پاکستان میں پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کی نئی حکومت خارجہ امور کے حوالے سے نوآموز ثابت نہیں ہو گی کیونکہ حالیہ انتخابات میں پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے ایسے امیدوار بھی کامیاب ہوئے ہیں جو بہت تجربہ کار اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ نئی حکومت خارجہ امور میں وہ کتنی سرگرمی دکھاتی ہے۔ اس کی ترجیحات کیا ہوں گی، خصوصاً چین کے معاملے پربہت حد تک اس کا نقطہ نظر واضح ہو جائے گا، خارجہ پالیسی اور سٹریٹجک معاملات اکثر سول حکومتوں اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا باعث بنے رہے ہیں اور فریقین کے مابین فاصلوں کی وجہ بنتے رہے ہیں، اگر خارجہ امور پر سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا زیادہ کنٹرول ہو تو سول حکومتوں کے لیے بین الاقوامی سفارتی دبائو سے بچنا مشکل ہو جاتا ہے، یہ مختلف علاقائی معاملات میں پاکستان کے لیے پیچیدہ صورتحال اور اس کی سرزمین پر مبینہ غیر ریاستی گروہوں کی موجودگی کے حوالے سے مسائل کا باعث بنتی رہی۔ اس بدلی دنیا میں بعض اور بھی پیچیدگیاں پیدا ہو گئی ہیں کہ آج ملکی معیشت، خارجہ پالیسی اور سلامتی سے متعلقہ امور علیحدہ علیحدہ چلتے نظر نہیں آتے اور یہ ایک دوسرے کے دائرہ کار میں مداخلت کرتے دکھائی آتے ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت(2008-13) اور اب حال ہی میں پاکستان مسلم لیگ(ن) کی سبکدوش ہونے والی حکومت کو سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ خارجہ پالیسی سے متعلق امور پرمشکلات کا سامنا رہا۔ یہ ایک بنیادی خلاہے جس کی وجہ سے ملک میں سول /ملٹری توازن متاثر ہوا۔پی ٹی آئی نے خود کو کسی بھی جگہ پر نہیں رکھا، گزشتہ پانچ برس کے دوران کچھ عرصہ کے لیے پارٹی اسٹیبلشمنٹ کا اعتماد حاصل کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہوئی۔ خارجہ امور کے بارے میں عمران خان کے کچھ مشیر سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے قریب نظر آئے تا ہم عمران خان کو خارجہ امور کے حوالے سے پہلے چیلنج کا سامنا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ہو گا جو اس سال اکتوبر /نومبر میں ہو رہا ہے جس میں غیر ریاستی عناصر کے مسئلے کو ایک بڑا عالمی مسئلہ بنا کر پیش کیا جا سکتا ہے جبکہ دوسری طرف پاکستان کی توجہ مسئلہ کشمیر سے ہٹانے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ عمران خان کے لیے ان مسائل سے محض بیانات کے ذریعے عہدہ برا ہونا مشکل ہو گا، لیکن فنانشل ایکشن فورس(ایف اے ٹی ایف) کا 2018-19ء میں ہونے والا اجلاس عمران خان کو مزید پریشان کر سکتا ہے۔ پاکستان کی سول حکومتیں امریکہ کے ساتھ سٹریٹجک تعلقات اور بعض حالات میں افغانستان، سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے کچھ کم ہی کردار ادا کرتی رہی ہیں لیکن وہ چین کو نظرانداز نہیں کر سکتیں کیونکہ چین سی پیک منصوبہ کے تحت پاکستان کی اقتصادی و سماجی ترقی کے حوالے سے نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔ عمران خان اور ان کی جماعت چین سے اپنے بارے میں نرم رویے سے لطف اندوز ہونے کی توقع نہیں کر سکتے، اس کی دو وجوہات ہیں، اول یہ کہ 2014ء میں پارٹی نے دھرنا دیا اور اس میں چین کی قیادت اور سی پیک کے خلاف زبان استعمال کرنے کے باعث چین ان سے خفا ہوا۔ مزید براں پی ٹی آئی کی کے پی کے حکومت کی طرف سے سی پیک منصوبوں سے لاتعلقی نے بھی چین میں پی ٹی آئی کے بارے میں عدم اعتماد کی فضا پیدا کی۔ دوسرے یہ کہ پی ٹی آئی کی شمالی امریکہ اور یورپ میں آباد پاکستانیوں میں مقبولیت کے بارے میں بھی چین میں بہت سے شبہات پائے جاتے ہیں۔ پھر یہ کہ پی ٹی آئی نے یہ اعلان کر رکھا ہے کہ اس کی حکومت میں مشاورت کے لیے سمندر پار کے اہل اور باصلاحیت پاکستانیوں کی خدمات سے فائدہ اٹھایا جائے گا۔ اس سلسلے میں چین کے علمی و تعلیم یافتہ حلقے سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی پر مغرب کا بہت اثر ہے۔ اگرچہ اسلام آباد میں چینی سفارتخانے نے یہ بیان جاری کیا ہے کہ وہ پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے تا ہم پی ٹی آئی چین کے ساتھ اپنے تعلقات کے حوالے سے گومگو میں ہے۔ پی ٹی آئی نے عام انتخابات سے ایک ہفتہ قبل ایک پاک چین تعاون یونٹ قائم کیا ہے جو بظاہر پی ٹی آئی کی جانب سے چین کے ساتھ اعتماد کی فضا پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ اپنے منشور میں بھی پی ٹی آئی نے چین کے ساتھ دوستی کی نئی بلندیاں عبور کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ چین نئی حکومت کے متعلق سوچ بچار سے کام لے رہا ہے۔ انہیں سری لنکا میں بھی اس طرح کا تجربہ رہا ہے، جہاں کے یونائیٹڈ نیشنل فرنٹ فارگڈگورنس نے پہلے پہل ملک کے بنیادی ڈھانچے میں چین کی طرف سے کی جانے والی سرمایہ کاری کی مخالفت کی تا ہم بعد ازاں جب اسے حکومت ملی تو فریقین کے درمیان نئی ورکنگ میکنزم قائم ہو گئی۔ بہرحال پارٹی کی بہتری اور بہتر تاثر کی بحالی عمران خان کے لیے کوئی بہت بڑا کام نہیں ہو گا۔ اس سلسلہ میں سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ بھی ان کی مددگار ثابت ہو سکتی ہے اور سی پیک بذات خود ان کی حکومت کی ترقی میں معاون ہو سکتا ہے۔ پہلا چیلنج جو اس سلسلہ میں درپیش ہو سکتا ہے وہ میگا ترقیاتی منصوبوں کی اونر شپ کے بارے میں ہو گا۔ پاکستانی فوج نے مسلم لیگی حکومت پر اس بات پر زور دیا تھا کہ سی پیک اتھارٹی قائم کی جائے لیکن بعد ازاں کامیابی سے اس کوشش کی مزاحمت کی۔ اسی طرح کا ایک تنازع اس وقت ابھرا جب سی پیک منصوبوں پر کام کرنے والے چینی عملہ کے سکیورٹی کے لیے سپیشل سکیورٹی ڈویژن(ایس ایس ڈی) قائم کیا گیا۔ سول حکومت یہ خیال کرتی تھی کہ اس کا مقصد قانون نافذ کرنے والے سول اداروں پر کنٹرول قائم کرنے کی کوشش ہے۔ سول حکومت نے ایس ایس ڈی کے وسیع اختیارات پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا تھا۔ اس وقت مسلم لیگی حکومت کو پانامہ کیس کا سامنا تھا، وہ دبائو میں تھی اس لیے زیادہ دیر تک اس کی مزاحمت نہ کر سکتی تھی۔ عمران خان کو سابق حکومت کے تجربوں سے سیکھنا ہو گا۔ عام پاکستانی ایس ایس ڈی کی سب سے زیادہ قیمت ادا کر رہا ہے کیونکہ نیپرا نے بجلی پیداکرنے والی کمپنیوں کو اجازت دے رکھی ہے کہ وہ بجلی صارفین سے سی پیک منصوبے کے تحت 15.56ارب ڈالر کے 19منصوبوں کے لیے ایک فیصد رقم سکیورٹی کے حساب میں 20سے 30سال تک وصول کرے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حالیہ نگران حکومت کے دور میں سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی نے سی پیک منصوبوں کے تحت سکیورٹی کے نام پر جون 2018ء سے فی یونٹ 71پیسے اضافہ کی اجازت طلب کی ہے لیکن چین کی حکومت اس طرح کے اقدامات کی حوصلہ افزائی نہیں کر رہی کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ ایسے فیصلوں سے سی پیک اور چین کے حوالے سے پاکستانیوں میں بد اعتمادی کی فضا پیدا ہو گی۔ مزید براں ایک اور مسئلہ جو نئی حکومت اور چین کے تعلقات مخدوش کر سکتا ہے وہ غیر ریاستی عناصر کا ہے، چین کا رویہ نرم روی پرمبنی ہے تا ہم یہ سول اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے مابین بے اعتمادی پیدا کر سکتا ہے۔ یہ عمران خان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہو گا۔ غیر ریاستی عناصر کی وجہ سے پاکستان پر واشنگٹن اور دوسرے بڑے دارالحکومتوں کی طرف سے دبائو کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کی وجہ سے عمران خان کے لیے ضروری ہو جائے گا کہ وہ خارجہ اور سٹریٹجک امور سے متعلق بعض معاملات پر اپنی پوزیشن واضح کریں۔ یہی ان کے بیرونی دبائو اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کے مابین توازن قائم رکھنے کا حقیقی امتحان ہو گا۔