وحشت کلکتوی نے غالباً یوں کہا تھا: کچھ سمجھ کر ہی ہوا ہوں موج دریا کا حریف ورنہ میں بھی جانتا ہوں عافیت ساحل میں ہے یہ شعر مجھے عمران خان کی حالیہ تقریر سن کا ذہن میں آیا۔ وہ دھرنے اور نوازشریف کے معاملے کے الجھائو سے تھک ہار کر دو دن کی رخصت گزارنے کے بعد یا یوں کہیں کہ تازہ دم ہو کر آئے اور ہزارہ موٹروے حویلیاں کے مانسہرہ سیکشن کی افتتاحی تقریب میں اپوزیشن کے کڑاکے نکال دیئے۔ مجھے تو وہی ناصر ادیب کی فلم مولا جٹ کا ڈائیلاگ بھی یاد آیا کہ ’’مولے نو مولا نہ مارے تو مولا نہیں مردا‘‘۔ اس کا تذکرہ ایک مرتبہ حسن نثار نے بھی کیا تھا کہ مولے کی طرح عمرن خان بھی خود اپنے آپ کو پچھاڑے گا۔ خیر باتیں توخان کی زیادہ تر پرانی تھیں مگر بائونسر پر چھکا لگا کر بال سٹیڈیم سے باہر پھینک دی تھی مگر وضعداری میں اپنا ہیٹ للی کو تحفہ میں دے دیا تھا۔ تو عمران ٹھیک کہتا ہے کہ اسے ہارنا بھی آتا ہے اور جیتنا بھی، بلکہ گر کر اٹھنا بھی۔ میں نے اس کی تقریر کا ایک ایک لفظ سنا۔ اس پر پیار بھی آ رہا تھا۔ غالب یاد آ گیا: محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے میں اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کا فرپہ دم نکلے ہم اپنی تمام تر برہمی کے باوجود خان کی ایمانداری اور دیانتداری پر یقین رکھتے ہیں۔ اپنی قلم کی آبرو رکھتے ہوئے سچی تنقید کرنا بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ عوام کی مشکلات کا تذکرہ ضروری خیال کرتے ہیں۔ پھر خان کی مجبوریوں اور پریشانیوں کو بھی سمجھتے ہیں کہ ’’رقص زنجیر پہن کر بھی کہا جاتا ہے۔‘‘ مگر قسمت سے بھی لڑنا پڑتا ہے: کچھ نہیں ہاتھ کی لکیروں میں زندگی راستے بناتی ہے میں سوچتا ہوں اس کی باتوں میں کون سی بات غلط ہے کہ قانون اور آئین کے مطابق ایک مجرم علاج کے لیے باہر کیسے جا سکتا ہے۔ باقی ہزاروں بیمار قیدی برابر تو نہ ہوئے۔ چلیے پھر اگر سیاسی بساط پر ایسا ممکن ہے کہ جہاں پروڈکشن آرڈر نکل آتے ہیں۔ صدر کو استثنیٰ حاصل ہے وغیرہ وغیرہ تو چلو ایک گناہ اور سہی۔ مگر یہ بھی اس نے کیا غلط کہا کہ ایک مجرم کی ضمانت ایک ملزم دے۔ چلیے اس حد تک بھی سہی، مگر ہسٹری شیٹ پر ملزم کے بچے بھگوڑے، نوازشریف کے بچے مفرور اور ان کا سمدھی بھی۔ خان نہ بھی کہے تو ہم اندھے ہیں یا پاگل کہ ہم نہیں جانتے کہ ان لوگوں کی عیدیں اور شبراتیں سب لندن میں ہوتی ہیں جائیدادیں ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔ پاکستان تو ان کیلئے دکان یا ہیروں کی کان کی طرح ہے۔ ہائے ہائے خان کی باتیں ہمارے زخموں کو چھیڑ رہی تھیں۔ یہ بھی نہیں کہ ہم نے نوازشریف کو محبت نہیں دی، انہوں نے قدر نہیں کی: دکھ تویہ ہے اس نے ہی لوٹا ہے ہم کو جس کے لیے گھر بار لٹایا جا سکتا تھا کرپشن ختم کرنے کا جذبہ خان کا ٹریڈ مارک ہے اور اس حوالے سے پوری قوم ان کے ساتھ ہے۔ نوازشریف اور زرداری اینڈ کمپنی کی جائیدادیں اور مال و دولت کسی سے چھپا ہوا نہیں اور اس ضمن کے ان کے جھوٹ ضرب جھوٹ بھی سب پر عیاں ہیں۔ ان کی مطلق العنانیت بھی ڈھکی چھپی نہیں۔ لوگ سچی جمہوریت چاہتے ہیں کہ سب کو انصاف ملے جس کا تذکرہ عمران خان کرتے ہیں۔ انہوں نے چرچل کا حوالہ بھی دیا کہ جس نے دوسری جنگ عظیم میں لوگوں کی پریشانی میں پوچھا تھا کہ کیا عدالتیں انصاف کر رہی ہیں تو جواب مثبت پا کر کہا تھا کہ پھر برطانیہ کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ اس سے بھی بڑھ کر مولا علیؓ کا قول کہ حکومت کفر پر چل سکتی ہے ظلم پر نہیں۔ یہ ظلم کب سے ہم پر روا ہے۔ دو بے مہار خاندان ہم پر مسلط رہے۔ ایک ظلم تو یہ بھی ہوا کہ جو اس نظام کو بدلنے کے لیے آیا اسے بھی بے ساکھیوں کے سہارے پر لگا دیا گیا۔ یہ زیادہ بڑا ظلم ہوا۔ وہی جو کسی نے کہا تھا: میرے ذہن میں وہ جو خواب تھے نہ میں کہہ سکا نہ میں لکھ سکا جو زباں ملی تو کٹی ہوئی جو قلم ملا تو بکا ہوا واقعتاً نظام سے بغاوت اور پھر وہ بھی تن تنہا جان جوکھوں کا کام ہے۔ خاص طور پر جب آپ کی کشتی میں سوار لوگ بھی پتھر بھرنے والے ہوں بلکہ خود بھی پتھروں کی طرح کے۔ پھر انسان کدھر جائے۔ کہاں تک بندھے ہوئے ہاتھ پائوں کے ساتھ چلے: مجھے یہ دھیان رکھنا ہے کہ رستے ہی رکاوٹ ہیں انہی رستوں پہ رہ کر ہی سحر کو شام کرنا ہے کچھ ہو نہ ہو لوگوں کو شعور سچ مچ مل چکا ہے۔ پہلی مرتبہ شعور بھٹو نے دیا تھا کہ عام بندہ بھی اپنے حقوق سے خبردار ہو اور اب دوسری مرتبہ عمران خان نے لوگوں کو ان کے لٹ جانے پر ان کو متنبہ کیا۔ یہ بات سب کر رہے ہیں کہ عام بیمار قیدی کا کیس بھی نوازشریف کی طرح سنا جائے۔ اس سے اگلا مرحلہ بھی آ سکتا ہے کہ جس سے ڈرتے ہوئے عمران نے کہا کہ عدلیہ اپنا اعتماد بحال کرے مگر ٹھہریئے یہ فیصلہ تو خود عمران خان نے کیا تھا۔ دوسری بات یہ کہ عمران خان کو کے پی کے موٹروے پر پوچھنا چاہیے کہ چھ سال میں بھی کیوں پایہ تکمیل کو نہیں پہنچی۔ پارٹی میں میرٹ کی ذمہ داری کس کی ہے۔ ہر غلط کام پرنوٹس لیا جاتا ہے اور پھر وہ نوٹس ردی کی ٹوکری میں چلا جاتا ہے۔ اپنے غلط وعدوں پر بھی معافی مانگنی چاہیے اور نہیں تو اورنج ٹرین ہی چلا دیں، کچھ تو چلتا نظر آئے۔ مراد سعید کی تقریروں، فواد چودھری کی جگتوں اور فردوس عاشق اعوان کے اقوال زریں سے اب کام نہیں چلے گا۔ اب تک آپ نے صرف سکھوں کو خوش کیا ہے۔عوام آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ہم بھی آپ کو کامیاب ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔