قدرت اپنی ساخت میں ہی لچکدار اور تطبیقی ہے۔یہ اقوام کو اپنی اصلاح، ترقی اور انسانیت کی فلاح کا موقع دیتی ہے۔ اگر وہ اس سے کما حقہ فائدہ اٹھائیں تو دنیا کی امامت ان کے حوالے کردیتی ہے ۔ ایسا نہ ہو تو تہذیبیں اپنے خنجر سے آپ خود کشی کرلیتی ہیں۔ٹائن بی بھی یہی کہتا ہے ۔ تہذیبیں قتل نہیں ہوتیں، خودکشی کرلیا کرتی ہیں۔ہمارا شاعر راز آشنا بھی یہی کہہ گیا تھا۔آج ہمارے حجم، قوت اور معیشت میں کمزور ملک پاکستان کے وزیرا عظم عمران خان جدید دنیا کی طاقت و قوت کے مرکز نیویارک میں بیٹھ کر ببانگ دہل یہی کہہ رہے ہیں۔عمران خان ہماری قوم کے لئے قدرت کا موقع ہیں۔ ایسا میرا خیال ہی نہیں، اسے تاریخ ثابت کرے گی ۔وہ دنیا کے مرکز ی اسٹیج پہ اپنی روایتی جرات اور سادگی سے وہ کچھ کہہ گئے ہیں جو عالمی ضمیرسے ہضم ہونے والا نہیں ہے۔ وہ عالمی ضمیر جس سے وہ خود مایوس ہیں، اس لئے نہیں کہ وہ اس سے واقف نہیں تھے بلکہ اس لئے کہ وہ اس کا اعلان کرنا چاہتے تھے۔کشمیر ایسی کسوٹی ثابت ہوا ہے جس نے کھرے اور کھوٹے کو الگ کردیا ہے۔یہ کسوٹی عمران خان نے عالمی ضمیر پہ اونٹ کی پشت پہ آخری تنکے کی طرح رکھ دی ہے۔ ان سطروں کی اشاعت تک وزیراعظم عمران خان اقوام متحدہ کی مجلس عامہ سے خطاب کرچکے ہونگے۔ جیسا کہ وہ بتا چکے ہیں کہ ان کے خطاب کا مرکزی نکتہ کشمیر ہوگا لہذہ وہ ہوگا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اپنے دورہ نیویارک سے پہلے ہی وہ کشمیر کو دنیا کے مرکزی اسٹیج پہ لا چکے ہیں۔گزشتہ ساٹھ برسوں میں کشمیر پہ معذرت خواہانہ بلکہ مجرمانہ خاموشی اپنائی جاتی رہی جیسے ہم ہی قصوروار ہوں۔گزشتہ دس سال میں تو گویا ہم کشمیر کو بھول ہی گئے تھے۔اب حال یہ ہے کہ دنیا بھر میں کشمیر کے علاوہ کوئی بات ہی نہیں ہوتی۔ قدرت نے مودی کی صورت میں ہمیں موقع دیا اور ہماری خوش قسمتی ہے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھانے والا عمران خان ہمارے فیصلہ سازوں میں شامل ہے۔ قدرت کے لئے یہی کافی ہے کہ درست وقت پہ درست فیصلے کئے جائیں۔ اعمال کا دارومدار نیتوں پہ ہے۔ایسا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔میرا نکتہ روز اول سے یہ ہے کہ کشمیر میں مسئلہ انسانی حقوق کا نہیں ہے۔ یہ صرف اصل مسئلے کا آف شوٹ ہے ۔ اصل مسئلہ، خو د مسئلہ کشمیر ہے جو استصواب رائے کا منتظر ہے۔ دوسرا آپشن جنگ ہے جہاں اب تک ہم گئے نہیں ہیں۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ وہ گزشتہ ستر برسوں سے ہورہی ہے۔ اس بار اضافی فوج اتار کر بھارت نے دو کام کئے ہیں۔ ایک کشمیر پہ باقاعدہ قبضہ کیا ، دوسرا دنیا بھر کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی موت دکھائی جس سے ایک قدم پیچھے ہٹا کر وہ اسے بخار پہ راضی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔کشمیر سے کرفیو ہٹا بھی لیا گیا تو اصل مسئلہ جوں کا توں رہے گا۔ وادی میں تعینات تازہ ترین فوج واپس بھی چلی گئی تب بھی اصل مسئلہ وہیں رہے گا۔ عمران خان نے بھارت کے اسی حربے کو اپنا ہتھیار بنا لیا ہے۔ انہوں نے کشمیر میں جاری بھارتی استبداد، نسل کشی اور عصمت دری کو اتنے تواتر سے دہرایا ہے کہ بھارت مکمل طور پہ بیک فٹ پہ نظر آرہا ہے۔عمران خان کی طرف سے عالمی برادری کو لتاڑنے کے بعد امریکی کانگریس سے اقوام متحدہ کو خط لکھا گیا ہے۔فرانسیسی پارلیمنٹ میں پہلی بار کشمیر کا ذکر ہوا ہے۔روسی پارلیمنٹ دوما میں کشمیر کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس کا کریڈٹ عمران خان کو نہ دینا ناانصافی ہوگی۔ یہی وزارت خارجہ تھی اور یہی سفارت خانے ۔ گھسے پٹے بیانات کے سوا کیا سنائی دیتا تھا اور کچھ عرصہ سے تو وہ بھی سنائی دینے بند ہوگئے تھے۔ عمران خان کو بہرحال اصل مسئلے کی طرف توجہ دینی ہوگی ۔ قدرت نے انہیں مسئلہ کشمیر حل کرنے کا موقع دیا ہے اور اسے خوب خبر ہے کہ موزوں ترین آدمی کون ہے۔ وہی جو امریکہ کے قلب میں بیٹھ کر کہنے کی جرات رکھتا ہے کہ اگر اسی لاکھ کشمیری عیسائی یا یہودی ہوتے اور اگر صرف آٹھ امریکی بھی اسی طرح خون آشام محاصرے کی زد میں ہوتے تو کیا دنیا ایسے ہی خاموشی سے تماشا دیکھتی؟اس ایک فقرے میں عالمی ضمیر کی بے حسی، خون مسلم کی ارزانی اور مسلم دنیا کی مجرمانہ خاموشی ہی نہیں یہ اعلان بھی چھپا ہے کہ کشمیر محض انسانی حقوق کا مسئلہ نہیں، مسلمانو ں کا مسئلہ ہے۔ سادگی میں چھپی تہہ در تہہ پرکاری کو مغربی میڈیا خوب سمجھتا ہے جس نے دجل اور جھوٹ کو ایجاد کیا ہے۔کیا عمران خان کے علاوہ کسی کی جرات ہوئی کہ وہ نفرت انگیز تقریر کے باب میں خطاب کرتے ہوئے یہ تجزیہ پیش کرے کہ یہ نفرت انگیز تقریریں ہی تو ہیں جو دہشت گردی پہ اکساتی ہیں۔ کیا کسی اور کو آقائے نامدار ﷺ کی ناموس کو اس طرح مغرب کے قلب میں بیٹھ کرہر مصلحت پہ اولیت دینے کی سعادت حاصل ہوئی جہاں آزادی اظہار رائے کے نام پہ اربوں مسلمانوں کی دل آزاری کی جاتی ہو۔ جس وقت عمران خان نے کہا کہ ہمارے دلوں کو تکلیف ہوتی ہے جب ہمارے نبی کی توہین کی جسارت کی جاتی ہے اور اس کے بعد کوئی کسی کو ردعمل سے نہیں روک سکتا تو مجھے پیرس میں شارلے ہیبدو کے ملعون مقتولین سے اظہار یکجہتی کے سلسلے میں دنیا بھر سے اکھٹے ہونے والے سربراہان یاد آگئے جس میں ترکی بھی شامل تھا۔خدا ہی جانے کون سی مصلحتیں ہونگی،جو ناموس رسالت پہ سمجھوتہ کرنے پہ مجبور کردیں، عمران خان کو کوئی مصلحت اس معاملے میں نہ روک سکی۔ یہی نہیں انہوں نے امریکی میڈیا پہ بیٹھ کر امریکی حکومت کے خلاف اس کے ووٹر کو وہ شعور دینے کی جرأت کی جو تیسری دنیا کے کسی لیڈر کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوسکتا۔انہوں نے امریکہ کے تازہ ترین معاشی حریف چین کی مثال براہ راست امریکی ٹی وی پہ دے کر کتنے ہی امریکی تھنک ٹینک سوچ میں ڈال دئیے، جب انہوں نے کہا کہ جس وقت امریکہ دو ٹریلین ڈالر ایک بے مصرف جنگ میں جھونک رہا تھااس وقت چین اپنے لوگوں کے لئے انفرا اسٹرکچر بنا رہا تھا۔ اس وقت صدر ٹرمپ کو ایسی ہی ہچکی آئی ہوگی جیسے عمران خان کی کار کو نیویارک کی ناہموار سڑک پہ آئی تھی۔انہوں نے ساری مغربی دنیا کو ببانگ دہل لتاڑ کے رکھ دیا کہ جس منی لانڈرنگ پہ تم نے ہمارے سر پہ فیٹف کی تلوار لٹکا رکھی ہے، وہ تمہارے ہی بینکوں اور آف شور کمپنیوں میں جاتی ہے۔یہ کیسا ظلم ہے جو تم ہم غریب ملکوں پہ کرتے ہو۔ مسئلہ کشمیر کا کیا حل نکلے گا، یہ وقت بتائے گا یا اعصاب، دنیا نے لیکن دیکھ لیا ہے کہ پاکستان کی زما م کار اس بار کسی معمولی شخص کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ یہ ان افراد میں سے ایک ہے جو اقوام کے لئے قدرت کے مواقع میں سے ہوا کرتے ہیں۔