نومنتخب حکومت اور وزیراعظم عمران خان کی گورننس کے حوالے سے دو مختلف تاثر مل رہے ہیں۔ یہ اب دیکھنے کا فرق ہے یا پھر عینک کے دونوں عدسوں سے دو مختلف منظر نظر آ رہے ہیں یا یہ کہ دونوں ہی باتیں اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہیں۔ گڈ اور کنفیوزڈ گورننس کے ملے جلے ،مگر متضاد تاثر۔ ایک طرف ہمیں حکومت بوکھلائی سی لگ رہی ہے، درست طریقے سے کچھ ہاتھ میں آ نہیں رہا۔ ایسا لگتا ہے جیسے اندھیرے میں کچھ ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے، ہاتھ میں آ جائے تب بھی اس کا اندازہ نہیں ہوپاتا اور اکثر اوقات ڈھونڈنے کچھ اور نکلو مگر مل کچھ اور جائے۔ اس کاادراک ہوچکا کہ تحریک انصاف حکومت کیلئے تیار نہیں تھی ، کوئی چاہے تو اسے یوں کہہ لے کہ انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ حکومت ایسی ہوتی ہے۔ بڑی مشکل یہ ہوئی کہ پچھلی حکومت نے شائد دانستہ طور پر معاملات خاصے بگاڑ دئیے۔ بجٹ کے معاملے میں دل کھول کر اللے تللے کئے، قرضوں کا بوجھ بہت زیادہ بڑھا دیا۔ روپیہ کی قیمت اتنی گھٹا دی کہ ہر درآمدی شے مہنگی ہوگئی، پچھلے بجٹ کو انتخابی بجٹ بنانے کے چکر میں مزید گڑ بڑ ہوئی ۔ بڑا ظلم یہ کیا کہ گردشی قرضے اتنے زیادہ بڑھا دئیے کہ صرف ان سے نمٹا ہی نئی حکومت کے لئے درد سر بنا ہوا ہے۔ یہ گڑبڑ اور مالیاتی مس ہینڈلنگ صرف وفاق میں نہیں کی، پنجاب میں بھی حالات خراب ہیں۔اگلے روز پنجاب کے سینئر وزیرعبدالعلیم خان نے بی بی سی کے آگے رونا رویا ہے کہ ن لیگی حکومت ہمیں قرضوں کے بوجھ تلے دبا گئی۔ انہوں نے انکشاف کیا ،’’ بھکی پاور پلانٹ پرایک سو ارب کے لگ بھگ لاگت تھی،اٹھارہ ارب پنجاب حکومت نے جبکہ اسی ارب بینکوں سے قرضے لینے تھے۔ اب حال یہ ہے کہ ساٹھ ارب پنجاب حکومت پر قرضہ ہے،چودہ ارب دے چکے ہیں، چار ارب دینے ہیں، ادھر مشینری بندرگاہ پر پڑی ہے، سمجھ نہیں آ رہا کہ کریں تو کیا کریں۔ ’’ یہ سب باتیں اپنی جگہ، لیکن تحریک انصاف کا کمزور ہوم ورک بھی بہرحال ایکسپوز ہوچکا ہے۔ انہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ اقتدار ملنے کے بعد کیا کرنا ہے، اب ٹاسک فورسز بنی ہیں جو چند ہفتوں میں رپورٹ بنا کر دیں گی۔ اپوزیشن کے پانچ سالہ دور میں اگر شیڈ و کابینہ بنائی جاتی اور اپنے طور پر غیر سرکاری ماہرین کی ٹاسک فورسز بنوا کر تفصیلی رپورٹیں بنواتے تو آج تحریک انصاف کے لئے اپنے ویژن کے مطابق اصلاحات کے ایجنڈے پر کام کرنا آسان ہوجاتا۔بعض تقرر اوسط درجے کے اور چند ایک نامناسب ہوئے ۔ وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا کے لئے سمجھوتا کرنا پڑا۔ پنجاب کے لئے وزیراعلیٰ منتخب کرتے ہوئے کن باتوں کا خیال رکھا گیا، اس کے بارے میں ابھی تک کوئی نہیں سمجھ پایا۔ وزیراعلیٰ پنجاب سے ملنے کا اتفاق نہیں ہوا، مگرسینئر ایڈیٹروں سے ان کی ایک ملاقات ہوچکی ، ہمارے سینئر ساتھیوں نے عثمان بزدار کے بارے میں منفی تاثر نہیں دیا۔ ان کو جاننے والے اکثر لوگوں کا یہی کہنا ہے کہ ایک شریف، معقول آدمی ہیں اور اتنے کمزور بھی نہیں جتنا تصور کیا جا رہا ہے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ ڈی جی خان کے ایک صحافی دوست نے گپ شپ میں بتایا کہ وزیراعلیٰ کی اہلیہ اپنے شہر کے کالج میں پڑھاتی تھیں۔بزدار صاحب نے پہلے تو بیگم سے استعفے کا مطالبہ کیا ، ظاہر ہے خاتون خانہ پریشان ہوئی ہوں گی کہ وزیراعلیٰ آپ بنیں اور نوکری میں چھوڑ دوں۔ شنید ہے کہ پھر طویل رخصت کا حل نکالا گیا۔ عثمان بزدار کے ایک بھائی کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ پولیس میں ملازم تھا،بڑے بھائی نے غریب کی نوکری ختم کرا دی، ایک اور کزن سے بھی یہی مطالبہ کیا، وہ سرکاری ملازمت میں تھا۔ اسے کہا کہ عمران خان کا یہی ویژن ہے ، سرکاری ملازمت رکھو یا مجھ سے تعلق۔ اس نے کہا کہ آپ کی نوکری کچی اور میری ملازمت پکی ہے، اپنی وزارت اعلیٰ آپ چلائیں، ہم اس دوران آپ سے کوئی تعلق ہی نہیں رکھیں گے۔ معلوم نہیں کہ صحافی دوست کی یہ حکایت کس حد تک درست ہے ، مگر سن کر اچھا لگا۔ اگر اس طرح کا رویہ روا رکھا گیا تو پھر یقیناً اس کے اثرات بھی سامنے آ ئیں گے۔ عثمان بزدار کو بہرحال اپنی سلیکشن ابھی درست ثابت کرنا ہے۔ قبضہ مافیا کے اعلان کا انہوں نے جرات مندانہ اعلان کیا ہے۔ اس پر اگر وہ بھرپور طریقے سے عمل درآمد کرا دیتے ہیں تو پھر عوامی حمایت اورتائید انہیں حاصل ہوجائے گی۔ زلفی بخاری کا تقرر ابھی تک سمجھ نہیں آ سکا۔ ایک شخص جس کا نام ای سی ایل میں ہے، نیب تحقیقات کر رہی ہے، اس کو اوورسیز کا مشیر بنا دیاجانا حیرت انگیز امر ہے۔خبر آئی کہ ملیکہ بخاری نامی خاتون کو بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام کا سربراہ بنایا گیا۔ سوشل میڈیا پر کسی نے یہ بے پر کی چلا دی کہ ملیکہ بخاری زلفی بخاری کی بہن ہیں۔ یہ خبر جھوٹی ثابت ہوئی، یہ بھی جھوٹ نکلا کہ بشریٰ بی بی کی بیٹی کو ویمن امپاورمنٹ کا مشیر بنایا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر اینٹی تحریک انصاف میڈیا سیل مسلسل فتنہ انگیز خبریں چلا رہے ہیں۔یہ ابھی پتہ چل نہیں سکا کہ ملیکہ بخاری کو کن خدمات کے باعث یہ عہدہ دینے کا سوچا جا رہا ہے۔ ویسے تو اس سیٹ کے لئے خاتون کا بنانا بھی لازمی نہیں۔ پیپلزپارٹی نے فرزانہ راجہ اور ن لیگ نے ماروی میمن کو نوازا تھا۔ اس سیٹ کے لئے کسی ممتاز سماجی شخصیت کو بھی لگایا جا سکتا ہے، اخوت کے ڈاکٹرا مجد ثاقب، الخدمت کے عبدالشکور صاحب یا ڈاکٹر آصف جاہ جیسا کوئی۔ ایسا شخص جسے سماجی خدمت کے میدان میں تجربہ اور اس کی کریڈیبلٹی ثابت شدہ ہو۔ایسی کوئی بھی تقریری تحریک انصاف کی ساکھ دو بالا کر دے گی۔ دلچسپ بات ہے کہ تحریک انصاف کے اسی کنفیوزڈ تاثر کے ساتھ ساتھ بعض نہایت خوشگوار، اچھے اشاریے بھی مل رہے ہیں۔ مثال کے طور پر خاصے عرصے بعد یہ پہلی حکومت ایسی آئی ہے، جسے ہر کوئی دل کھول کر مشورے دے رہا ہے ۔ اتنے مشورے کہ اگر کوئی حساب لگانا چاہیے تو ایک عدد ضخیم انسائیکلو پیڈیا تیار ہوجائے۔ وجہ یہی ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف کے مخالفین بھی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حکومت کچھ بھی کر سکتی ہے، کوئی اچھی، مثبت تجویز اگر ان کی سمجھ میں آ گئی تو یہ اس پر عمل درآمد کر ڈالیں گے۔ سادگی مہم کے اچھے اثرات نکلے۔ گورنر ہائوسز کھولنا بھی اچھا اقدام ہے۔ طویل عرصے سے اقتدار کے ان ایوانوں کی دہشت ، ہیبت عوام پر جمی تھی، یہ عوامی حکومت ہے، تبدیلی کے مینڈیٹ پر آئی، اس نے لوگوں کے ساتھ فاصلہ کم کیا اور رعب ودبدبہ ختم ہونے کی پروا نہیں کی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اخبارنویسوں کو اب خاصی محنت کر کے اعتراض کرنے پڑ رہے ہیں۔ پہلے جتنی آسانی سے چیزیں نظر آ جاتی تھیں، اب ویسے نہیں ہو رہا۔یہ حکومت کی کامیابی ہے۔ دو تین چیزیں تو صاف نظر آ رہی ہیں۔حکومت سادگی کو اپنا شعار بنانا چاہ رہی ہے، اپنے اللوں تللوں پر خرچ کم کر کے پیسہ بچانا چاہتی ہے۔ وزیراعظم کی پارٹی اور اراکین اسمبلی پر ابھی تک مضبوط گرفت نظر آ رہی ہے۔ ہمارے سیاست دان اور ارکان اسمبلی کروڑوں روپے خرچ کر کے سیاست اس لئے نہیں کرتے کہ ان کا پروٹوکول ختم ہوجائے یا اختیارات اور وسائل محدود ہوجائیں۔ اب ان بچاروں کو اپنے ہاتھوں یہ سب کام کرنا پڑ رہے ہیں۔ اراکین اسمبلی نجی محفلوں میں منہ بنانے اور بڑبڑانا شروع ہوگئے ہیں کہ نجانے یہ کیسے حکومت کی جا رہی ہے۔ بہت سوں کو شکوہ ہے کہ اب ہم پٹواریوں ، ایس ایچ اوز کے تبادلے بھی نہ کرا سکے تو پھر رکن اسمبلی بننے کا فائدہ ؟پنجاب کے آئی جی کے عہدے پر پہلی بار ایک مکمل طور پر غیر سیاسی، پروفیشنل افسر کو لگایا گیا ہے، جن کی ساکھ اچھی ہے۔ ناصر درانی پولیس اصلاحات لانے میں جتے ہوئے ہیں،قوی امکانات ہیں کہ کے پی کی طرز پر پنجاب میں بھی غیر سیاسی بنیادوں پر میرٹ پر تقرریاں ہوں گی اور ڈی پی او جانے کے بعد وزرا اور مقامی ارکان اسمبلی کو اس کا علم ہوگا، ورنہ پہلے تو ہر کوئی اپنی مرضی کی تقرریاں کراتا تھا۔ نہایت خوشگوار امر یہ ہے کہ ہمارے بعض صحافی دوستوں اور ماہرین کا خیال تھا کہ عمران خان سعودیوں ، چینیوں اور دیگر دوست ممالک سے قریبی تعلقات قائم نہیں کر پائیں گے ۔سعودی گرم جوشی تو سب نے دیکھ لی ہے، معیشت کو سنبھالنے میں سعودی امداد بڑا کردار ادا کرے گی، چینی حکام نومنتخب حکومت سے خاصا قریب آ چکے ہیں۔مجھے اس پر دلی خوشی ہے کہ پنجاب میں ایک مضبوط اور طاقتور بلدیاتی نظام آ رہا ہے، جس میں مئیر کو حقیقی اختیارات حاصل ہوں گے اور ترقیاتی فنڈز کا ایک تہائی حصہ بلدیاتی اداروں کو ملے گا۔ پنجاب کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوگا۔ کے پی کی طرح پنجاب میں بھی چھوٹی شہری اور ولیج کونسلیں بن رہی ہیں، انہیں فنڈز اگر ملے تو گلی محلے کی سطح پربہت سے کام نمٹ جائیں گے۔ یہ تحریک انصاف کا اہم کارنامہ ہوگا۔ تحریک انصاف کے اچھے کاموں کے ساتھ ، ان کی غلطیاں اور ناتجربہ کاری بھی شامل سفر ہے۔ دونوں پہلو اور دونوں طرح کے تاثر سامنے آ تے رہیں گے۔ دیانت داری کا تقاضا ہے کہ ہم کسی ایک کو پکڑ کر دوسرے کو نظرانداز نہ کریں۔