صدر عارف علوی نے کہا کہ کورونا سے متعلق وزیراعظم کے فیصلے بہتر ثابت ہوئے کورونا لاک ڈائون کے دوران متوازن حکمت عملی کا پاکستانی عوام کو فائدہ ہوا ہے یہ حقیقت ہے کہ کورونا لاک ڈائون کے معاملے پر وزیراعظم عمران خان کا موقف نرمی کے حق میں رہا جس کا عام آدمی کو فائدہ ہوا ہے۔ ابھی ضرورت اس بات کی ہے کہ جزوی طور پر دکانیں اور پبلک ٹرانسپورٹ کو بھی کھلنا چاہیے تاکہ تعمیراتی شعبے کے مستری مزدور کام پر جا سکیں۔ اسی طرح کپڑے کی دکانیں ہی نہیں کھلیں گی تو درزی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے۔امید ہے کہ وزیراعظم اس بارے دلیرانہ قدم اُٹھائیں گے یہ بات خوش آئند ہے کہ عالمی سطح پر عمران خان کے وژن کو تسلیم کیا جا رہا ہے ۔ اس سلسلے میں ورلڈ اکنامک فورم نے ماحولیات کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کے 10بلین ٹری منصوبے کی بغاوت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے اپنی مہم کا حصہ بنایا ہے۔ تین عمران خان ہیں ایک کرکٹر ، ایک سماجی رہنما اور ایک سیاستدان ، کرکٹ اور سماجی خدمات کے میدان میں عمران خان نے اپنے آپ کو منوایا ہے اور ایک تاریخ مرتب کی ہے جس کا تذکرہ مقصود ہے بحیثیت سیاستدان کا عمل جاری ہے وقت نے فیصلہ کرنا ہے کہ کس قدر کامیاب ہو تے ہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کو برسر اقتدار آئے دوسرا سال ہے ابھی تک ریلیف کسی کو نہیں ملا ۔ موجودہ دور میں روحانی عمل کو فروغ حاصل ہوا ہے کہا جاتا ہے کہ موجودہ حکومت میں ع کے حرف کو بہت عمل دخل ہے ۔ عمران خان کے آبائی علاقے کا نام عیسیٰ خیل ع سے ہے ۔ سربراہ مملکت کے نام میں دو ع آتے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے نام میں بھی ع موجود ہے۔ اب پنجاب میں ایک اور عین علیم خان کا بھی اضافہ ہوا ہے ۔ ع کا حرف اگر طاقت کی علامت ہے تو دعا کرنی چاہیے کہ دو طاقتیں آپس میں ٹکرا نہ جائیں۔ کرکٹ کی تاریخ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کرکٹ کے عظیم کھلاڑی عمران خان 25نومبر 1952ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ معروف ماہر تعلیم سابق ٹیسٹ کرکٹر ڈاکٹر جہانگیر خان کے بھانجے اور سابق دو کپتانوں ماجد جہانگیر خان اور جاوید برکی کے عم زاد ہیں۔ دائیں ہاتھ سے فاسٹ بولنگ کراتے اور مڈل آرڈر بیٹسمین تھے۔ انہوں نے فرسٹ کلاس کرکٹ کا آغاز 1969ء 1970ء میں کیا۔ لاہور، دائود انڈسٹریز اور پی آئی کے لیے کھیلے۔ انگلینڈ میں انگلش کائونٹی کھیلتے رہے۔ انہوں نے اپنے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز1971ء میں انگلینڈ کے خلاف برمنگھم میں پہلا ٹیسٹ کھیل کر کیا۔82ٹیسٹ میچ کھیلے۔ 118اننگز میں 22مرتبہ ناٹ آئوٹ رہے۔ 136رن سب سے زیادہ سکور ہے۔ چھ سنچریاں اور پندرہ نصف سنچریاں بنائیں۔ چھ مرتبہ صفر پر آئوٹ ہوئے۔ 1977ء میں آسٹریلیا کے کیری پیکر کرکٹ سیریز میں ورلڈ الیون میں شامل ہو گئے جس سے ون ڈے میچوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس پر پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ نے ان پر پاکستان کی طرف سے کھیلنے پر پابندی عائد کر دی جو 1978ء کے آخر تک برقرار رہی۔ اس پابندی کے ہٹنے کے بعد جب دنیائے کرکٹ میں ون ڈے میچوں کا سلسلہ شروع ہوا تو یہ گویا خان کی شاندار کپتانی کا زمانہ رہا۔ کپتان کی حیثیت سے عمران خان کی کارکردگی تمام کپتانوں سے زیادہ نمایاں اور بہتر رہی۔ 1986ء ۔1987ء میں آپ کی ٹیم نے بھارت کی سرزمین پر بھارت کو اور انگلستان کی سرزمین پر انگلستان کو ہرایا اور ایسا پہلی مرتبہ ہوا تھا۔ اسی جیت کی بنیاد پر آپ نے ورلڈ کپ جیتنے کا خواب دیکھا۔ 1987ء میں یہ موقع آیا۔ لیگ میچوں میں کامیابی حاصل ہوتی رہی ، حتیٰ کہ لاہور میں سیمی فائنل تک پہنچ گئے لیکن ورلڈ کپ آسٹریلیا نے کلکتہ کے میدان میں انگلستان کو ہرا کر حاصل کیا۔ قومی ٹیم ان کی قیادت ورلڈ کپ 1991ء کے میدان میں اتری اور پاکستان کو پہلی بار ورلڈ کپ دلوانے میں بطور کپتان بہترین اور یادگار کردار ادا کیااور پوری دنیا میں عمران خان کا نام بن گیا۔ اس کے بعد شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کی تعمیر اور ترقی کے کام میں منہمک ہو گئے جو انہوں نے اپنی والدہ شوکت خانم مرحومہ کی یادگار کے طور پر لاہور میں قائم کیا ہے۔یہ ہسپتال پاکستان کے لیے ایک نعمت ثابت ہوا اب تک اس ہسپتال سے لاکھوں لوگ استفادہ کر چکے ہیں۔ یہ ہسپتال عمران خان نے اندرون و بیرون ملک مخیر حضرات کی فنڈنگ سے قائم کیا۔ اسی بنا پر عمران خان نے بجا طور پر کہا کہ مجھے فنڈنگ کا بہت تجربہ ہے اور ہم فنڈنگ سے کورونا لاک ڈائون سے متاثر ہونے والے دیہاڑی دار طبقے کی مدد کرینگے ۔ سپورٹس اور سوشل سیکٹر کے بعد عمران خان کا تیسرا فیز پالیٹکس کا شروع ہوتا ہے ۔ 1996ء میں تحریک انصاف قائم کی اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں جماعتوں کو بدعنوان قرار دے کر فروری 1997ء کے عام انتخابات میں قومی بنیادوں پر اپنی جماعت کے امیدوار کھڑے کیے لیکن بالکل نئی جماعت ہونے کے باعث کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔البتہ وہ ہر الیکشن میں حصہ لیتے رہے اور 2018ء کے الیکشن میں ان کو کامیابی ہوئی اور اقتدار ملا ۔ایک کرکٹر وزیراعظم بنا عمران خان کو نام کی ضرورت نہ تھی کہ انھیں پوری دنیا میں کرکٹر کی حیثیت سے جانا جاتا تھا۔ اب ان کا امتحان شروع ہے کہا جاتا ہے ان کو اچھی ٹیم نہیں ملی ابتدا ہی میں غلط فیصلوں سے ملکی معیشت کو بہت نقصان ہوا۔ اوپر سے کورونا کا عذاب آ گیا ہے ۔ درمیان میں صرف ایک سال رہ گیا ہے کہ چوتھے سال سیاستدان پھر سے الیکشن کی تیاریوں میں لگ جاتے ہیں اور اپنے اپنے حلقوں میں رابطے بڑھا دیتے ہیںجب لوگ اپنے اپنے حلقوں میں جاتے ہیں تو ووٹرز پوچھتے ہیں کہ آپ نے اپنے علاقے کے ساتھ ملک و قوم کے لیے کیا کیا؟ عمران خان کے حامی ان کو قول کا پکا قرار دیتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ بہت ضدی ہیں جو بات اپنی زبان سے نکال دیں اسے پورا کر کے بھی دکھاتے ہیں۔ اسی لحاظ سے انہوں نے جنوبی پنجاب صوبے کا وعدہ کر رکھا ہے اور وہ ہمیشہ وسیب کی محرومی اور صوبے کی بات کرتے رہے ہیں اور جب جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کو تحریک انصاف میں ضم کیا گیا تو عمران خان نے تحریری معاہدے پر دستخط کیے ۔ عمران خان کے مخالف ان کو یو ٹرن خان کا نام دیتے ہیں بلکہ یہ غلطی خود عمران خان سے بھی ہوئی کہ وہ ایک مرتبہ کہہ بیٹھے کہ وہ سیاستدان ہی نہیں جو یوٹرن نہ لے۔ بہرحال ہماری دعائیں عمران خان کے ساتھ ہیں کہ وہ کامیاب ہوں کہ اُن کی ناکامی صورت میں پاکستانی نوجوانوں کے پاس اور کوئی آپشن نہیں۔ دیکھتے ہیں کہ وہ صوبے کا وعدہ کب پورا کرتے ہیں ۔