نصف صدی بیت گئی۔ اس کے خوابوں کی تعبیر ملنے کا مرحلہ آ گیا جس کے لئے اس نے بڑی محنت کی تھی۔ اس کی تمنا اور آرزوئوں کی تکمیل ہو رہی تھی۔ پھر اس کی خوش قسمتی دیکھیے‘ وہ 50سال سے اخبارات کی شہ سرخیوں کی زینت بنا رہا۔ٹی وی سکرین پر جگمگاتا رہا۔ یہ شاید 3جون 1971ء کا دن تھا۔ ایجسٹن انگلینڈ کا میدان اس کے لئے خوش بختی کا نشان بن کر آیا۔پاکستانی کرکٹ ٹیم کے انگلستان پہنچنے سے پہلے ہی انگلش اخبارات نے اس کا پوسٹ مارٹم کرنا شروع کر دیا تھا لیکن سب سے دلچسپ تبصرہ ٹیلیگراف کے رپورٹر پیٹر شیلنگر کا تھا اس نے لکھا کہ پاکستان کی ٹیم عمران خان کی صورت میں ایک ایسے بولر لے کر آ رہی ہے جن کے خلاف انگلش بیٹسمینوں کیلئے اپنے ریکارڈ بہتر کرنے کا سنہری موقع ہے۔ عمران خان اس وقت آکسفورڈ میں زیر تعلیم تھے۔ وہ ایک میڈیم پیسر کی حیثیت سے ٹیم میں شامل کئے گئے تھے۔ ایجبسٹن کی وکٹ حسب توقع بیٹنگ کے لئے سازگار تھی لیکن آب آلود ہوا میں گیند ہوا میں سوئنگ ہو رہی تھی۔ عمران نے بولنگ شروع کی۔ تو ان کی لائن اور لینتھ آن ٹارگٹ نہیں تھی۔ نہ ان کی رفتار میں بیٹسمین کے لئے کوئی چونکا دینے والی بات تھی عمران کا سفر شروع ہو گیا اس وقت عمران خان مشہور زمانہ بولر جان اسنو سے بہت متاثر تھے انہوں نے عمران کو مشورہ دیا کہ وہ اپنا رن اپ کا اسٹائل اور گیند ڈیلیور کرنے کا ایکشن تبدیل کرے۔ جان اسنو نے انہیں بتایا کہ ان کے اس وقت ایکشن کے سبب گیند کو آن ٹارگٹ ڈیلیور کرنے میں ان کا کنٹرول نہیں رہتا۔ اس میچ میں ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ میچ کے دوران فاروڈ شارٹ لیگ پر بیٹسمین کے انتہائی قریب کھڑے ہونے کے لئے صادق محمد نے کپتان کو مشورہ دیا کہ اس پوزیشن پر عمران کو کھڑا کر دینا چاہیے کیونکہ یہ ایسی پلیسمنٹ ہوتی ہے جہاں فیلڈر کو چوٹ لگنے کا زیادہ احتمال ہوتا ہے۔صادق کا خیال تھا کہ یہ عمران کا پہلا اور شاید آخری میچ ہو اسی لئے انہیں بیسٹمین کے قریب اس پوزیشن پر کھڑا کرنے کا رسک لیا جا سکتا ہے یہ بڑا دلچسپ میچ تھا۔ اس میچ میں ظہیر عباس کی 274رنز کی تاریخی اننگز کی بدولت پاکستان کی ٹیم نے 600سے زیادہ اسکور کا پہاڑ کھڑا کر کے انگلش ٹیم کو فالو آن پر مجبور کر دیا۔ اس اننگز نے نہ صرف ظہیر عباس کو ایشین بریڈ مین بنا دیا بلکہ شاید کرکٹنگ بک کا کوئی بھی ایسا اسٹروک نہیں تھا جو انہوں نے اس اننگز میں نہ کھیلا ہو ،بعد میں عمران کا کیرئر اس وقت تک واجبی انداز سے آگے بڑھتا رہا۔ جب انہوں نے 1977ء میں آسٹریلیا کے خلاف سڈنی کی ہارڈ اینڈ فاسٹ وکٹ پر گڈ لینتھ سے اٹھنے والی اپنی طوفانی گیندوں سے عالمی شہرت یافتہ بیٹسمینوں کی کھونٹیاں اکھاڑ پھینکیں۔6سال پہلے ا یجبسٹن میدان پر اپنے کیریئر کا مایوس کن انداز سے آغاز کرنے والا عمران خان اب دنیا کا سپر اسپیڈ مرچنٹ بن چکا تھا۔ ماہرین کرکٹ اور بڑے بڑے کرکٹرز اس کا تقابل ڈینس للی اور جیف تھامسن سے کر رہے تھے۔ اس کے بعد اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا وہ کرکٹ کی دنیا کا ایک دیو مالائی کردار بن چکا تھا۔ کرکٹ کے شائقین اور مداح اس کے کیریئر کے دوران درجنوں بار مخالف بیٹسمینوں کو اس کے آگے بے بسی کی تصویر بنا دیکھتے رہے۔ پاکستان کو بہت کم سکور پر آئوٹ کرنے والی ٹیم اس خوف میں مبتلا رہتی کہ عمران انہیں اس سے کم سکور پر آئوٹ کر سکتا ہے اور پاکستان کے صف اول کے بیسٹیموں کو آئوٹ کر کے انہیں یہی دھڑکا رہتا کہ ابھی عمران باقی ہے۔ دنیا کے ہر سٹیڈیم میں تالیوں کا شور اور پرتحسین نعروں سے اس کا استقبال کیا جاتا جہاں جہاں پاکستان کی ٹیم قیام کرتی وہاں اس سے آٹو گراف لینے اور ساتھ تصویر بنوانے والے مداح ہوٹل کے لابیوں میں امڈ پڑتے۔ اس کے فین فالوئنگ میں لڑکیاں زیادہ تھیں۔ وہ اتنا پرکشش وجیہہ اور مقبول تھا کہ ملٹی نیشنل کے پروڈکٹ اپنی پبلسٹی کے لئے اس سے ماڈلنگ کے عوض منہ مانگی پیشکش کرتے ۔ حسین دوشیزائیں اس سے شادی کی خواہشمند تھیں۔ مجھے عمران خان کا وہ بولنگ اسپیل آج بھی یاد ہے جب کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں بھارت میں بھارت کے عالمی شہرت یافتہ بیٹسمینوں کی وکٹیں خزاں رسیدہ پتوں کی طرح گری تھیں۔ وشواناتھ جیسے تجربہ کار بیٹسمین کے خلاف اس کی آف اسٹمپ کی طرف رخ بدلنے والی 100میل کی رفتار سے سپر ایکسپریس گیند نے وشواناتھ کی مڈل اسٹمپ اکھاڑ پھینکی جسے وہ لیفٹ کر رہا تھا۔ پھر عمران خان کی زندگی کا ایک دیرینہ خواب اس وقت پورا ہوا جب 1992ء میں پاکستان نے ورلڈ کپ جیتا۔ ورلڈ کپ میں کامیابی کے بعد عمران نے اپنی والدہ کی یاد میں شوکت خانم کینسر ہسپتال کی بنیاد رکھی اور ہسپتال کی تکمیل خود عمران خان کے لئے بھی حیران کن تھی۔ ملک بھر سے جس طرح ہسپتال کے تعمیر کے حوالے سے عطیات کی بارش ہوئی وہ بھی عام لوگوں کی اس سے والہانہ محبت کا اظہار تھا۔زندگی کے ہر شعبہ ہائے سے تعلق رکھنے والوں نوجوانوں یہاں تک کہ سکول کے بچوں نے فنڈ ریزنگ میں حیران کن کردار ادا کیا۔ عمران نے نمل یونیورسٹی کی بنیاد رکھی۔ صحت اور تعلیم کے حوالے سے یہ عمران کے ویژن اور عزم کی علامت بن گئے پھر انہوں نے کرپشن کے خاتمے اور انصاف کی فراہمی کا نعرہ لگا کر سیاست میں قدم رکھا۔ سیاست میں ان کا سفر بھی کرکٹ کی طرح نشیب و فراز سے گزرا۔آج وہ ملک کے وزیر اعظم بن گئے ہیں اور سب سے بڑھ کر ملک کو ریاست مدینہ بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں لیکن اس کی تعبیر پانے کے لئے خلفائے راشدین کی زندگی پر نظر ڈالنی ہو گی ،سادگی اور عاجزی کو اپنانا ہو گا ،صحت تعلیم مہنگائی بے روزگاری اور انفراسٹرکچر مذہبی ہم آہنگی زندگی کے ہر شعبے میں تبدیلی لانی ہو گی۔ ریاست مدینہ کی بنیاد آقائے نامدارﷺ نے رکھی تھی اور سیدنا فاروق اعظمؓؓ نے اسے بام عروج پر پہنچایا تھا اگر ان تعلیمات میں سے 20فیصد پر بھی عمل کرلیا جائے تو آپ لیڈر بن جائیں گے دنیا آپ کا نام بجھنے نہیں دے گی ۔