اگلے دس سالوں میں یعنی سن چھیاسی سے ستانوے تک مہاتیر محمد نے کاروباری پابندیوں کو کم کیا اور سرمایہ کاری میں سہولت کی نئی معاشی پالیسی اختیار کی جس کا ایک قدم 1975 ء کا انڈسٹریل کوآرڈینیشن ایکٹ تھا جو ترمیم کے بعد 1986ء میںنافذ کیا گیا جس سے صنعتوں کو فروغ ملا یہی نہیں بلکہ سرمایہ کاروں کے اعتماد کے حصول اورانہیں سرمایہ کاری میں سہولت اور تحفظ کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے پروموشن آف انویسٹمنٹ ایکٹ لایا گیا جس نے ان صنعتوں کی حوصلہ افزائی کی جو برآمداتی مصنوعات تیار کریں۔اس ایکٹ نے جس میں برآمداتی صنعتوں کے لئے ٹیکس سے چھوٹ بنیادی نکتہ تھا جس کے تحت اگر کسی کمپنی کو بانی کمپنی کا درجہ مل جاتا تو وہ اگلے دس سالوں کے لئے ستر سے سو فیصد تک ٹیکس سے مستثنیٰ ہوسکتی تھی۔اس نے صنعتکاروں کو ملک میں سرمایہ لگانے کی ترغیب دی اور نہ صرف پیداوار میں آسانی پیدا کی بلکہ انہیں ٹیکنالوجی کے حصول اور اس میں اضافے کی ترغیب اور اس کے حصول میں سہولت بھی مہیا کی ۔اس کا لازمی نتیجہ ملک میں صنعتوں کا فروغ اور کاریگروں کی مہارت میں اضافے کی صورت میں نکلا۔ مہاتیر محمد کے اس قدم کا رخ بھی آسیان کی طرف تھا یعنی انظر الی الشرق یا لک ایسٹ پالیسی۔مغرب کو اس پہ بجا طور پہ تشویش تھی لہٰذا جی سیون ممالک نے پلازہ ایکٹ کے تحت ڈالر کے مقابلے میں جاپانی ین کی قیمت بڑھا دی جس سے جاپان کے قرضے پہ انحصار کرنے والے ملائیشیا کے قرضے دوگنے ہوگئے اور جواباً اس کے مرکزی بینک کو ملائیشین رنگٹ کی قیمت کم کرنی پڑی جس سے معیشت کو کچھ سہارا ملا۔جاپانی ین کی قیمت میںاضافے سے جاپان، تائیوان اور جنوبی کوریا کے صنعتکاروں نے جنوب مشرقی ایشیاکا رخ کیا جس کافائدہ ملائیشیا کو بھی ہوا اور براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا جو اسی وقت تھما جب ستانوے کا ایشیائی معاشی بحران آیا یا لایا گیا۔ستانوے کے معاشی بحران میں ملائیشیا واحد متاثرہ ملک تھا جس نے آئی ایم ایف کا پروگرام لینے سے انکار کیا اور ان ملکوں کے مقابلے میں جلد بحران سے نکل آیا جو آئی ایم ایف کے بچھائے جال میں پھنس چکے تھے ۔مہاتیر محمد کا نیشنل اکنامک ریکوری پلان بڑا بنیادی ہے۔اس میں انور ابراہیم کی سادگی مہم کے برخلاف حکومتی اخراجات میں ایسا اضافہ جو معاشی سرگرمی کا سبب بنے،معیشت پہ ریاست کا سخت کنٹرول اور زرمبادلہ کے ذخائر کی کڑی جانچ پڑتال اور صنعتی سیکٹرکے لئے مالیاتی پیکج شامل تھے۔مہاتیر نے اس بحران سے نمٹنے کے لئے دو انقلابی اقدامات کئے۔ ایک ملکی سرمایہ باہر جانے سے روکنے کے لئے اقدامات۔دوسرا ڈالر کے مقابلے میں رنگٹ کی قیمت مستحکم رکھناتاکہ ہر قسم کے حالات میں سرمایہ کاروں کاا عتماد بحال رہے۔بحران در بحران میں مہاتیر محمد کے بظاہر متضاد اقدامات میں دو باتیں واضح نظر آتی ہیں۔ ایک انظر الی الشرق پالیسی اور مغرب سے اجتناب جس کے مالیاتی ادارے آپ کو قرض تو دیتے ہیں لیکن جو سرمایہ کاری نہیں کرتاتاکہ ڈالر آپ کے زرمبادلہ میں اضافہ نہ کرے۔ یہ صورتحال کسی بھی ملک کو دوسرے ممالک کے ساتھ اجارہ دار ڈالر میں تجارت پہ مجبور کرتی ہے۔چین نے اس صورتحال کو بدلا اور یوان میں تجارت کرکے ڈالر کو دھچکا پہنچانے کی کوشش کی لیکن ایک کرنسی کی اجارہ داری سے نکل کر دوسری کرنسی کی اجارہ داری میں جینا کونسی دانش مندی ہے ۔اس صورتحال کا ادراک مہاتیر محمد کو ہے جو اپنی تیس سال قبل اختیار کی گئی لک ایسٹ پالیسی کو ایک بار پھر اپنانا چاہتے ہیں۔ آسیان ممالک میں ملائیشیا چین کا سب سے بڑا تجارتی شراکت کار ہے ۔گزشتہ سال یہ تجارتی حجم اٹھائیس فیصد اضافے کے ساتھ 140 بلین رنگٹ رہا ہے۔مہاتیر محمد چین اور امریکہ کی تجارتی جنگ میں لزرہ براندام امریکی معیشت کے مقابلے میں ابھرتے ہوئے چین کی پلڑے میں اپنا وزن رکھنے کا واضح عندیہ دے چکے ہیں ۔اس کے باوجود وہ مکمل طور پہ چین کی بالادستی قبول کرنے کو تیار نہیں ۔ وہ اپنی لک ایسٹ پالیسی پہ اپنے ملک کے مفادات کے مطابق اس حد تک عمل پیرا ہیں کہ انہوں نے چین کی روز افزوں معیشت کے مقابلے میں جاپان کو اس کی نسبتا کمزور معیشت کے باوجود ترجیح دی جو امریکہ کا سیاسی اتحادی ہے ۔انہوں نے ساوتھ چائنا مارننگ پوسٹ کو اپنے خصوصی انٹرویو میں کہا کہ جب چین غربت کا شکار تھا ، ہم اس سے تب بھی خوفزدہ تھے اب جبکہ وہ امیر ہوچکا ہے، ہم اس سے اب بھی ڈرے ہوئے ہیں۔ہمیں چین کے ساتھ معاملات نبٹانے کے لئے راستے نکالنے ہونگے۔ یہی وہ آزاد پالیسی ہے جس کی وجہ سے ملائیشیا نے چین کے ساتھ بیس بلین ڈالر کا ریلوے پروجیکٹ منسوخ کردیا ہے اگرچہ یہ ملائیشیا کے لئے مرکزی حیثیت کا منصوبہ تھا لیکن اسکے اخراجات حد سے بڑھ گئے تھے اور اس کا صرف سالانہ سود ہی 120 ملین ڈالر ہوگیا تھا لہٰذا نجیب رزاق کے دور میں کیا گیا یہ معاہدہ منسوخ کردیا گیا۔اس کے علاوہ مشرقی صوبے صباح میں بھی چین کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبہ لپیٹ دیا گیا ہے۔ منصوبوں کی اس منسوخی کے باوجود ملائیشیا نے چین کو مثبت پیغامات دیے ہیں اور ان کی تنسیخ کو تعلقات میں تلخی کا باعث نہیں بننے دیا گیا ۔بات صاف اور دو ٹوک کی گئی ہے کہ چین کے ساتھ سرمایہ کاری کے معاملات سیاسی نہیں کاروباری بنیادوں پہ ہونگے اور ہر منصوبے کی شفافیت اور افادیت کو انفرادی سطح پہ پرکھا جائے گا۔ یعنی کیا ملائیشیا کو بھی اس کی ضرورت ہے؟ اور کیا ملائیشیا اس کا بوجھ اٹھا سکتا ہے؟اس میں برا ماننے والی کوئی بات نہیں ہے۔دوسری طرف ہم نے اگر مغرب کی طرف رخ کر ہی لیا تھا توہاتھ میں کشکول ہی تھامے رکھا۔ مغرب سے ہماری تجارت کا حجم نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ ان کے قرضوں میں ہم جکڑے ہوئے ہیں۔سی پیک نے صورتحال کو بس اتنا بدلا ہے کہ ہماری کل سرمایہ کاری کا مرکز چین بن گیا ہے جو کوئی خوش آئند بات نہیں ہے یعنی پاکستان کو وصول براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کا پچپن فیصد چین کے پاس ہے۔ اس صورتحال کا ادراک عمران خان کو ہے اس لئے وہ انظر الشرق پالیسی اختیار کرکے دیگر مشرقی ممالک کے ساتھ تجارتی معاہدے کررہے ہیں اور فی الحال ان کی سرگرمیوں کا قبلہ مشرق ہی ہے۔پاکستان ملائیشیا کے ذریعے دیگر آسیان ممالک کی 3ٹریلین کی مارکیٹ تک رسائی چاہتا ہے اور بدلے میں اسے وسط ایشیا کی تجارتی منڈیوں تک رسائی دینے کا خواہشمند ہے۔ یہ پاکستان کے لئے انقلابی وژن ثابت ہوسکتا ہے جبکہ عمران خان کے معاشی آئیڈیل مہاتیر محمد اس کی کامیاب مثال ہیں جو انہیں آئی ایم ایف سے دور رہنے کا مشورہ بھی دے چکے ہیں ۔(ختم شد)