قیام پاکستان سے قبل برکی اور لودھی خاندان جالندھر کے علاقے دھوگڑی اور بستی پٹھاناں میں آباد تھے۔ بنیادی طور پر یہ خاندان پٹھان ہیں۔ ان خاندانوں کی آپس میں رشتہ داریاں تھیں، اس پٹھان قبیلے کے بیشتر لوگوں نے نیازی قبیلے کے ساتھ بھی خاندانی رشتہ داریاں قائم کر رکھی تھیں۔ نیازی قبیلے کو نیازی آف میانوالی کہا جاتا تھا۔ برکی خاندان سے عمران خان کا گہرا تعلق ہے یعنی عمران خان کی والدہ محترمہ برکی اور والد محترم نیازی تھے۔ ان خاندان کے لوگ زیادہ تر فوج اور سول سروس میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ اب بھی اس قبیلے کے بیشتر لوگ پاکستان کے مختلف محکموں میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اس قبیلے کی اب خوش قسمتی ہے کہ اس قبیلے سے تعلق رکھنے والے عمران خان پاکستان کے وزیراعظم بننے جا رہے ہیں، اس پر بجاطور پر پورا قبیلہ فخر کر سکتا ہے۔ عمران خان اپنی کتاب Pakistan A Personal History میں کہتے ہیں کہ مجھے ستر اور اسی کی دہائی میں سیاست سے قطعاً کوئی دلچسپی نہ تھی مگر بعد میں انہوں نے 22 سال قبل 1996ء میں لاہور کے اپنے آبائی گھر زمان پارک میں پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی اور اب پاکستان تحریک انصاف قومی انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل کرنے کے بعد ملک کی اکثریتی قومی جماعت بن کر ابھری ہے۔ 1977ء اور 1989ء کے اس پورے عرصے کے دوران عمران خان برطانیہ میں Sussex County Cricket Club کے لیے کرکٹ کھیلتے تھے۔ یہ کیسا اتفاق ہے کہ اسی کرکٹ کلب سے وابستہ برطانوی Ted Dexter نے 1964ء کی دہائی میں ٹوری پارٹی کے پلیٹ فارم سے برطانوی الیکشن میں حصہ لیا تھا اور James Callaghan کے خلاف الیکشن لڑا تھا اور پھر اسی طرح اسی کرکٹ کلب کے Robin Marlar نے بھی 1993ء کی دہائی میں ریفرنڈم پارٹی کے امیدوار کے طور پر برطانوی انتخابات میں حصہ لیا تھا اور اب اسی کرکٹ کلب سے وابستہ رہنے والے عمران خان اس اسلامی مملکت پاکستان کے وزیراعظم ہوں گے جوکہ ایٹمی قوت ہے۔ عمران خان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا ہے کہ انہوں نے ملکی تاریخ میں پانچ قومی حلقوں سے قومی انتخابات لڑا اور ان سب حلقوں میں برابر کامیابی حاصل کر کے ریکارڈ قائم کیا۔ قبل ازیں ذوالفقار علی بھٹو نے قومی انتخابات میں چار حلقوں سے انتخابات لڑا تھا دوسری جانب عمران خان جب وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالیں گے تو وہ دنیا میں پہلے کرکٹر ہوں گے جوکہ اس عہدے پر فائز ہوں گے۔ اس سے قبل کسی بھی بین الاقوامی کھلاڑی کے وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہونے کی کوئی مثال موجود نہیں ہے لیکن 2008ء کی ایک مثال موجود ہے کہ جب لائبیریا کے سابق فٹ بالر سٹار جارج ویہہ اپنے ملک کے صدر بنے تھے۔ عمران خان نے اپنے پہلے قومی خطاب میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے یہ دراصل نہ صرف عمران خان کی اپنے دل کی باتیں ہیں بلکہ یہ پوری قوم کے دل کی آواز ہے۔ ہرپاکستانی اس بات کا خواہاں ہے کہ ملک کے سیاسی اور معاشی حالات بہتر ہو جائیں۔ ہر کسی کو بہتر اور اچھا روزگار میسر آئے۔ توانائی کا بحران ختم ہو اور ملک کی زراعت اور صنعت ترقی کرے۔ ملکی اور غیر ملکی قرضے حاصل کرنے کی بجائے ٹیکس نیٹ کو یقینی بنایا جائے۔ غریبوں کی بجائے امیروں سے ٹیکس اکٹھا کیا جائے اور پھر غربت میں کمی آئے اور ہر کسی کو ان کی دہلیز پر انصاف ملے۔ عمران خان نے قومی انتخابات میں کامیابی کے بعد اپنے خطاب میں یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ وہ پارٹی منشور اور اپنے ترقیاتی پروگرام پر عملدرآمد کروائیں گے۔ کسی کے خلاف سیاسی انتقامی کارروائی نہیں ہوگی۔ وہ وزیراعظم ہائوس کی بجائے منسٹرز انکلیو میں رہنا پسند کریں گے اور مدینہ کی طرح فلاحی ریاست کا نظام وضع کریں گے۔ ملک میں قانون کی بالادستی قائم کریں گے، ریاستی اداروں کو مضبوط بنایا جائے گا۔ احتساب ان ہی سے شروع ہو گا اور پھر نچلی سطح تک جائے گا۔ ہر شعبے میں سادگی اختیار کی جائے گی۔ ارکان اسمبلی کے خرچے کم کردیئے جائیں گے۔ عمران خان کی تقریر ان کی سادگی اور خلوص کا بڑا واضح ثبوت ہے۔ یہ تقریر ہر حال میں پراثر اور مخلص رہنما کی تقریر تھی۔ اس میں فطری پن اور بے ساختگی تھی۔ اس کا اثر یقینا ہو گا اور قومی اداروں پر قوم کا اعتماد بحال ہوگا۔ اب اصل کام یہ ہے کہ لوگوں کو تعلیم اور ہنر دیا جائے۔ ماضی میں خیبرپختونخوا کرپٹ ترین صوبہ ہوا کرتا تھا، اب اس صوبے کو عمران خان نے اس دلدل سے نکالا اور مثالی صوبہ بنا دیا ہے۔ اب یقینا پنجاب کو بھی مثالی صوبہ بنایا جائے گا۔ ذرا اس تبدیلی پر بھی نظر دوڑائیں کہ آج پاکستاان کی سیاست میں گیلانی، عباسی، طلال، لغاری، عابد شیر، سعد رفیق، چودھری نثار، رانا افضل، سائرہ افضل تارڑ اور پھر خود شہباز کہاں کھڑے ہیں اور پھر کس طرح پاکستانی سیاست کے بڑے بڑے برج جن میں مولانا فضل الرحمن، اسفند یار ولی، سراج الحق، محمود خان اچکزئی، فاروق ستار، مصطفی کمال، قمرالزمان کائرہ اور پھر بلاول زرداری اپنے گڑھ لیاری سے بھی شکست کھا گئے۔ اب حقیقت یہ ہے کہ عمران خان ذوالفقار علی بھٹو کے بعد مقبول ترین قومی لیڈر بن کر ابھرے ہیں۔ یہ عمران خان ہی تھے کہ جنہوں نے ہائوس آف شریف اور ہائوس آف زرداری کی کرپشن کے خلاف آواز بلند کی اور پورے ملک میں کرپشن کے خلاف رائے عامہ ہموار کر کے کرپٹ حکمرانوں کو احتسابی کٹہرے میں لا کھڑا کیا اور پھر 2016ء میں سامنے آنے والا پانامہ لیکس ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا اور پھر میاں نوازشریف کو سزا ہوئی۔ ماضی میں پاکستان کی سیاست میں عمران خان کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا تھا لیکن اب وہ ہی طاقتور وزیراعظم بن کر ابھر رہا ہے۔ عمران خان میں فائٹر والی خوبی موجود ہے جوکہ کسی بھی مقبول قومی لیڈر میں ہوتی ہے۔ وہ انتہائی سخت فیصلے کرنے کی بھرپور صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ عمران خان اپنی زندگی کی ا نتہائی مشکل ترین اننگز کا آغاز کر چکے ہیں جس کی وجہ سے بے شمار لیڈروں کا زوال شروع ہوا ہے جس کا یقینا ردعمل آئے گا۔ مولانا فضل الرحمن اور میاں شہبازشریف کی آل پارٹی کانفرنس اسی سلسلے کی کڑی ہے لیکن عمران خان کو اب ماضی میں دیکھنے کی بجائے آگے بڑھنا ہوگا اور ملک کے قومی اداروں کو ساتھ لے کر احتسابی عمل کو ہرحال میں جاری رکھنا ہوگا۔ عمران خان کا خود احتساب اب 26 جولائی سے شروع ہو چکا ہے۔ ان کی تقریر نہ صرف ملک کے اندر بلکہ بیرون ملک بھی سراہی جا رہی ہے۔ عمران خان سے نوجوان طبقے کی امیدیں وابستہ ہیں۔ امید کی ایک کرن پیدا ہوئی ہے کیا یہ تبدیلی نہیں کہ آج پشاور میں غلام احمد بلور جیسی شخصیت بھی اپنی شکست تسلیم کر کے عمران خان کو خراج تحسین پیش کر رہی ہے۔ یقینا عمران خان 2018ء کے قومی انتخابات کا فاتح ٹھہرا مگر ان حالات میں غلام احمد بلور بھی ان انتخابات کے ہیرو ہیں جوکہ ان قومی انتخابات کے نتائج کوتسلیم کر رہے ہیں۔ دوسری جانب میاں شہبازشریف اور مولانا فضل الرحمن کی عجیب کیفیت ہے۔ ایک طرف دھاندلی، دھاندلی کا شور مچا رکھا ہے اور دوسری طرف مولانا فضل الرحمن کا حلف نہ اٹھانے کا اعلان، حالانکہ مولانا فضل الرحمن خود پارلیمنٹ سے باہر ہو چکے ہیں تو پھر حلف کس بات کا؟ میاں شہبازشریف کے مسلسل بدلتے ہوئے بیانات ان کی کھلی بوکھلاہٹ کا منہ ثبولتا ثبوت ہیں۔ ان کے ولی عہد حمزہ شریف کچھ اور بول رہے ہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اب پاکستانی سیاست میں میاں نوازشریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن کے علاوہ اسفند یارولی کی سیاست کا باب ختم ہوا چاہتا ہے۔ ان لوگوں نے جو کرنا تھا وہ کردار اب قومی زندگی میں ادا ہو چکا۔ ان کی کرپشن اور مک مکا کی سیاست ہر طرح سے بے نقاب ہو چکی ہے۔ نوجوانوں نے عمران خان پر بھرپور اعتماد کیا ہے۔ اب قوم کو نہ تو ہائوس آف شریف اور نہ ہی ہائوس آف زرداری کے علاوہ مولانا فضل الرحمن کی ضرورت ہے۔ اب ضرورت ہے تو صرف اور صرف عمران خان کی ہے۔ اب انقلاب آئے نہ آئے کم از کم قوم کو ایک دیانت دار لیڈر تو مل گیا ہے۔ یہ ہی پاکستان کی سیاست میں تبدیلی ہے۔ مان جائیے کہ اب پاکستان تحریک انصاف پاکستان واحد پارٹی ہے جوکہ وفاقی اور قومی پارٹی بن کر ابھری ہے۔ چاروں صوبوں میں اس کی نمائندگی ہے۔ اب ماضی کو بھول کر معاشرے میں محبت اور یگانگت کی فضا کو پروان چڑھنے دیں۔ وطن عزیز کی خدمت اور کرپشن کے مکمل خاتمے کے لیے کمر کس لیں اور پھر دعا کریں کہ عمران خان کو اللہ تعالیٰ کامیابیوں سے ہمکنار کرے۔ آمین۔