان خان کہتی ہے۔وہی طالبان جو آپ کے ہی نہیں میرے بھی نظریاتی ممدوح ہیں۔یہ کیسا تضاد ہے۔عمران خان نے جس وقت اقتدار سنبھالا،دنیا بھر کے مسلمان توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے حوالے سے دلبرداشتہ تھے۔ انہوںنے عالمی سطح پہ اس مخصوص معاملے میں قانون سازی کا اعلان کیا اور پاکستان اس مہم کا سربراہ بن گیا حتی کہ ملعون خاکہ نگاروں کو ان کی اپنی حکومت نے شٹ اپ کال دے دی۔یہ کیسا سیکولر ایجنڈا تھا جس کی توفیق گزشتہ حکومت کو نہیں ہوئی؟اگر وہ کسی سیکولر ایجنڈے پہ ہیں تو اس وقت بھی ہونگے جب خیبر پختون خواہ میں ان کی حکومت بنی ۔ کیا یہ یاد دلانا پڑے گا کہ ان کے پاس صوبے میں حکومت سازی کے کئی آپشن تھے لیکن انہوں نے اتحاد کے لئے جماعت اسلامی کا انتخاب کیا اور میں نے اپنی ان گناہگار آنکھوں سے کچھ چہرے اترتے اور مٹھیاں بھنچتی دیکھیں۔ اس دوران صوبے میں کئی انقلابی اقدامات اٹھائے گئے جیسا کہ اسکولوں میں ناظرہ قرآن لازمی قرار دیا گیا، نوجوانوں کو کاروبار کے لئے بلاسود قرضوں کی فراہمی، مسجدوں کو سولرائزڈ کیا گیا تاکہ بجلی کی معطلی سے نمازیوں کو پریشانی نہ ہو،طالبات کے لئے پردہ لازمی،نماز کے اوقات میں کاروبار بند کرنے کی ترغیب،صوبے میں امیرالمومنین حضر ت عمرؓ کے یوم شہادت کی عام تعطیل اور ایسے بہت سے اقدامات جن کی تصدیق مومنین کے اس گروہ سے کی جا سکتی ہے جو اس وقت حکومت کا حصہ تھے۔یہ بھی کسی سیکولر ایجنڈے کا حصہ ہوگا کہ طالبان کی نرسری اکوڑہ خٹک کے مدرسوں کوخطیر رقم دے کر خود اپنے لئے مشکلات کھڑی کی گئیں۔ انتہائی باوثوق ذرائع کے مطابق حکومت کو ایک غیر ملکی ادارے کی طرف سے نصاب سے اسلامی مضامین اور آیات نکالنے کے عوض ایک خطیر فنڈ کی پیشکش کی گئی تھی جسے اس سیکولر گماشتے نے پائے حقارت سے ٹھکرادیا تھا۔حال ہی میں لڑکیوں کے اسکولوںمیں مرد مہمانان خصوصی کو مدعو کرنے پہ پابندی بھی اسی سیکولر ایجنڈے میں کہیں لکھا ہوگا۔اپنا ولیمہ بھی لاہور کے کسی پنج تارہ ہوٹل یا فارم ہاوس میں منعقد کرنے اور ملک کی کھائی کھیلی اشرافیہ کومزید کھلانے ٹھنسانے کا بندوبست کرنے کے بجائے ایک مدرسے میں چٹائی پہ طلبا کے ساتھ ایک ہی کھانا کھانا بھی کسی سیکولر ایجنڈے کا حصہ ہوگا اور آج کل ہاتھ میں ہر لمحہ گردش کرتی تسبیح بھی ۔ آپ کو عمران خان کے ریاست مدینہ کے تصور سے اختلاف ہوسکتا ہے۔لیکن کیا یہ قابل تحسین بات نہیں ہے کہ وہ معاشرے میں انصاف اور فلاح کے لئے ہی سہی،خلافت راشدہ کا حوالہ بغیر معذرت خواہانہ لہجے کے دھڑلے کے ساتھ ساری دنیا کے ہر فورم پہ پورے اعتماد کے ساتھ دیتے ہیں۔یکساں نصاب تعلیم کی بات انہوں نے اس لئے کی کہ معاشرے میں کئی قسم کے نظام تعلیم انارکی،معاشی ناہمواری اور طبقاتی تفریق کا باعث ہیں۔اگر و ہ مغربی جمہوریت کا حوالہ دیتے ہیں تو اس کی خوبیوں کا اعتراف کرتے ہیں جہاں عام آدمی کو انصاف، تعلیم ، صحت اور تحفظ حاصل ہے جس کے ہم سب معترف ہیں ۔عمران خان کی نیک نیتی پہ ان کے بدترین دشمن بھی شک نہیں کرتے ۔