15اکتوبر کو شائع شدہ کالم میں وزیراعظم عمران خان کی عددی طور پر کمزور حکومت کو مضبوط اور محروم اقتدار پارلیمانی مسلم لیگیوں کو اقتدار میں لاکر ملک و ملت و عوام کا حقیقی خیر خواہ‘ محسن‘ خدمت گار بننے کا فارمولہ دے چکا ہوں۔ مجھ تک اہل دانش کا جو ردعمل آیا ہے اس میں بنیادی سوال یہ ہے کہ قائد نواز شریف کو نظرانداز کرکے بلکہ مائنس کرکے کس طرح قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے اراکین اخلاقی طور پر وزیراعظم عمران خان کی لیگی دشمن حکومت کا حصہ بن سکتے ہیں؟ دوسرا سوال کہ میرے دئیے ہوئے فارمولے کی کامیابی کا امکان کتنا ہے؟ جواب ہے کہ 12اکتوبر99 سے کافی پہلے اس وقت کے وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر مشاہد حسین سید اور سینیٹر پرویز رشید چیئرمین پی ٹی وی کو میں نے اپنے وجدان کی بنیاد پر کھل کر بتا دیا تھا کہ نواز شریف کی حکومت ختم ہو رہی ہے۔ دوسری بار میں نے اکیلے مشاہد حسین سید سے بات چیت ان کے گھر میں اس وقت کی تھی جب وہ کچھ صحافیوں کے ہمراہ چین کے دورے پر جارہے تھے۔ چند ہفتوں بعد ختم ہوتی حکومت کی بات کے گواہ اس وقت موجود ہیں۔ چند ہفتوں بعد پھر سچ مچ نواز حکومت ختم ہوگئی تھی۔ لہٰذا میں نے مائنس نواز شریف‘ اراکین قومی و پنجاب اسمبلی مسلم لیگیوں کو اقتدار میں شامل ہونے کا جو فارمولا دیا ہے انشاء اللہ یہ اسی طرح قابل عمل ہے جس طرح میں نے چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز اشرف کو صدر پاکستان بننے کا فارمولا دیا تھا۔ ایوان صدر سے رفیق تارڑر رخصت ہوئے اور جنرل مشرف صدر پاکستان بن گئے۔اپوزیشن پارٹیوں نے ان کے ساتھ معاہدہ کرکے اس کے اقدامات کی توثیق بھی کر دی۔ دوسری مثال کہ جدہ میں مقید و محبوس شہباز شریف کو میں نے کسی بھی تھنک ٹینک کسی بھی خاکی ویژن کی مدد کے بغیر اکیلے ہی نہ صرف مسلم لیگ کا متبادل قائد لکھا اور بتایا کہ وہ نہ صرف واپس آئے گا بلکہ پھر سے وزیراعلیٰ پنجاب بنے گا۔ میرے اس فارمولے سے فیصلہ ساز جنرل ناراض ہوئے۔ چوہدری ناخوش ہوئے اور مجھے اس کی سزا بھی ملی جبکہ میں نے اپنے وجدان سے ہی شہباز کو واپس لا کر وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کا راستہ تجویز کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جو مجھے وجدان دیا تھا اور اسے سچا ثابت کیا تھا اسی وجدان کی بدولت آج میں محروم اقتدار مسلم لیگیوں کو اقتدار میں شامل ہونے کا راستہ تجویز کر چکا ہوں۔ جہاں تک مائنس نواز شریف لیگیوں کے عمران کے اقتدار میں آنے کا اخلاقی معیار اور معاملہ ہے تو وہی اخلاقی معیار اور معاملہ جو نواز شریف نے دلیری سے جنرل مشرف سے خفیہ طور پر جدہ جانے کا معاہدہ کیا تھا۔ ساری پارٹی اور ساتھیوں کو اندھیرے میں رکھ کر‘ بلکہ کچھ کو پابند سلاسل چھوڑ کر بھی وہ خاموشی سے پورا خاندان جدہ لے گئے تھے۔ اسی اخلاقی نواز شریفی معیار کو اپناتے ہوئے اراکین اسمبلی‘ عمران خان کے اقتدار کے مددگار بن کر شریک اقتدار ہوسکتے ہیں۔ سیاسی اخلاقی معاملے کو فی الحال چھوڑ کر آگے بڑھتا ہوں۔ پروفیسر غنی جاوید جو غلام اسحاق خان اور نواز شریف کے زوال اور جبری محرومی اقتدار کی پیشگی پیشن گوئی کر چکے تھے ماضی میں انہوں نے گزشتہ روز 17اکتوبر کو کہا کہ نومبر دسمبر نواز شریف کے لئے بہت زیادہ مخالفتوں‘ مشکلات اور محرومیوں کا سامان ہوسکتا ہے۔ اس کے بہت سارے ساتھی اس کو چھوڑ کر جائیں گے۔ یاد رہے کہ میں نے جب 13اکتوبر کو مدبر مسلم لیگی نئی پارلیمانی مسلم لیگ بنائیں‘ کالم میں نئے اقتدار لیگ کا فارمولا لکھا تھا تو پروفیسر غنی کو شامل مشورہ نہیں کیا تھا۔ میری نظر میں مولانا فضل الرحمان کا احتجاج اور دھرنے کی دھمکی’’شر‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’خیر‘‘ کا بھی راستہ بنا سکتی ہیں۔ عمران خان کے اردگرد ناکارہ بہت سے اذہان و کردار جو موجود ہیں ان کے چلے جانے کا راستہ اسی احتجاج اور دھرنے کی دھمکیوں سے آسان ہو رہا ہے جو فارمولے سامنے آئے ہیں وہ یہ ہیں -1شہباز شریف اور بلاول بھٹو (زرداری کے ساتھ) احتجاج اور دھرنے کو صرف عمران خان کے مستعفی ہو کر نئی قومی حکومت یا عمران خان کے ساتھی (شاہ محمود قریشی جو بقول پروفیسر غنی ہرگز وزیراعظم بنتے نظرنہیں آرہے ) کی حکومت یا شہباز شریف کی وزارت اعظمیٰ کا تمغہ حاصل کیا جائے۔ بھارت کا جنگی دبائو‘ مولانا کا احتجاج‘ عمران خان کے وزراء معاونین کی ذہنی خستہ حالی اور عدم صلاحیت کے سبب یہ سب ممکن ہو جائے گا۔ -2نواز شریف‘ مریم نواز‘ مولانا فضل الرحمان کا فارمولا ہے کہ اسمبلیاں ختم ہو جائیں۔ احسن اقبال چند ہفتے قبل تنگ آکر مارشل لاء کی بات بھی کہتے رہے ہیں۔ یہ طبقہ دو ٹوک اسمبلیوں کی تحلیل‘ نئے انتخابات میں نواز شریف یا مریم نواز کے اقتدار کے لئے مستقبل قریب کو مناسب حال تصور کرتا ہے جبکہ مارشل لاء بھی ان کی آسانیوں کا نام ہوگا۔ اوپر میں نے سوال لکھا ہے کہ عمران خان تو لیگیوں کا مخالف ہے پھر وہ کیسے لیگی اراکین اسمبلیوں سے اشتراک اقتدار کرے گا؟ جواب ہے چوہدری برادران اور شیخ رشید اپنی اپنی لیگیں رکھتے ہیں۔ عمران خان صرف شریف خاندان کو قبول نہیں کرتا ورنہ وہ اراکین لیگیوں کو اس طرح قبول کرلے گا جیسے چوہدری برادران اور شیخ رشید اس کے قافلہ اقتدار کا حصہ ہیں۔ عمران خان اس وقت ریاست‘ ملک‘ قومی مفادات کا چہرہ ہے اس کی زندگی کی حفاظت بہت زیادہ کریں جو بھی غیر مشروط اس کا مددگار بنے گا وہ پاکستان کی مدد کرے گا۔ پس تحریر: عمران خان کابینہ کے کچھ وزراء خود عمران خان حکومت کے لئے راجہ پورس کے شراب نوش مست ہاتھی ثابت ہو رہے ہیں ان کی موجودگی میں بعض لوگوں کو عمران کا اقتدار سے رخصت ہونا ممکن اگر نظر آتا ہے اور شہباز و بلاول فارمولے‘ نواز شریف ‘ مولانا فارمولے زیر بحث ہیں یا مارشل لاء ممکن دکھائی دیتا ہے۔ عمران خان کشتی کا بوجھ ہلکا کریں۔ راجہ پورس کے بدمست ہاتھیوں سے نجات پائیں۔