حالات پر نظر کی تو بے ساختہ دو اشعار موزوں ہو گئے: زمیں بدلتے ہوئے آسماں بدلتے ہوئے پھر آ گیا ہے کوئی داستاں بدلتے ہوئے ابھی سے کھلنے لگی ہیں حقیقتیں ساری کہ دیکھتا ہوں زمان و مکاں بدلتے ہوئے بات یوں ہے کہ خان صاحب نے جب سے بھارتی پائلٹ کو رہا کرنے کا اعلان کیا ہے ہمارے چند دوست سوشل میڈیا پر پوسٹیں لگا رہے ہیں۔ دو متضاد رویے سامنے آئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں ہر کسی کا اپنا زاویہ نگاہ ہے اور اپنی فہم ہے۔ ہر شخص ہوسکتا ہے اپنے تئیں درست سوچتا ہو۔ دیکھنا مگر یہ ہے کہ اس اعلان سے منظر اور صورت حال میں کیا تغیر آیا ہے۔ مجھے تو جناب عارف عبدالمتین یاد آگئے: تلوار کیا گری مرے دشمن کے ہاتھ سے میں مسکرا کے خیمۂ یاراں میں آگیا حضور! بات یہ ہے کہ اللہ نے ہمیں عقل اور حکمت بھی تو عطا کی ہے اور اسے بروئے کار لانے کا بھی کہا ہے۔ ایک بات تو یہ کہ ہم نے اس پائلٹ کا کون سا اچار ڈالنا تھا۔ اس کی نگرانی ہی کرنا پڑنی تھی کہ کہیں خودکشی نہ کرلے، کم از کم اس کی خاطر تواضع تو کرنا ہی پڑنا تھی۔ ایک دوست نے پوسٹ لگائی کہ ’’انڈین پائلٹ کو فی الفور غیر مشروط واپس کرنا 20 کروڑ عوام کی ذلت اور ایک شخص کی ذاتی پالیسی تو نہیں؟‘‘ یہ سب کچھ میرے دوست نے یقینا محبت میں کہا ہے کہ دشمن عمران خان کی وضعداری یا حکمت عملی کو کمزوری پر محمول کرے گا۔ دوسرے لفظوں میں وہ یہ سمجھ کر کہ پاکستان نے ڈر کر ان کا پائلٹ چھوڑا ہے تو وہ کچھ اور ’’بھوتر‘‘ جائے گا۔ میں نے اپنے دوست کو جواب میں لکھا کہ خان صاحب کو پائلٹ واپس بھیجتے وقت یہ پیغام بھی متصل کرنا ہوگا کہ ایسے نالائق پائلٹ کو جہاز مت دیا کریں۔ مودی کی خوشیاں اور جنتا کے بھنگڑے تو پہلے ہی دم توڑ چکے تھے۔ تبھی تو میں نے لکھا تھا کہ : ایسے لگتا ہے کہ کمزور بہت ہے تو بھی جیت کر جشن منانے کی ضرورت کیا تھی وہ کمزوری تو اگلے دن ہی سامنے آ گئی جب ہمارے ایک پیارے سے نوجوان نے ان کے جہاز گرائے۔ اپنی قوم کے سربلند کردیئے۔ دل باغ باغ ہو گیا کہ کہ ایسی چنگاری بھی گویا اپنی خاکستر میں تھی۔ اس عمل سے ہمارے نوجوانوں کا ایک جذبہ تازہ پیدا ہوا۔ ایسے لگتا ہے کہ جنگ کے اس عمل نے سوئے شیروں کو بیدار کردیا ہے۔ کسی نے پوسٹ لگائی کہ یہ عمل اگر نوازشریف کے دور میں ہوتا تو پائلٹ کی رہائی غداری کہلاتی۔ اب اس پر بندہ کیا تبصرہ کرے کہ لوگ تب ایسا کیوں سوچتے۔ جواب تو پوسٹ لگانے والے کو دینا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ تب ایسی نوبت ہی کب آنا تھی۔ اگر ایسا ہوتا تو ہمارے نوازشریف کہتے: ہم تو پہلے ہی ترے حق میں تہی دست ہائے ایسے گھائل پر نشانے کی ضرورت کیا تھی تو جناب! بساط جنگ پر عمران خان کی چال شہ مات دے گئی۔ مودی کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اب امن کے اس کھلے اور مدلل عمل کے بعد وہ دنیا کو کیا جواب دے۔ دوسرے لفظوں میں مودی کھیل ہی سے منفی کردیا گیا۔ بھارت کے عوام سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ یہ سارا سیاپا مودی ہی کا ہے۔ وہ یہ تو پہلے ہی سوچتے ہیں کہ بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کو بالکل ہی دیوار کے ساتھ لگادیا ہے اور انہیں اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ سوائے بندوق اٹھانے اور خودکش حملے کے کوئی چارہ نہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے عوام امن و آشتی چاہتے ہیں، کشمیر کا حل ناگزیر سمجھتے ہیں۔ آپ آزادی کے متوالوں کو کب تک غلام رکھ سکتے ہیں۔ ان کی رگوں میں غیرت مند خون دوڑتا ہے۔ دیکھئے ایک اور بات ہے کہ خان ایک کامیاب خارجہ پالیسی کے باعث دنیا کی نظر میں آیا ہے اور اب پائلٹ کی رہائی والے معاملے نے سب کو باور کروا دیا ہے کہ پاکستان تو امن چاہتا ہے، اس کا دہشت گردی سے کوئی واسطہ نہیں کیونکہ وہ خود اس عفریت کا شکار ہے۔ ہمیں اس وقت اس امیج کی ضرورت تھی۔ مودی اس بات پر تو تلملا رہا ہے کہ یہ کیسا خان ہے میں لڑتا ہوں یہ دوستی کی بات کرتا ہے۔ جنگ مودی کی ضرورت ہے مگر خان نے اس کے امکانات ختم کرتے ہوئے مودی کو ناک آئوٹ کردیا ہے۔ ہمیں اپنے معروضی حالات بھی تو دیکھنا ہوتے ہیں۔ حال ہماری امت کا یہ ہے کہ او آئی سی جسے "Oh! I see" کہا جاتا ہے کے اجلاس میں سشما سراج کو مہمان خصوصی بلایا جارہا ہے اور ہمارا حال ہے کہ: دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی بات اصل میں یہ ہے کہ ہم ٹیک آف کر رہے ہیں۔ بہار کا موسم جیسے ہم پر بھی آ رہا ہے اور نئی کونپلیں نظر آنے لگی ہیں۔ بارشیں ہی تو رحمت اور مدد ایزدی ہے۔ فصلیں لہلائیں گی۔ سرسوں کے کھیت مسکرائیں گے۔ خوشحالی انشاء اللہ آئے گی۔ کچھ کچھ خود کو تبدیل کرنے کا ضرور سوچنا چاہیے۔ باہر سے تو تبدیلی نظر آ رہی ہے حالانکہ تبدیلی پہلے اندر آنی چاہیے۔ میں تو بہت پرامید ہوں۔ ساری دنیا امن کی متلاشی ہے۔ اسلام تو پہلے ہی سلامتی ہے جو ایک آدمی کو کائنات کہتا ہے جہاں ایک کی موت عالم کی موت ہے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ ہماری امن کوششوں کو دنیا بھر میں سراہا گیا ہے۔ ہمارا سافٹ امیچ زیادہ اجاگر ہوا ہے۔ آپ دیکھتے نہیں کہ محبوبہ مفتی اور سدھو دونوں پائلٹ کی رہائی پر کیسے نہال ہیں اور عمران کی لیڈر شپ پر رطب اللسان ہیں۔ مودی جیسے لڑنے والے فسادی اور قاتل سرشت کو کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔ سدھو کو خان کے احسان نے سرداروں کا محسن بنا دیا ہے۔ شہبازشریف کا کہنا ہے کہ 65ء کی یاد تازہ ہو گئی۔ ہمیں بہت اچھا لگا، ہم بھی دشمن تو نہیں ہیں اپنے۔ ایک دوست نے دلچسپ تبصرہ کیا کہ ہم سارا سال انڈین گانے سنتے ہیں اور جنگ کے دنوں میں ہمیں نور جہاں یاد آ جاتی ہے۔ اے وطن کے سجیلے جوانو۔ میرے نغمے تمہارے لیے ہیں۔ بات مجھے اپنے دوستوں سے یہ کہنی ہے کہ آپ عمران خان کے فیصلہ سے بے شک اتفاق نہ کریں مگر آپ کو اپنی دلیل میں محب وطن نظر آنا چاہیے۔ اصل میں ہمارا پیارا وطن اور اس کی بقا اولین حیثیت رکھتی ہے۔ اپنے پیارے مرحوم دوست ازہر درانی کے لازوال شعر کے ساتھ اجازت: مرے خدا مجھے طارق کا حوصلہ ہو عطا ضرورت آن پڑی کشتیاں جلانے کی