پاکستان میں ووٹروں کی اکثریت نے زمام اقتدار تحریک انصاف کے قائد عمران خان کے سپرد کر دی ہے۔ خان صاحب کے ساتھ میری بالمشافہ ملاقات صرف ایک باردو منٹ سے بھی کم وقفہ کی رہی ہوگی، مگر اس کے اثرات میرے جسم پر کئی سال تک نمایا ں رہے۔ واقعہ یوں ہے کہ ایک کزن کی شادی میں شرکت کی غرض سے فروری 2001 ء میں پاکستان کے دورے کے دوران بزرگ صحافی مجید نظامی کی نیاز حاصل کرنے کیلئے میں ان کے دفتر نوائے وقت بلڈنگ پہنچا۔ پاکستان میں یہ میرا آخری دن تھا اور اگلے روز صبح سویرے بذریعہ بس دہلی واپس روانگی تھی۔ نظامی صاحب سے رخصت لیکر انکے دفتر کے کوریڈور میں ان کے ملازم منیر سے ہم کلام تھا ، کہ سیڑھیوں سے عمران خان کو چند ساتھیوں کے ہمراہ چڑھتے ہوئے دیکھا ۔ وہ نوائے وقت فورم میں شرکت کرنے کیلئے آرہے تھے۔ منیر نے ان کا استقبال کرتے ہوئے، میرا تعارف کرایا ۔ انہوں نے بھی روایتی سیاستدانوں کی بجائے گرم جوشی کا مظاہرہ کیا اور حال چال پوچھ کر آگے روانہ ہوگئے۔ بس ایک مایہ ناز سابق کرکٹر اور نو آموز سیاستدان سے ہاتھ ملانے کے علاوہ اس ملاقات میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا کہ ذہن میں جمی رہتی۔ ایک سال بعد جون 2002ء میں مجھے دہلی میں گرفتار کیا گیا۔ نو روز تک دہلی پولیس کی اسپیشل سیل کے انٹروگیشن روم میں پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار دیگر امور کے علاوہ میرے دور ہ کے بارے میں جرح کرتے رہے۔ عمران خان کے ساتھ ملاقات کچھ ایسی یادگار نہیں تھی کہ اسکا ذکر کیا جاتا اور یہ میرے ذہن سے بھی محو ہوچکی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ انٹروگیشن کے آٹھویں روز ایک اہلکار نے جرح کی کہ میں ایک ملاقات ان کے ساتھ شیئر نہیں کر رہا ہوں۔ میں نے لاعلمی کا اظہار کیا تو اگلے روز اس نے کہا کہ آپ عمران خان سے بھی تو ملے تھے۔ یہ ملاقات اس اہلکار تک کیسے پہنچی ، یہ حیرت کا مقام توتھا ہی، مگر اس کا خمیازہ پھر مجھے تہاڑ جیل میں بھگتنا پڑا۔ جیل میں عدالتی حراست کے دوران خاص طور پر ہندی کے اخبارات میرے متعلق انٹیلی جنس ایجنسیوں اور پولیس ذرائع کے حوالو ں سے نمک مرچ لگا کر خبریں شائع کر رہے تھے کہ میں بین الاقوامی دہشت گردوں سے رابطے میں تھا اور مہنگی گاڑیوں میں مجھ سے لوگ ملنے آتے تھے وغیرہ۔ اسی دوران ہندوستان ٹائمز کے ہندی ایڈیشن ’’ہندوستان‘‘ نے ایک روز ذرائع کے حوالے سے میر ی اور عمران خان کی ملاقات کو صفحہ اول پر نمایاں شائع کیا۔ رپورٹر کے تخیل کی اڑان اس قدر تھی، کہ اس نے اس ملاقات کو کشمیر کی آزادی کا ایک طرح سے سنگ میل قرار دیا تھا۔ اس میں اتنی نمک مرچ شامل تھی کہ یقین نہیں ہورہا تھا کہ جس شخص کے بار ے میں یہ خبر ہے وہ میں ہی ہوں۔ تہاڑ جیل میں ہر روز نو بجے وارڈوں میں اخبارات تقسیم ہوتے ہیں۔ جس دن یہ خبر چھپی اس سے قبل کا اخبار ہمارے وارڈ میں پہنچا ، مجھے جیل کنٹرول روم میں طلب کرکے تعدیب خانہ میں الٹا لٹکا یا گیا۔ سپاہیوں، سزا یافتہ اور پرانے زیر سماعت قیدیوں کی فوج نے لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے خوب تواضع کی۔ عمران خان نے کپل دیو کی گیندوں پر جب جب چھکے اور چوکے لگائے تھے یا جب سنیل گواسکر کو آئوٹ کیا تھا، اسکی یاد دہانی کرواکے ڈنڈے برس رہے تھے۔ میں نظامی صاحب کے ملازم منیر کو دل ہی میں صلواتیں سنا رہا تھا کہ کس گھڑی اس نے مجھے عمران خان سے متعارف کروایا تھا۔ الٹا لٹکا کر پیٹنے کا یہ سلسلہ کئی روز تک جاری رہا ۔دوپہر کو کئی بار اسٹریچر پر مجھے واپس وارڈ میں بھیجا جاتاتھا۔ مارنے والے بھی لگتا تھا کہ پیدائشی کرکٹ کے ریکارڈ کیپر تھے، عمران خان کا ایک ایک ریکارڈ ان کو ازبر تھا ، جس کا پورا بدلہ وہ مجھ سے لے رہے تھے ۔ دوسر ی بار غالباً2007میں عمران خان کا فون میرے نمبر پر آیا وہ بنگلور آئے ہوئے تھے۔ ان ہی دنوں کشمیری راہنما سید علی گیلانی کے گردوں میں دوسری مرتبہ کینسر کی تشخیص ہوئی تھی اور وہ ممبئی کے ایک اسپتال میں زیر علاج تھے۔ خا ن صاحب پاکستان میں اپنے شوکت خانم میموریل اسپتال میں ان کا علاج کروانا چاہتے تھے۔ میں نے ان کا پیغام تو پہنچا دیا ، مگر شاید سفر ی دستاویزات یا گیلانی صاحب کی بگڑتی صحت آڑے آئی۔ خیر اب اقتدار کا تاج عمران خان کے سر پر رکھ دیا گیا ہے اور بقول کالم نویس ارشاد محمود ان کا اصل امتحان اب شروع ہونیوالا ہے۔ پاکستان میں بھارت کے ایک سابق سفیر اور انڈین کونسل آف ورلڈ آفیرز کے ڈائریکٹر جنرل ٹی سی ایچ راگھون کا کہنا ہے کہ شاید عمران خان کی صورت میں پاکستان میں پہلی بار کوئی ایسی جمہوری حکومت قائم ہوگی جس کے اپنی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بہتر ہونگے۔ نواز شریف کی پہلی مدت کو چھوڑ کر ، پاکستان کی جمہوری حکومتیں ہمیشہ ہی اپنے ہی اداروں کے ساتھ برسرپیکار رہی ہیںاور اس کا اثر خارجہ امور پر بھی پڑتاہے۔متزلزل حکومت کے ساتھ کوئی بھی ڈیل کرنا پسند نہیں کرتا ہے۔بھارت کی آئین ساز اسمبلی میں دستور کا مسودہ پیش کرتے ہوئے معروف دلت لیڈر اور آئین کے خالق ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر نے کہا تھا کہ دنیا کا کوئی بھی دستور کامل نہیں ہوسکتا ہے۔ اس کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار ، سیاسی جماعتوں، ان کے لیڈروں، اسکو نافذ کرنے والے اداروں اور عوام کی سوجھ بوجھ پر منحصر ہوتا ہے۔ بھارت کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہاں جمہوری اداروں کی جڑیں خاصی مستحکم اور گہری ہیں۔ اسکا کریڈٹ دستور کی دفعات سے زیادہ اداروں کے تحمل اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی صلاحیت میں مضمر ہے۔ گو کہ دیگر ملکوں کی طرح بھارت میں بھی صرف صدر مملکت اور گورنرز کو ہی استثنیٰ حاصل ہے، مگر ایک غیر تحریر شدہ کوڈ کے تحت ایک ایسا مزاج بن چکا ہے کہ وزیر اعظم یا اسکے دفتر، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، فوجی سربراہ اور لوک سبھا اسپیکرجیسی شخصیات یا اداروں کو احتساب یا کسی اور ایشو کے نام پر عدالتوں یا میڈیا میں گھسیٹنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ بھارت کی کوئی بھی عدالت وزیر اعظم کے خلاف کوئی بھی ریفرنس یا پٹیشن سماعت کیلئے تب تک منظور نہیں کرتی ہے جب تک وہ عہدہ پر فائز ہے۔ انتخابی بے ضابطگیوں کو لیکر 1975ئمیں الٰہ آباد ہائی کورٹ نے اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو نااہل قرار دیا تھا۔ جس کے جواب میں مسز گاندھی نے ایمرجنسی نافذ کرکے عدالتوں کے اختیارات ہی چھین لئے۔ ایک اور وزیر اعظم نرسمہا رائو کے خلاف بد عنوانیوں کی سماعت شروع کرنے کیلئے عدالت نے ان کی مدت کار کے ختم ہونے کا انتظار کیا۔بدلے میں ایگزیکٹو بھی عدالت کے احکامات کو حرف آخر تسلیم کرکے اس کے احترام پر آنچ نہیں آنے دیتا ہے۔ جولائی 2000ء میں جب اسوقت کے وزیر قانون رام جیٹھ ملانی نے کسی ایشو پر چیف جسٹس کے ساتھ اپنے اختلاف کو عوامی فورم میں ظاہر کیا توچند گھنٹوںکے اندر ہی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے ان سے استعفیٰ طلب کیا۔ جیٹھ ملانی خود ایک جید قانون دان ہیں اور انکا موقف حق پر مبنی تھا۔ (جاری ہے) کچھ اسی طرح کی صورت حال یہاں دیگر اداروں پر بھی لاگو ہوتی ہے ۔ ایک سفارتی ضیافت کے موقع پر میں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس (جو اب سابق ہیں) سے پوچھا تھا کہ آخر عدالتیں وزیر اعظم کا احتساب کرنے سے کیوں گھبراتی ہیں؟ تو ان کا جواب تھا کہ استحکام کو احتساب کی خاطر قربان نہیں کیا جاسکتا۔یہ شاید ایک اور انتہا ہے۔ مگر پاکستانی سیاستدانوں ، میڈیا اور دیگر اداروں کے ذمہ داران سے عرض ہے کہ دونوں میں توازن رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر وزیر اعظم ہی حالت تذبذب میں ہو تو وہ انتظامیہ کی سربراہی کیسے کرے گا؟ حکومتیں زور زبردستی اور اتھارٹی سے زیادہ اقبال سے چلتی ہیں اور اگر اقبال ہی ماندپڑجائے تو ملک کا خدا ہی حافظ۔ موجودہ دور میں جمہوریت ایک واحد طرز حکومت ہے جس میں خرابی بسیارکے باوجود، حکمران طبقہ پانچ سال بعد عوام کے احتسابی عمل سے گزرتا ہے۔ مجھے یاد ہے، نومبر 1996ء میں پاکستان میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کی معزولی کی خبر جب بی بی سی سے نشر ہو رہی تھی، میں کچھ ساتھیوں کے ہمراہ سید علی گیلانی کے ساتھ بیٹھا تھا۔ ان کا پہلا ردعمل یہ تھاکہ کرپشن اور دیگر الزامات کے باوجود ایک منتخب حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقع ملنا چاہیے تھا۔ جمہوریت کے ثمرات انقلابی نہیں بلکہ ارتقائی ہوتے ہیں۔ اس میں بہتری لانے کی بہت زیادہ گنجائش ہے۔ جمہوریت کا واحد مقصدعام آدمی کو با اختیار بنانا اور اقتدارکی دیوی کو اس کی چوکھٹ تک لانا ہوتا ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو سسٹم کا حصہ سمجھے اور حکمرانوں کو اپنے وکیل یا اپنی ذات کا قائم مقام تسلیم کرے۔ پاکستان کے انتخابات میں کم و بیش شاید صرف 55فیصدووٹروں نے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ ابتدائی جائزہ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کو 32.22فیصد ووٹ ملے ہیں۔اس کے مطابق ان کے خلاف 68.88فیصد ووٹ پڑے ہیں۔ برطانوی طرز کے فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ ووٹنگ میں یہ ایک بڑی خامی ہے۔ 2014ء میں بھارت کے عام انتخابات میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی نے صرف 31 فیصد ووٹ لے کر لوک سبھا کی 543 میں سے 282 یعنی 52 فیصد نشستیں حاصل کر لیں۔کانگریس کو 19.3فیصد ووٹ حاصل کرنے کے باوجود صرف 44 نشستوں پر اکتفا کرنا پڑا۔ جنوبی بھارت کی آل انڈیا انا ڈی ایم کے پارٹی نے صرف 1.60 فیصد ووٹ حاصل کرکے 37 سیٹیں جیت لیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ دلت راہنما مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی نے تو اس سے کہیں زیادہ 4.1 فیصد ووٹ حاصل کئے مگر اس کو کوئی سیٹ نہیں مل سکی۔ موجودہ لوک سبھا میں اس کا کوئی نمائندہ موجود نہیں جبکہ ووٹوں کے تناسب کے حساب سے اس کو 21 سیٹیں ملنی چاہیے تھیں۔ بائیں بازو نے 2.08 فیصد ووٹ لے کر نو نشستیں حاصل کیں۔ آخر ان اعداد و شمار کی بنیاد پر کیسے یہ نتیجہ اخذکیا جائے کہ بھارت اور پاکستان میں ایک نمائندہ حکومت بر سر اقتدار ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جب حکومت سازی کے لئے 51 فیصد منتخب اراکین کی حمایت درکار ہوتی ہے، تو ہر منتخب رکن کے لئے بھی 51 فیصد ووٹ حاصل کرنا لازمی ہونا چاہیے۔ بہر حال بھارت میں عمران خان اور انکی پارٹی کا موازنہ عام آدمی پارٹی (آپ ) سے کیا جاتا ہے۔ تین سال قبل جس طرح اسنے دہلی صوبائی انتخابات میں کامیابی کے جھنڈے گاڑھے، لگتا تھا کہ آزادی کے بعد فرسودہ اور ناقص انتخابی نظام کے نتیجے میں جمہوری لبادہ میں ملبوس ا ْمرا ء کا جو طبقہ وجودمیں آیا ہے، اس کو چیلنج کرنے اور اس سے آزادی حاصل کرنے کیلئے ایک نئی صبح کا آغاز ہوگیا ہے۔ مگر جلد ہی اس نے مایوس کیا۔ پچھلے سال ’’آپ‘‘ کی نیشنل کونسل کی میٹنگ میں دھینگا مشتی، ہاتھا پائی، مارپیٹ دیکھنے میں آئی اور پارٹی کے سینئراراکین کی بے عزتی کرکے ان کو باہر کا راستہ دکھایا گیا ، اس سے عوام سکتے میں آگئے۔یہ بات توطے تھی، کہ ’’آپ‘‘ کو ملک میں ایک سخت چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جمہوری لبادہ میں جو نظام وجود میں آیا ہے، اس کے درپردہ افراد نے جس طرح ملک کو لوٹا کھسوٹا ہے، آخر وہ کس طرح ’’آپ‘‘ کے نظریہ کو قبول کرسکتے تھے۔وی وی آئی پی کلچر اور خاندانی راج جنوبی ایشیاء میں سیاست کی علامت بن چکے ہیں۔ ماضی کے اس طرح کے تجربات بھی بتاتے ہیں کہ جب بھی اس سسٹم کو چیلنج کرنے کیلئے کوئی کمر کس کے میدان میں آجاتا ہے، تواس کی راہ میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں، اگر وہ کامیاب بھی ہوجاتا ہے، تو سسٹم اس کے اردگرد ایسا جال بنتا ہے، کہ کچھ عرصے میں ہی اس کو کرپٹ، یعنی شریک کار بنالیتاہے۔ اس انقلابی فکر کے فرد کو اقتدار کی ایسی چاٹ لگائی جاتی ہے کہ وہ اسی سسٹم کا حصہ بن کر انہی کرپٹ اور امراء کے قبیل کا فرد بن کر اپنا مقصد بھول جاتا ہے۔چند سال قبل روسی خفیہ ایجنسی کے جی بی کے ایک سابق افسر نے انکشاف کیاکہ ان کی ایجنسی نے دماغ کو کنٹرول کرنے کی ایک ایسی تکنیک تیار کی ہے، جس سے سیاسی لیڈروں کے دماغوں کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ جنرل بورس رتنکوف نے ایک روسی اخبار روزیسکانیا گیزٹ کو بتایا کہ 80ء کی دہائی میں سابق سوویت یونین کے زمانے میں 50تحقیقی اداروں میں انسانی دماغ کو کنٹرول کرنے کی تکنیکوں پر ریسرچ کی جارہی تھی۔ ا ن کا کہنا تھا کہ دماغ کو کنٹرول کرنا اب سائنسی فکشن کے مصنفوں کے تخیل کی پرواز نہیں، بلکہ ایک سائنسی حقیقت ہے۔قارئین کو یاد ہوگا کہ جب امریکی صدر بارک اوباما برسر اقتدار آگئے، تو فلسطین کے حتمی حل کے حوالے سے ان سے کافی امیدیں وابستہ تھیں۔مجھے یاد ہے، کہ بھارتی صحافیوں کے ایک وفد کے ہمراہ 2010ء کے اوائل میں اسرائیل اور فلسطینی علاقوں کے دورہ کے دوران میں نے دیکھا کہ مغربی ایشیا کے اخبارات مسئلہ فلسطین کے حل کے سلسلے میں خاصے پر امید تھے اور روز اس سلسلے میں خبروں اور تجزیوں سے اخبارات کے صفحات بھرے ہوتے تھے۔دورہ کے آخری دن، میں نے تل ابیب میں اسرائیل کی ملٹری انٹیلی جنس کی خاتون نائب سربراہ سے جب اس سلسلے میں استفسار کیا، تو اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ دنیا جلد ہی اوباما سے مایوس ہوجائے گی۔’’اوباما جلد ہی سیاست کے ر ازوں اور اس کی پیچیدگیوں سے آشنا ہو جائیں گے۔ انتظار کیجئے۔ اوباما امریکہ کی روایتی سیاست سے ہٹ کر کچھ نہیں کر پائیں گے۔‘‘ جو لوگ سمجھ رہے تھے، کہ بھارتی سیاست میں ایک انقلاب آئے گا اور ایک متبادل سیاسی نظام کی راہ ہموار ہوگی، دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجری وال کے تیور سے وہ ششدر اور مایوس ہیں۔ اب کسی اور مسیحا کا انتظار کرنے پر مجبور ہیں ۔شاید عمران خان ’’آپ‘‘ کی ناکامیوں سے سبق حاصل کرکے جمہوری نظام کو احتساب کے ساتھ ساتھ استحکام بخشنے میں معاون ثابت ہوکر پورے جنوبی ایشیاء کیلئے مثال قائم کریں گے۔ امید ہے کہ وہ واقعی ارض خدا کے کعبے سے بت اٹھواکر حکمران کی ساحری کا توڑ کرنے میں کامیاب ہونگے ۔