عمران خان کی حمایت اس وقت جتنی ہے یا اگلے عام انتخابات میں وہ کیا کارکردگی دکھا پائیں گے، اس بحث میں نہیں جاتے کہ ایسے اندازے ہر فریق ہمیشہ اپنی پسند، سوچ اور تمنا کے مطابق لگاتا ہے۔یہ بات مگر حقیقت ہے کہ عمران خان نے عوامی مقبولیت کی ایک بڑی لہر پیدا کی۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ بھٹو صاحب کے بعد عمران خان وہ واحد شخص ہے جس نے اس بڑے لیول پر عوامی مقبولیت حاصل کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھٹو صاحب کی طرح عمران خان نے اپنے لئے شدید مخالفت کی ایک لہر بھی پیدا کی۔ رابرٹ ڈیلک ایک معروف امریکی مصنف ہیں، انہوں نے امریکی صدر لنڈن بی جانسن پر ایک کتاب لکھی، اس میں صدر جانسن کے لئے ایک دلچسپ فقرہ لکھا ،’’ لوگ ان سے شدید محبت کرتے تھے یا شدید نفرت، انہیں پسند کرنے والے بے تہاشا پیار کرتے جبکہ مخالفت کرنے والے گردنی زدنی قرار دیتے۔‘‘ بھٹو صاحب بھی ایسے ہی ایک شخص تھے۔ انہیں چاہنے والے آج بھی ان کا ذکر آنے پر نمناک ہوجاتے ہیں، جبکہ ایسے سخت مخالف اور نقاد بھی ہیں جن کے دل بھٹو کے المناک انجام سے بھی موم نہیں ہوئے۔ یہی معاملہ عمران خان کے ساتھ بھی ہے۔ تین برسوں میں صرف یہ فرق پڑا ہے کہ عمران خان کے حامیوں کا ایک حلقہ دلبرداشتہ ہو کر کنارہ کش ، ایک حصہ مایوسی آمیز سکتے میں اور کچھ ابھی ناخوش مگر امید کا دیا جلائے بیٹھے ہیں۔ خیر بات اس نکتے پر ہو رہی تھی کہ تین سال پہلے میرے جیسے لوگوں نے کن وجوہات کی بنا پر عمران خان کی حمایت کی تھی ؟ نئی آپشن عمران خان کی طرف زیادہ تر لوگ یہ سوچ کر آئے کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو بار بار آزمایا جا چکا ہے، انہوں نے ایک خاص انداز کی روایتی گھسی پٹی سیاست کی ہے، اس میں تبدیلی کاارادہ (باقی صفحہ 5نمبر1) نہیں ۔بلکہ اپنی نئی نسل کو بھی پارٹی پر مسلط کرنے کی پلاننگ ہو رہی ہے۔ ان شہزادوں اور شہزادیوں کوجمہوری اصولوں کے مطابق نچلی سیاست سے تجربہ لینے کے بعد اوپر تک لانے کے بجائے براہ راست قائد کے طور پرتھوپا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف کے اکثر کارکن، ووٹر ماضی میں پیپلزپارٹی یا ن لیگ کے ووٹر رہ چکے تھے۔ پرانی جماعتوں کے رویہ سے فرسٹریٹ ہو کر انہوں نے تحریک انصاف کی آپشن کوٹرائی کیا۔ انہیں لگا کہ شائد کچھ نیا اور بہتر ہوجائے۔ لوگ چاہتے تھے کہ کسی ایسے کو جتوائیں جو ماضی میں لوٹ مار کرنے والوں کا احتساب کر سکے۔ سوشل ریفارمز پچھلے کالم میں اس پر تفصیل سے بات کی گئی۔ عمران خان کی اصل قوت اصلاحات کا ایجنڈا تھا۔ اس نے اپنے حامیوں کو بتایا کہ وہ سسٹم کو بدلنے کی کوشش کرے گا۔ ادارے مضبوط ہوں گے، میڈیا کو آزاد ی ملے گی، تمام آئینی اداروں کو طاقتور بنایا جائے گا۔ انتظامیہ اور پولیس کو سیاسی اثرورسوخ سے پاک رکھا جائے گا۔ٹرانسفر پوسٹنگ میں ارکان اسمبلی کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔ بلدیاتی اداروں کو مضبوط اور طاقتور بنانے کے ساتھ انہیں ترقیاتی فنڈز بھی دئیے جائیں گے۔عمران خان ایک نعرہ بڑے زور شور سے لگاتے تھے، رائٹ پرسن ایٹ رائٹ جاب۔ یعنی ہر اہم عہدے پر بہترین فرد کی تعیناتی تاکہ وہ ڈیلیور کرے اور چیزیں بہتر ہوجائیں۔ اپنی سیاست کی ابتدا ہی سے وہ انگریزی زدہ انتظامیہ کے ناقد رہے، کالا انگریز کی پھبتی کستے تھے۔ اس کایہ مطلب لیا جاتا تھا کہ ان کے اقتدار میں آنے کے بعد سول سروس امتحانات کا طریقہ کار بھی بدل جائے گا اور اگر امتحانات اردو میں نہ ہوں تو کم از کم انٹرویو وغیرہ تو اردو میں ہوں گے۔ انہوں نے ایک بڑی تحریک انتخابی دھاندلی پر برپا کی اور یہ تاثر دیاکہ وہ شفاف انتخابات کو یقینی بنائیں گے۔ تحریک انصاف نے جوایجنڈا متعارف کرایا، اس کے بیشتر نکات ایسے تھے جو بڑی دونوں جماعتیں پیپلزپارٹی اور ن لیگ دکھاوے کے لئے بھی نہیں کہتے تھے۔مثال کے طور پر یہ جھوٹے منہ بھی کرپشن کے خلاف بات نہیں کرتے تھے، احتساب کا نام تک نہ لیتے۔پولیس ، انتظامیہ کو غیر سیاسی بنانے کی تجویز دینے والے کو گھوری ڈال کر چپ کرا دیتے۔ البتہ جماعت اسلامی جیسی پارٹی اس ایجنڈے کی حامل تھی، مگر انتخابی سیاست میںان کے لئے زیادہ گنجائش نہیں رہی ۔ دو پارٹی سسٹم سے نجات ایک زمانے میں ہمارے دانشور اور تجزیہ نگار دو پارٹی سسٹم کے حق میں بات کرتے تھے۔ دو ہزار آٹھ سے اٹھارہ تک کے تجربے نے بتا دیا کہ یہ پاکستان جیسے ممالک میں بہت نقصان دہ ہے۔ ہمارے سیاستدان آپس میں مک مکا اورغیر رسمی ڈیل کر کے باری باری حکومت کرنے کا گر سیکھ چکے ہیں۔ وہ برائے نام (فیک)اپوزیشن کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے حلقہ اثر میں مداخلت نہیں کرتے۔ جیسے مسلم لیگ ن نے سندھ میں اپنی پارٹی تباہ کرا لی، مگر دانستہ وہاں جا کر اسے فعال نہیں کیا کہ پیپلزپارٹی عدم تحفظ کا شکار نہ ہو، یہی کام پیپلزپارٹی نے پنجاب میں کیا۔ تحریک انصاف کی شکل میں تیسری پارٹی ابھری تو یوں لگاکہ اس کی مقبولیت سے بڑی دونوں پارٹیوں کو مسابقت کا سامنا کرنا پڑے گا ۔وہ پرفارمنس پر زیادہ توجہ دیں گی۔ لیول پلینگ فیلڈ کی تشکیل ہمارے ہاں دو ہزار تیرہ تک عملی صورتحال یہ تھی کہ مسلم لیگ ن نے پنجاب میں اپنی غیر معمولی برتری قائم کر لی تھی۔ ن لیگ کا مخصوص طریقہ سیاست ہے ۔انہوں نے دانستہ طور پر انتخابات کو اتنا مہنگا ہوجانے دیا گیا کہ نظریاتی کارکن اور مڈل کلاس ازخود آئوٹ ہوجائے۔ پانچ سات کروڑ انتخابات میں خرچ ہوگا تو اچھا خاصا خوشحال آدمی بھی سوچے گا۔ ن لیگ نے اسے بدلنے کے بجائے طاقتور الیکٹ ایبلز کو اپنے گرد اکٹھا کیا۔ تیس چالیس سالہ سیاسی عرصہ میں اپنے مختلف ادوار کی حکومتوں کے باعث وہ پولیس، انتظامیہ میں اپنے من پسند لوگ بھرتی کرا چکے تھے۔ پولیس، انتظامیہ، میڈیاسمیت ہر جگہ ان کی نہایت طاقتور لابی موجود تھی۔ توہین عدالت کا اندیشہ نہ ہوتو اس فہرست میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔ یونین کونسل سطح پر بھی ایک ایسا سیاسی نیٹ ورک بنایا گیا جنہیں’’ الیکشن ہم ہی جیتیں گے ، ہماری ہر جگہ بات ہوگئی ہے ‘‘ جیسے باقاعدہ، بے قاعدہ اشاروں سے اپنے ساتھ رکھا جاتا۔ یوں سیاسی دنگل ایک یک طرفہ کھیل میں تبدیل ہوچکا تھا، جس میںپنجاب سے صرف ن لیگ ہی نے جیتنا تھا۔سنٹرل اور اپر پنجاب کے پانچ ڈویژنز(لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد، ساہی وال، سرگودھا)کی نشستیں اسی بیاسی کے قریب ہیں، چند پاکٹس جنوبی پنجاب سے اور پنڈی سے ملنے کے بعد پنجاب سے سو کے قریب قومی اسمبلی کی نشستیں پکی ہوجاتیں ، دیگر چھوٹے گروپ، آزاد ارکان اسمبلی وغیرہ ملا کر حکومت سازی کا سدا بہار فارمولا تیار ۔ میرے جیسے نام نہاد تجزیہ کاروں کوبھی اس صورتحال پر غور کرنے سے یہ لگتا تھا کہ ایک بار کسی طرح ن لیگ کو پنجاب سے شکست ہوجائے تاکہ دوسری جماعتوں کے لئے پھر سے جگہ پیدا ہوسکے۔ ممکن ہے دیگر جماعتیں پرفارم کر کے اپنی جڑیں گہری کر لیں اور پھر پنجاب کی سیاست میں لیول پلینگ فیلڈ یعنی کھیلنے کے لئے ایک جیسی جگہ سب کو ملے۔ 2018میں یہ کام صرف تحریک انصاف ہی کر سکتی تھی کہ اس کے علاوہ کوئی اور پارٹی مناسب ووٹ بینک نہیں رکھتی تھی۔ نظریہ کی تبدیلی مسلم لیگ ن ایک زمانے میں نظریاتی جماعت کا تاثر رکھتی تھی، آئی جے آئی اور اس کے بعد کے تین چار برس اس کی سیاست کو رائٹسٹ یا رائٹ آف دی سنٹر کہا جا سکتا تھا۔1997ء کے بعد ن لیگ نے اچانک ہی اینٹی انڈیا روایتی موقف خیرباد کہہ ڈالا۔ پرویز مشرف نے ان کا تختہ الٹا اور وہ کئی سال جلاوطن رہے تو اس تمام عرصے کے دوران میاں نواز شریف کے اندر ایک خاص حوالے سے عسکری اداروں کے لئے معاندانہ جذبات پیدا ہوئے۔ یہ شائد ردعمل کی نفسیا ت تھی۔ دلچسپ بات ہے کہ ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف اس ردعمل کا شکار نہیں ہوئے۔اسی وجہ سے یہ واضح ہوگیا کہ میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ میں سول ملٹری قیادت کبھی ایک پیج پر نہیں رہ سکتی۔ اسٹیبلشمنٹ میں ہمیشہ شکوک رہیں گے۔ میاں نوا ز شریف کی طرز سیاست اور طرز فکر پر ان کے قریبی حلقے میں موجود پرویز رشید اینڈ کمپنی کی سیکولرسوچ بھی اثرانداز ہوئی۔ جب میاں نواز شریف نے سیفما کے سیمینار میں یہ کہا کہ ہم بھی آلو گوشت کھاتے ہیں، انڈین پنجاب کے غیر مسلم بھی یہی کھاتے ہیں، تب ان کے بہت سے حامی اس غیر محتاط جملے پرہکا بکا رہ گئے تھے۔ میاں صاحب انڈیا کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے حوالے سے بھی خاصا آگے چلے گئے، نریندر مودی کو اپنی نواسی کی شادی میں مدعو کرنے سے لے کر بھارت کے دورہ میںبزنس مین جندال وغیرہ سے ملاقاتوں تک۔ میں قطعی طور پر یہ نہیں کہہ رہا کہ وہ کسی ملک کے ایجنٹ یا غیر محب وطن ہیں۔ نہیں مگران کی سوچ میں ایک واضح فرق بہرحال آیا اور ایک لبرل ، سیکولر ایجنڈا اس میں در آیا۔ یوں رائٹ کے روایتی حلقے اور اینٹی انڈین سوچ کے حامل لوگ ن لیگ سے دور چلے گئے۔ عمران خان مذہبی آدمی نہیں، مگر اس کا امیج ایک ہارڈ کور اینٹی انڈین نیشنلسٹ کا ہے۔ اس بنیاد پر ن لیگ سے اختلاف کرنے والے ادھر ہی جا سکتے تھے، سو وہ چلے گئے۔