بزرگوں سے یہی سنا تھا کہ کبھی بڑا بول نہ بولو کیونکہ جب پندار کا صنم کدہ دھڑام سے گرتا ہے تو اس کی صدائے کربناک دور دور تک سنائی دیتی ہے۔ اہل دل اور اہل نظر اچھی طرح سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لیگارڈ کے سامنے دبئی میں کس دل سے پیش ہوئے ہوں گے۔ خان صاحب علی الاعلان کہا کرتے تھے میں کہیں کاسہ گدائی لے کر نہیں جائوں گا۔ آئی ایم ایف کے سامنے دست سوال دراز نہ کروں گا۔ اب خان صاحب بڑی شان سے بنفس نفیس کشکول گدائی لے کر آئی ایم ایف کے پاس حاضر ہوئے۔ غالباً پاکستانی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا کہ خود وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان آئی ایم ایف کے پاس جائے اور اس کی ڈائریکٹر کو ان کی شرائط تسلیم کرنے کی یقین دہانی کرائے۔ ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی الفاظ کی جادوگری اور ساحری کے ماہر سمجھے جاتے ہیں انہوں نے آئی ایم ایف کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کو ’’اشتراک عمل‘‘ کا نام دیا ہے۔ سبحان اللہ ہم ستارہ شناس ہیں نہ کوئی نجومی، مگر اقتصادیات اور زمینی حقائق کی جو تھوڑی بہت شد بد رکھتے ہیں اس کی بنا پر ہم نے تین چار مہینے پہلے یہ لکھا تھا کہ حکومت کو دیر یاسویر بالآخر آئی ایم ایف کے پاس جانا ہی پڑے گا۔ دراصل یہ ہماری سادگی تھی وگرنہ وزیر خزانہ اسد عمر وزیر اعظم عمران خان کی اجازت کے ساتھ روز اول سے آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ تبھی تو آئی ایم ایف کی انتہائی کڑی شرائط کو اعتماد سازی کے لئے معاہدے سے پہلے ہی نافذ کر دیا گیا۔ روپے کی قدر میں 35فیصد کمی کی گئی۔ گیس کی قیمتوں میں 145فیصد اضافہ کر دیا گیا‘ بجلی کے نرخ بھی بڑھائے گئے اور پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا گیا۔ مہنگائی میں اس ہوش ربا اضافے سے عوام کی چیخیں بلند ہونے لگیں۔ فقیر نے عوام کی حالت زار کا تذکرہ گزشتہ برسوں کے دوران عمران خان کے ایک مداح اور صلاح کار ممتاز کالم نگار سے کیا تو وہ کہنے لگے برادر! یہ تو صرف پرومو ہے۔ مہنگائی کی ہولناک فلم عنقریب چلے گی تو لگ پتا جائے گا۔ گویا؎ ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا کسی حکومت کی چال بلکہ ’’چال چلن‘‘ کا اندازہ لگانے کے لئے پہلے چھ ماہ کافی ہوتے ہیں۔ قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں‘ روزگار دینے کا ابھی کوئی ذکر نہیں البتہ غریبوں کے ٹھپے اور ڈھابے گرنے سے بے روزگاری کا جن بوتل سے باہر آ گیا ہے سالانہ تجارتی خسارہ تقریباً 38بلین ڈالر ہو چکا ہے۔ درآمدات کم ہو چکی ہیں اور نہ ہی برآمدات بڑھائی گئی ہیں۔ بیرونی قرضہ تو رہا ایک طرف حکومت گھر سے بھی بہت سا قرضہ لے رہی ہے۔ پیپلز پارٹی حکومت 5ارب روپے یومیہ قرضہ لے رہی تھی۔(ن) لیگی ساڑھے سات ارب روپے جبکہ موجودہ حکومت 15ارب روپے لے رہی ہے۔ تحریک انصاف کے انتخابی ایجنڈا یا منشور کے چار ستون تھے۔ معاشی خوشحالی ‘ عدل و انصاف کے ساتھ گڈ گورننس ‘ تعلیم اور صحت۔ اوپر ہم نے ’’معاشی خوشحالی‘‘ کی مختصر سی تصویر پیش کی ہے۔ عمران خان اپنی انتخابی تقاریر میں بار بار عدل و انصاف پر بے پناہ زور دیا کرتے تھے اور بالعموم حضرت علی کرم اللہ وجہہُ کا یہ قول دوہرایا کرتے تھے کہ معاشرے کفر پر تو قائم رہ سکتے ہیں مگر ظلم پر نہیں۔ سانحہ ساہیوال میں بے قصور والدین اور بہن کے بے دردی سے مارے جانے کے بارے میں دس سالہ عمیر نے جے آئی ٹی کے سامنے جو بیان دیا ہے اس نے عمران خان کے دعوئوں اور ہمارے سارے معاشرے کے کھوکھلے پن اور بے حسی کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔’’ہم صبح 8بجے گھر سے نکلے۔ جب گاڑی قادر آباد پہنچی تو پیچھے سے کسی نے فائر کیا جس سے گاڑی فٹ پاتھ سے ٹکرا گئی اور پولیس کے دو ڈالے تیزی سے گاڑی کے پاس آ کر رکے۔ نقاب پوش پولیس اہلکاروں نے فوری فائر کر کے انکل ذیشان کو مار ڈالا۔ انکل کو مارنے کے بعد انہوں نے کسی سے فون پر بات کی۔ اس دوران میرے ابو نے کہا جو چاہے لے لو مگر ہمیں نہ مارو۔ فون بند ہوتے ہی انہوں نے دوبارہ فائرنگ شروع کر دی جس کی وجہ سے ابو‘ ماما اور بہن جاں بحق ہو گئے۔فائرنگ کے دوران پاپا نے مرنے سے پہلے منیبہ کو اور ماما نے مجھے اور حادیہ کواپنے پائوں میں چھپا لیا۔ اس فائرنگ کے بعد پولیس والوں نے مجھے اور دو بہنوں کو گاڑی سے نکال کر مرنے والوں پر دوبارہ پھر فائرنگ کی۔ ہم تینوں رو رہے تھے اور سخت خوفزدہ تھے۔ پولیس والوں کا یہ موقف کہ گاڑی کے اندر سے یا موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کی بالکل جھوٹ ہے اور نہ ہی گاڑی سے دہشت گردی کا کوئی سامان برآمد ہوا‘‘ ماں باپ کی بے بسی اور شفقت پدری اور مامتا دیکھئے کہ وہ مرتے ہوئے اپنے بچوں کو کس طرح اس ناگہانی موت سے محفوظ رکھنے کے لئے آخری لمحے کا جتن کر رہے تھے۔ انصاف کے دلدادہ اور دعویدار وزیر اعظم عمران خان کے پاس اس لرزہ خیز سانحے کے بعد صرف دو آپشن تھے۔ ایک تو یہ کہ وہ فی الفور یہ کہہ کر مستعفی ہو جاتے کہ میں حسب وعدہ بے گناہ شہریوں کو تحفظ دینے میں ناکام ثابت ہوا ہوں۔ عمران خان کے پاس دوسرا آپشن یہ تھا کہ وہ اور ان کی بیگم بلاتاخیر ہیلی کاپٹر میں سوار ہوتے۔ خلیل کے معصوم بچوں کے سر پر دست شفقت رکھتے ہوئے یہ اعلان کرتے کہ آج سے ان یتیم و یسیر بچوں کے ہم میاں بیوی والدین ہیں۔ پولیس کا یہ ’’قاتلانہ حملہ‘‘ کسی فرد یا فیملی کے خلاف نہیں ریاست پاکستان کے خلاف تھا۔ اس لئے اب مظلوم فیملی کے بچ جانے والے بچے اور دیگر لواحقین نہیں خود ریاست مدعی بن کر مقدمہ لڑے گی۔ مگر افسوس صد افسوس کہ ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ آج تک وزیر اعظم ان مظلوم بچوں کے پاس گئے ہیں نہ وزیر اعلیٰ۔ عمران خان کبھی کہتے ہیں کہ ہمیں جوڈیشل کمشن بنانے پر اعتراض نہیں مگر عملاً کیا ہو رہا ہے کہ پیٹی بھائیوں کو بچانے کی کئی سطحوں پر کوشش ہو رہی ہے اور عدل و انصاف اور گڈ گورننس کے دعویدار عمران خان ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ جہاں تک وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کا تعلق ہے ان سے کچھ کہنا سننا مناسب نہیں کہ نہ ان کے ہاتھ میں کوئی حقیقی اختیار ہے اور نہ ہی وہ اختیار استعمال کرنا جانتے ہیں۔ ہم ہمیشہ امید بہار رکھتے ہیں اور مایوسی کی بات کرنے کو گناہ کبیرہ نہیں تو صغیرہ ضرور سمجھتے ہیں مگر اس کا کیا کیجیے کہ قدم قدم پر حکمران اپنے ہی ایجنڈے کی نفی کر کے ناامیدی کو ہوا دیتے ہیں۔ کبھی یہ کہتے ہوئے طواف کوئے ملامت کو چل پڑتے ہیں کہ : دل پھر طواف کوئے ملامت کو جائے ہے پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے عمران خان ابوظہبی کے ولی عہد شیخ محمد بن زید النہیان کا حوالہ دیتے رہتے ہیں کہ خوش حالی چاہتے ہو تو اندرونی و بیرونی بزنس مینوں کو زیادہ سے زیادہ مراعات دو۔ مگر حکومت اپنی ساری توانائیاں اپوزیشن کو رگیدنے پر صرف کر رہی ہے اور حکومت کے بعض نادان دوست سیاسی استحکام کی بجائے سیاسی انتشار کے لئے رات دن شعلہ افشانی کر رہے ہیں۔ عمران خان قوم کو مایوسی سے بچانا چاہتے ہیں تو سانحہ ساہیوال پر مٹی ڈالنے کی ہر کوشش کو ناکام بنا دیں۔