بالآخرپاکستان کے شہریوں نے اقتدار کا تاج عمران خان کے سر پر رکھ دیا۔ ان کااصل امتحان اب شروع ہوچکا ۔ گزشتہ دس برسوں میں انہوں نے مسلسل عوام کو باورکرایا کہ وہ اس ملک کے مہاتیر محمد بن سکتے ہیں۔پاکستانیوںکو افلاس کی اتھاہ گہرائیوں سے نکال کر انہیں دنیا میں عزت اور شرف کے مقام پر فائز کرسکتے ہیں۔ان کا وکٹری خطاب بھی ایک منجھے ہوئے سیاستدان کا تھا جو ماضی کی تلخیوں کو فراموش کرکے مستقبل کے تانے بانے بننا چاہتاہے۔ وہ قائد اعظم محمد علی جناح کو اپنا آئیڈیل قراردیتے ہیں جن کی دیانت اور امانت کی دشمن بھی گواہی دیتاتھا۔ وہ ایک اجلے کردار کے بے داغ سیاست دان اور حکمران تھے جنہوں نے ایک مایوس اور بکھرے ہوئے ہجوم کو محض قوم نہیں بلکہ اسے ایک مملکت بھی حاصل کرکے دی۔ تحریک انصاف نے جتنے انتخابی ٹکٹ دیئے۔اس روایتی طرز سیاست پر لوگوں کو بہت اعتراض تھا اور ہے ۔ اس کے باوجود عوام نے تحریک انصاف کو شرف قبولیت عطاکیا کیونکہ انہیں عمران خان کی ذات پر بھروسہ تھا۔اب یہ عمران خان کے لیے چیلنج ہے کہ وہ کس طرح بھانت بھانت کی بولی بولنے والے اس کنبے کو اکٹھا رکھ کر کام لیتے ہیں۔ عمران خان کا وکٹری خطاب مجھ سمیت اکثر شہریوں کو پسند آیا۔انہوں نے حقیقی ایشوز پر اور بہت سمجھداری سے باتیں کیں۔ کوئی بھڑک نہیں ماری۔عوام کے جذبات کااستحصال نہیںکیا۔ انتقام لینے یا پھر کسی کو فتح کرنے کے عزم کا اظہار نہیں کیابلکہ ماضی کو فراموش کرنے کا اعلان کیا۔کپتان نے اپنے پہلے خطاب میں واضح طور پر اپنی ترجیحات میں غربت کے خلاف جہاد کو ترجیح اوّل قراردے کر عام لوگوں کو خوشخبری دی۔ معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کی آواز بننا انبیاء کی سنت ہے۔ انفرادی یا اجتماعی سطح پر معاشرے کے مظلوم اور محروم طبقات کی مددکرنے والوں پر قدرت کامیابیوں کے دروازے خودبخود وا کردیتی ہے۔ عمران خان کا دوسرا پیغام خطے میں امن کے قیام کے لیے کام کرنا ہے۔ افغانستان کے بارے میں گفتگو میں عمران خان کے لہجے میں ہمددری اور محبت کا جذبہ نمایاں تھا۔ایسا لگا کہ وہ محض ایک پڑوسی سے تعلقات کی بہتری کی بات نہیں کررہے بلکہ دونوں ممالک میں امریکہ اور کینیڈا جیسے تعلقات کا عندیا دے رہے ہیں جہاں آزادانہ آمد ورفت اور تجارت کی جاتی ہے۔اس کا مطلب ہے کہ عمران خان کی حکومت افغانستان میں طالبان کے ساتھ امریکہ کی طرف سے اعلان کردہ مذاکرات اور انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کے عمل کی نہ صرف تائید کرے گی بلکہ وہ سہولت کار کا کردار ادا کرنے پر رضامند ہوگی۔ اپنی پہلی تقریر میں بھارت اور کشمیر پر انہوں نے سب سے زیادہ وقت صرف کیا۔کشمیریوں کے مصائب اور جدوجہد کا درمندی سے ذکر کیا۔اس مسئلہ کو دونوں ممالک کے اچھے تعلقات کے راستے میں بڑی رکاوٹ قراردیا۔بھارت کو تجارت اور مذاکرات کی فراخ دلانہ پیشکش کی۔یہ دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی کہ کشمیر کے اعتدال پسند لیڈر میر واعظ عمر فاروق نے فوری طور پرسماجی رابطہ کی ویب سائیٹ پر عمران خان کی پیشکش کا خیر مقدم کیااور بھارت کو مشورہ دیا کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھائے۔ پاکستان میںافغانستان ، بھارت اور کشمیر جیسے امور ایسے ہیں جو عمومی طور پر اسٹیبلشمنٹ کا دائرہ کارتصورکیے جاتے ہیں ۔سویلین حکومت کے پرچلتے ہیں ان کے بارے میں کوئی پالیسی وضع کرتے ہوئے۔آج کل چونکہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ دونوں ایک صفحے پر ہیں۔ اس لیے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اہم قومی امور پر ادارتی مشاورت اور آزادی کے ساتھ فیصلے کریں گے۔ غربت پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان خطے کے ممالک کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کرے اورمسئلہ کشمیر کے آبرومندانہ اور قابل قبول حل کے لیے ٹھوس پیش رفت کے لیے پہل قدمی کرے۔ عمران خان کی حکومت کا سب سے بڑا چیلنج مخالف سیاسی جماعتوں کے بیانیے کا مقابلہ کرنا ہے۔وہ الیکشن کو غیر شفاف قراردیتی ہیں ۔ الیکشن کمیشن اور دبے لفظوں میں عسکری حلقوں کو عمران خان کی کامیابی کا ذمہ دارباور کراتی ہیں۔ حز ب اختلاف کی جماعتیں تحریک انصاف کی حکومت کو تنگی کا ناچ نچانے کے لیے لنگوٹ کس چکی ہیں۔ کوئی ایک پارٹی یا لیڈر بھی ایسا نہیں جو حالیہ عام الیکشن کے نتائج سے خوش ہو۔ووٹروں نے سیاست کے بڑے بڑے برج الٹا کرجہاں ایک تاریخ رقم کی وہاں تحریک انصاف کے سارے مخالفین کو ایک نکتے پر جمع کردیا۔آصف علی زرداری اور نوازشریف کی حکومتوں نے سیاسی حکمت عملی کے طور پر مولانا فضل الرحمان ، خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی چھوٹی جماعتوں کو شریک اقتدار کیے رکھا تاکہ اپوزیشن کو متحدہونے کا موقع نہ مل سکے۔یہاں عالم یہ ہے کہ جس حکومت نے ابھی اقتدار بھی نہیں سنبھالا اس کے خلاف کل جماعتی کانفرنسیں اور جلسے شروع ہوچکے ہیں۔ ملک کے اندر جن جماعتوں یا معاشرے کے فعال طبقات کو اسٹیبلشمنٹ کے رویئے سے شکایات ہیں وہ بھی اپنا غصہ عمران خان پر نکالنے کے پر تول رہے ہیں۔چندایک میڈیا ہاؤسز اور شخصیات نے بھی ابھی سے اس کار خیر میں حصہ لینا شروع کردیاہے۔وہ عمران مخالف سیاسی جماعتوں کو شہ دیتے ہیں اور ان کے بیانیے کو استدلال فراہم کرتے ہیں۔ جیل میں محبوس نوازشریف اور مریم نواز بھی نئی حکومت کو ایڑیوں پر کھڑا رکھیں گے۔ نون لیگ کو اگرچہ انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود وہ پنجاب کی بہت بڑی سیاسی قوت ہے۔ صوبائی اسمبلی میں اس کی نشستوں کی تعداد تحریک انصاف سے زیادہ ہے۔ نوازشریف ایک مقبول لیڈر ہیں۔ سویلین بالادستی کے بیانیے پر قائم رہتے ہیں تو ان کی مقبولیت میں بتدریج اضافہ ہوتا جائے گا۔ حالیہ الیکشن نے دیگر جماعتوں کو بھی اسی نقطہ نظر کا علمبردار بنادیاہے۔ عمران خان سے شہریوں کی توقعات بہت ہیں لیکن یہ حقیقت پیش نظر رہے کہ پاکستان حکومت کرنے کے لیے کوئی آسان ملک نہیں۔ آوے کا آوا ہی یہاںبگڑا ہواہے۔کروڑوں بچے سکول نہیں جاتے۔وہ کل مارکیٹ میں ملازمت کی تلاش میں کھڑے ہوں گے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یواین ڈی پی کے مطابق ہر سال پاکستانیوں کو چالیس لاکھ نوکریوں کی ضرورت ہے۔ صحت اور تعلیم کا نظام خستہ حال ہوچکاہے۔استاد اور ڈاکٹر نجی کاروبار میں مصروف ہیں۔ سرکاری ملازم حکومت سے تنخواہ لینے کے لیے بے تاب اور خدمات فراہم کرنے سے گریزاں ہیں۔ امن وامان کی صورت حال اگرچہ گزشتہ برسوں کے مقابلے میں بہت بہتر ہے لیکن ابھی بھی کراچی اور بلوچستان میں حالات پوری طرح کنٹرول میں نہیں ۔ معاشی حالات بھی دگرگوں ہیں۔ روپے کی قدر تاریخ کی نچلی ترین سطح پر ہے۔ بیرونی قرضہ ناقابل برداشت ہوچکا ہے۔ برآمدات کم اور درآمدات بڑھ چکی ہیں۔ شہریوں میں اپنے مستقبل کے حوالے سے زبردست مایوسی پائی جاتی ہے۔ حکومت کو ان بہت سارے چیلنجز کا بہادری اور دانشمندی کے ساتھ مقابلہ کرنا ہوگا۔ابھی تک شہریوں کو امید ہے کہ ان کے د ن بدلیں گے اور حکومت پسے ہوئے طبقات کو غربت سے نکالنے کے لیے کام کرے گی۔ حکومت کے پاس عوامی ہمدردی کی موجودہ لہر پر مسلسل سوار رہنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ وہ کارکردگی دکھائے۔ بڑے فیصلے کرے اور عام آدمی کو ملک میں تبدیلی نظر آئے۔