وزیر اعظم عمران خان نے ایک اعلی سطحی وفد کے ہمراہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی دعوت پر جمعہ سے اتوار تک تین روزہ سعودی عرب کا دورہ کیا ہے۔ باقاعدگی سے اعلی سطح کے دوطرفہ دورے، پاکستان اور سعودی عرب کے مابین برادرانہ تعلقات اور قریبی تعاون کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی برادرانہ تعلقات ہیں، جس کی جڑیں مشترکہ عقیدے ، مشترکہ تاریخ اور باہمی حمایت پر مبنی ہیں۔ تاہم 2015سے دونوں ممالک کے تعلقات میں روایتی گرم جوشی نہیں رہی ہے۔ پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی رواں ہفتے ریاض کا دورہ کیا ہے جس میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سمیت سعودی عرب کی فوجی قیادت سے ملاقاتیں کیں جن میں دونوں ملکوں کے مابین دفاعی تعاون سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کا حالیہ دورہ اس لیے بھی اہمیت کا حا مل ہے کہ10 اپریل 2015 کو پاکستان کی پارلیمان کے سعودی عرب اور یمن کے درمیان ہونے والی جنگ میں غیر جانبدار رہنے اور پاکستانی افواج کو اس جنگ میں نہ بھیجنے کی قرارداد کے بعد سے پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں روایتی گرم جوشی نہیں رہی بلکہ باہمی تعلقات میں سرد مہری کا عنصر غالب رہا ہے۔ پاکستان کے فوج بھیجنے سے ایران کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کا اندیشہ تھا اور پاکستان اپنے ہمسایہ ایران سے تعلقات میں کشیدگی ھر گزنہیں چاہتا تھا۔ پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ ہمیشہ سے گہرے مراسم رہے ہیں اور سعودی عرب نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا بھر پور اور مکمل ساتھ دیا ہے۔ سعودی عرب کے فرمانروا شاہ عبداللہ ہی تھے جنہوں نے 1998 کے ایٹمی دھماکوں کے نتیجے میں پاکستان پر لگنے والی معاشی پابندیوں کے توڑ کے لیے پاکستان کو نہ صرف ادھار پر تیل فراہم کیا بلکہ کچھ عرصہ کے لیے تیل کی ایک قابل ذکر مقدار بالکل مفت فراہم کی۔ پاکستان میں 2018کے انتخابات کے نتیجے میں عمران خان حکومت کے قیام کے بعد پاکستان۔سعودی عرب تعلقات کو بھرپوراور ٹھوس سطح کی انتہا تک پہنچانے کے لیے دوبارہ دونوں ممالک کی طرف سے کوششیں کی گئیں جبکہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے 2019 کے اوائل میں ہونے والے دورہ پاکستان کو اقتصادی تعاون کے میدان میں ایک نئی پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا تھا مگر بعض جغرافیائی اور علاقائی پیشرفتوں اور دونوں اطراف کے باہمی تحفظات کی وجہ سے شہزادہ محمد بن سلمان کا یہ دورہ پاکستان بھی پاک سعودی تعلقات میں موجود جمود کو توڑنے اور روایتی گرم جوشی کو بحال کرنے میں بہت زیادہ کامیاب نہ ہوسکا۔ سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کونسے عوامل ہیں یا تھے جن کی وجہ سے پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں سرد مہری آگئی۔ پہلا عنصر اس ضمن میں 2015میں کیا گیا پاکستان کا یمن اور سعودی عرب کی کشمکش میں غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ ہے جبکہ ایران اور سعودی عرب کے باہمی تنازع میں بھی غیر جانبداری برقراررکھنے کا فیصلہ شامل ہے۔ باہمی تعلقات اس وقت بھی خراب ہوگئے جب پاکستان نے 2017کے قطر۔ خلیجی بحران میں بھی غیر جانبدار رہنے کا انتخاب کیا۔ تیسری اہم وجہ عمران خان کی حکومت میں پاکستان کا ترکی اور ملائشیا کی طرف جھکاؤ باالخصوص اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر ملائشیا اور ترکی کے ساتھ مل کر اسلامو فوبیا کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک مشترکہ ٹی وی چینل کے قیام جیسے اقدامات کرنے پر متفق ہونا۔ چوتھی وجہ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا گزشتہ سال کا وہ بیان جس میں انہوں نے کشمیر کے مسلے پرخاطر خواہ حمایت کرنے کے لیے اسلامی تعاون کی تنظیم کا اجلاس نہ بلانے پر تنقید کی تھی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی تنقید کے بعد ،سعودی عرب نے پاکستان کو 2018میں پیش کردہ بیشتر معاشی مدد واپس لے لی تھی۔ اور پاکستان کو بتایا گیا تھا کہ وہ ایک ارب ڈالر کا بلا سود قرض واپس ادا کرے۔ اس طرح اسلام آباد کو ہنگامی قرض کے لیے چین سے رجوع کرنے پر مجبور کیا گیا جبکہ آئل کریڈٹ سہولت جو سعودی عرب نے پاکستان کو پیش کی تھی اس کی بھی تجدید نہیں کی گئی تھی۔ ان حالات میں پاکستان کے ترکی اور ملائشیا کی طرف جھکاؤ کو سعودی عرب کی طرف سے ناپسند کیا گیا اور اسکو ایران، ترکی، ملائشیا اور پاکستان پر مشتمل سعودی عرب مخالف اسلامی ممالک کے گروپ سے تشبیہ دی گئی۔ اب پاکستان اور سعودی عرب اپنے باہمی تعلقات میں روایتی گرم جوشی دوبارہ لانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کر رہے ہیں جبکہ سعودی شاہ سلمان اور ترکی کے صدر اردوان کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے جس میں انہوں نے اپنے باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کا عزم کیا ہے۔ اسی طرح سعودی شہزادہ محمد بن سلمان نے ایران کی طرف نرم لہجہ پر مشتمل بیان دیا ہے۔ وزیر اعظم کی آمد کے بعد طے پانے والے معاہدے کے مطابق ، فریقین نے دونوں ریاستوں کے مابین قریبی رابطہ قائم کرنے کے لئے ایک ’سپریم کوآرڈینیشن کونسل‘ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے جو سعودی ولی عہد اور پاکستانی وزیر اعظم کی مشترکہ سربراہی میں کام کریگی۔ یہ ایک اہم پیش رفت ہے اور یہ کونسل دونوں ممالک کے دیرینہ تعلقات کو پائیدار اور دیرپا بنیادوں پر قائم رکھنے کیلیے ایک مستقل فریم ورک کے طور پر کام کرے گی۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم عمران خان اور سعودی قیادت کے مابین ہونے والے مزاکرات کے نتیجے میں معاشی تعاون ، اسٹریٹجک شراکت داری ، تجارت ، سرمایہ کاری ، توانائی ، ماحولیات اور انسداد منشیات کے شعبوں میں بھی مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے ہیں جن سے تعاون کی نئی راہیں کھلیں گی۔