یہ 1996ء تھا جدید سنگا پور کے معمار لی کوان پیو تین دہائیوں تک وزیر اعظم رہنے کے بعد محض سینئر وزیر کے طور پر کابینہ میں شامل تھے گوہ چوک ٹانگ وزیر اعظم تھے۔ لی کا بیٹا ڈپٹی وزیر اعظم تھا۔ لی اور ان کے فرزند ڈپٹی وزیر اعظم پر الزام لگا کہ انہوں نے جائیداد خریدی اور اپنی پوزیشن کا غلط استعمال کرتے ہوئے رعایت (ڈسکائونٹ) حاصل کیا۔ لی کا ردّ عمل اس الزام پر کیا تھا؟ لی نے نہیں کہا کہ میں نے سنگا پور کو سنگا پور بنایا اس لئے میں تفتیش سے ماورا ہوں۔ اس کے کسی حمایتی‘ کسی وزیر‘ کسی ممبر پارلیمنٹ نے اس کے حق میں کوئی دھواں دار تقریر کی نہ الزام لگانے والوں پر جوابی الزام لگائے۔ باپ بیٹے نے اپنے آپ کو پارلیمنٹ کے حوالے کر دیا۔ پارلیمنٹ نے تین دن تک‘جی ہاں!مسلسل تین دن تک‘ بحث کی۔ سارے مسئلے کا تجزیہ کیا۔ وزیر اعظم نے الگ تحقیق کی۔ پھر وزیر اعظم نے بیان دیا کہ پوری تفتیش کے بعد یہ ثابت ہوا ہے کہ کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ اس کے باوجود لی نے ڈسکائونٹ کی رقم حکومت کے خزانے میں جمع کرانا چاہی۔ وزیر اعظم نے یہ پیش کش قبول نہ کی۔ یہ رقم لی اور اس کے بیٹے نے خیراتی ادارے کو دے دی۔ اس موقع پر لی نے جو تقریر کی اس میں بہت سے سبق پوشیدہ ہیں۔ دو آپریشن کرانے کے باعث لی نقاہت کے مارے بولنے میں دقت محسوس کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا ’’مجھے فخر ہے اور اطمینان کہ میری اور میرے بیٹے کی خریداری کے مسئلے کو تفتیش سے مستثنیٰ نہیں قرار دیا گیا۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ سنگا پور ایک ایسا ملک ہے اور ایسا ہی رہنا چاہیے جہاں کوئی بھی احتساب سے بالاتر نہ ہو۔ کسی وزیر پر‘ خواہ وہ جتنا بھی سینئر کیوں نہ ہو‘ کوئی الزام لگے، اس کی دیانت داری پر کوئی سایہ پڑے۔ اس کی تفتیش لازماً ہوگی!‘‘ یہ ہے وہ ماڈل جو وزیر اعظم عمران خان کے لئے قابل تقلید ہونا چاہیے تھا مگر افسوس ایسا نہیں ہو رہا۔ مہمند ڈیم کا تنازعہ اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ ڈاکٹر فرخ سلیم کہتے ہیںکہ وزیر اعظم چین گئے تو صرف اس ایک چینی کمپنی کے لوگوں سے ملاقات کی جس نے مہمند ڈیم کا ٹھیکہ حاصل کیا ہے۔ ستر فیصد حصص اس منصوبے کے چینی کمپنی کے ہیں اور تیس فیصد پاکستانی کمپنی’’ڈیسکان‘‘ کے ہیں جس کا تعلق مشیر تجارت عبدالرزاق دائود سے ہے۔ حکومت کی طرف سے دو دلائل پیش کئے گئے ہیں۔ اول اس ٹھیکے کے مراحل موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے سے پہلے طے ہو چکے تھے۔ دوم عبدالرزاق دائود ڈیسکان کمپنی سے مستعفی ہو چکے ہیں۔ احتیاط کا تقاضا کیا تھا! کسی اوسط درجے کی ذہانت رکھنے والے شخص سے بھی پوچھ لیجیے‘ یہی کہے گا کہ احتیاط کا تقاضا یہ تھا کہ وزیر کی کمپنی کو اس منصوبے میں شریک ہی نہیں کرنا چاہیے تھا۔ بنیادی اصول یہ ہے کہ کسی معاملے کو متنازعہ نہیں بنانا چاہیے۔ فرض کیجیے کسی ادارے کے سربراہ نے بیرون ملک سکالر شپ کے لئے امیدواروں میں سے ایک کو چننا ہے۔ ان امیدواروں میں وزیر کا بیٹا بھی شامل ہے۔ اتفاق سے وہ میرٹ پر سکالر شپ کا حقدار ہے۔ وزیر کے لئے دو راستے ہیں، ایک یہ کہ بیٹے کو منتخب کرے۔ پھر صفائیاں دیتا پھرے۔ دوسرا یہ کہ بیٹے کو سارے مسئلے سے باہر نکال دے اور اس امیدوار کو منتخب کرے جو اس کا رشتہ دار نہ ہو۔ یہ درست ہے کہ بیٹے کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ اگر وہ وزیر کا فرزند ہے تو اس میں اس کا کیا قصور؟ مگر یہی تو امیر المومنین عمر فاروقؓ نے کیا تھا۔ جب ابو لولو فیروز نے اُس خنجر سے امیرالمومنینؓ پر وار کئے جس کے دونوں طرف تیز دھار پَھل تھے اور درمیان میں دستہ تھا۔ تو امیر المومنین سخت زخمی ہوئے۔ اس جانکاہی کے دوران انہوں نے سینئر صحابہؓ کی ایک کمیٹی بنائی جنہوں نے اپنے میں سے ایک کو خلیفہ چننا تھا۔ اپنے فرزند کو انہوں نے اس کمیٹی میں شریک کیا مگر صراحت کر دی کہ وہ خلیفہ چنے جانے کے حقدار نہ ہوں گے۔ صرف کمیٹی کے ارکان اور زخمی امیر المومنینؓ کے درمیان رابطے کے فرائض سرانجام دیں گے۔ جب ایک شخص نے عرض کیا کہ عبداللہ بن عمرؓ یعنی اپنے بیٹے کے بارے میں کیا خیال ہے؟ فرمایا ’’اللہ تجھے غارت کرے۔ بخدا میں نے اللہ سے اس بات کی خواہش کبھی نہیں کی۔ افسوس ہے تجھ پر! یہ میرے لئے کوئی پسندیدہ بات نہ ہو گی کہ میں اپنے کسی گھر والے کے لئے خلافت چاہوں۔ اگر یہ بھلائی ہے تو ہمیں حاصل ہو چکی۔ اور اگر برائی ہے تو اس کا ہم سے دور ہی رہنا اچھا ہے۔ خاندانِ عمرؓ کا ایک ہی فرد محاسبے اور امتِ محمدیؐ کی مسولیت کے لئے کافی ہے۔ بہرحال میں نے اپنے نفس سے جنگ کی اور اپنی اولاد کو محروم کر دیا۔ اس کے بعد بھی اگر مجھے نجات مل جائے اور میں اس طرح چھوٹ جائوں کہ نہ سزا ملے نہ جزا تو یہ میری خوش قسمتی ہو گی۔‘‘ وزیر اعظم کو چاہیے تھا کہ ڈیسکان کو ٹھیکہ نہ دیتے۔ نئی بڈنگ کراتے اور معاملے کو یوں ہاتھ ڈالتے کہ شیشے کی طرح شفاف ہوتا۔ کسی کو اعتراض کرنے کا موقع ہی نہ ملتا۔ مگر چلیے۔ عمر فاروقؓ بننا مشکل ہے۔ تو کیا وزیر اعظم‘ سنگا پور کے لی بھی نہیں بن سکتے؟ لی نے اپنا اور اپنے بیٹے کا معاملہ پارلیمنٹ کے سپرد کر دیا۔ پارلیمنٹ نے تین دن بحث کی اور لی کو کلین چٹ دے دی۔ وزیر اعظم عمران خان پارلیمنٹ کے ارکان کی کمیٹی بنائیں۔ اس میں اپوزیشن کے ارکان بھی شامل ہوں۔ یہ کمیٹی سارے معاملے کی تفتیش کرے اور اس سوال کا واضح جواب دے کہ کیا ڈیسکان کو ٹھیکہ دینے سے مفادات کا ٹکرائو(Conflid of interest)پیش آ رہا ہے؟ اگر کمیٹی فیصلے دیتی ہے کہ ہاں۔ پیش آ رہا ہے تو ٹھیکہ منسوخ کر دینا چاہیے اور سارا مرحلہ ازسر نو شروع کیا جائے۔ اگر وزیر اعظم عمران خان ایسے معاملات میں حد درجہ احتیاط نہیں کریں گے تو ان کے ساتھ وہی کچھ پیش آئے گا جو دو دن پہلے پیش آیا۔ ایک ایسے شخص نے پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر مہمند ڈیم کے ٹھیکے پر تیر برسائے جس کا اپنا بیٹا پنجاب حکومت کے سرکاری اجلاسوں میں شریک ہوتا تھا۔ جو چھپن کمپنیوں کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتا تھا۔ جب عدالت عظمیٰ نے پوچھا تو اس شخص نے کمال ڈھٹائی سے جواب دیا کہ اس کا بیٹا تو پارٹی کے ورکر کی حیثیت سے اجلاسوں میں شریک ہوتا تھا۔ کچھ حالات ایسے ہوتے ہیں کہ جائز‘ ناجائز ہو جاتا ہے۔ بیٹا سکالرشپ کا حقدار تھا مگر اسے نامزد کرنا پھر بھی جائز نہ تھا۔ ڈیسکان کمپنی عبدالرزاق صاحب کے مشیر بننے سے پہلے بولی دے چکی تھی۔ اس وقت یہ جائز تھا مگر جب وہ مشیر بنے تو یہ کام ناجائز ہو گیا۔ اس راستے پر چلنا ہی نہیں چاہیے جس پر طعن و الزام اور تیردشنام کا خطرہ ہو۔ تقویٰ کا معنی امیر المومنین عمر فاروقؓ نے چل کر سمجھایا تھا کہ خاردار راستے پر کپڑے سمیٹ کر یوں چلنا ہے کہ دامن نہ الجھے۔ حکومت احتیاط سے چلانا۔ ذاتی تقویٰ سے زیادہ مشکل ہے۔ اگر آپ نے گزشتہ حکومتوں سے بہتر اور مختلف نظر آنا ہے تو کپڑے سمیٹ کر احتیاط سے چلیے۔ ورنہ اعلان کر دیجیے کہ دعوے محض سیاسی تھے!!