عمران خان کی حکومت کو دو سال ہوگئے۔ میڈیا میں دو برسوں کے حوالے سے تجزیے پیش کئے جارہے ہیں۔ تیز دھار رپورٹراور اینکرحضرات اپنی چھریاں، چاقو تیز کئے خان صاحب کے وزیراعظم بننے سے پہلے کے بلند وبانگ دعوئوں اور دو سالہ کارکردگی کا موازنہ کررہے ہیں۔ میڈیا کو اس کا پورا حق حاصل ہے۔ سیاستدان وعدے کر کے اقتدار میں آتے ہیں، اگر ان پر پورا نہ اتریں تو محاسبہ کرنا جائز اور منطقی ہے۔ عمران خان جیسے بڑبولے اور بغیر سوچے سمجھے بیان داغ دینے والے سیاستدا ن کے لئے مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ اگلے روز ایک صحافی دوست سے بات ہورہی تھی۔ عمران خان کے وہ حامی ہیں، مگر آج کل خان صاحب کے دفاع سے گریز ہی فرماتے ہیں۔ زچ ہو کرکہنے لگے ، ’’مصیبت یہ ہے کہ خان صاحب نے دھرنے کے دنوں میں دنیا کے ہر موضوع پر کچھ نہ کچھ کہہ ڈالا ہے۔ بندہ کوئی چیز چھوڑ بھی دے،انہوں نے تو زمین اور آسمان کے درمیان موجود ہر شے پر تبصرہ کیا اور اسے بدلنے کا دعویٰ کر ڈالا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ایشو پرعمران خان کی کا کوئی نہ کوئی پرانا ویڈیو کلپ مل جاتا ہے۔‘‘ عمران خان کا دوسالہ دور حکومت مجموعی طور پر ناکامیوں سے عبارت ہے۔ وجوہات جو بھی ہوں، ان کے خواہ کس قدر عذر پیش کئے جائیں، عملی طور پر یہ ناکامیاں ہی ہیں۔عین ممکن ہے کہ ان کی حکومت نے دو چار کامیابیاں بھی حاصل کی ہوں۔ اصولی طور پر ہمیں اس مفروضے کو رد نہیںکرنا چاہیے۔ بدقسمتی سے میرے پاس اس وقت کوئی حکومتی پریس ریلیز موجود نہیں، ورنہ دیکھ کر ضرور بتاتا۔موجودہ حکومت کی میڈیا مینجمنٹ قابل رشک نہیں ، مگرحالات اب اتنے برے بھی نہیں۔ حکومتی پریس ریلیزوں کو پڑھتے ہوئے واقعی یہ لگتا ہے کہ دو برسوں میں نجانے کیا کیاکچھ کر ڈالا ہے۔آدمی دم بخود ہو کر سوچتا ہے کہ جب یہ معجزے ہو رہے تھے تو نجانے ہم کہاں چلے گئے تھے؟ عمران خان کی ناکامیوں پر بہت باتیں ہوتی رہی ہیں، ان میں کیا نیا اضافہ کرنا۔ دو چار پوائنٹس البتہ ایسے ہیں جو ہمیں عمران خان کی ناکامی سے سیکھنے چاہئیں۔ان پر مختصرا ً بات کرتے ہیں۔ تجربے کی غیر معمولی اہمیت ہے یہ وہ نکتہ ہے جس کا ادراک عمران خان کی حمایت کرنے والوں کو پہلے نہیں ہوا تھا۔ عمران خان کو گورننس کا بالکل تجربہ نہیں تھا۔ جو دو تین کامیاب پراجیکٹ ان کے کریڈٹ میں گنوائے جاتے ہیں، شوکت خانم ہسپتال، نمل یونیورسٹی وغیرہ ۔ ان سب میں انتظامی معاملات دوسرے لوگوں نے نبھائے اور خان صاحب نے صرف عطیات جمع کئے یا پھر اپنی نیک نامی سے پراجیکٹس کو اخلاقی قوت فراہم کی۔ عمران خان نے البتہ ایک بڑا کام کیا کہ ان پراجیکٹس میں بالکل مداخلت نہیں کی،ان کے سسٹم کا احترام کیا اور اسے فول پروف ہی رہنے دیا۔ یہی انہوں نے خیبر پختون خوا کی صوبائی حکومت میں کیا۔ ایک اچھے پولیس افسر کو آئی جی مقرر کیا اور اسے یقین دہانی کرائی کہ تمہارے کام میں کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔ پھر واقعی مداخلت نہیں ہوئی ۔ یوں ناصر درانی اچھے نتائج دینے میں کامیاب رہے۔ حکومت سازی اور حکومتی معاملات کا تجربہ ہونا بہت اہم ہے۔ عمران خان کی غلطیوں میں بہت بڑا حصہ ناتجربہ کاری کا ہے۔ ابتدائی چند ماہ جن میںاہم فیصلے اور بڑے اقدامات کئے جاسکتے تھے، وہ قیمتی وقت خان صاحب اسی وجہ سے ضائع کر بیٹھے۔ سبق یہ حاصل ہوا کہ لیڈر خواہ کتنا ہی کرشماتی نظر آئے ، اگر وہ تجربہ کار نہیں تواس کے کارکنوں، حامیوں اور ووٹروں کو محتاط رہنا چاہیے۔ بڑے دعوے ۔ بڑی شرمندگی ہمارے جیسے ممالک میں لیڈر بڑے بڑے دعوے کر کے آگے بڑھتے ہیں۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، افغانستان جیسے ممالک میں پرجوش ، جذباتی تقریریں اور عوام کی تقدیر بدل دینے جیسے جملے بہت پسند کئے جاتے ہیں۔ لیڈروں کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ ہر وعدے اور دعوے کو کبھی نہ کبھی سچ ثابت کرنے کا وقت آ جاتا ہے۔ تب ان کے ہاتھ صرف شرمندگی ہی آئے گی۔عوام کے لئے یہ سبق ہے کہ دعوے کرنے والے لیڈروں کو شک کی نظر سے دیکھیں اور اس کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کرتے رہیں۔ اچھی ٹیم بہت ضروری ہے خان صاحب کی تباہی میں سب سے بڑا حصہ ان کی بری ٹیم کا ہے۔ لیڈر کے لئے بہترین ٹیم بنانا سب سے اہم ہے۔ عمران خان اپوزیشن کے دور میں ایک جملہ دہرایا کرتے تھے : رائٹ پرسن فار دی رائٹ جاب ۔افسوس کہ انہوں نے اقتدار میں آ کر اس فقرے کو فراموش کر دیا۔ نتائج ان کے سامنے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو جب وزیراعظم بنیں تو وہ بھی ناتجربہ کار تھیں۔ ان سے غلطیاں ہوئیں، مگر ان کے ساتھ پیپلزپارٹی کے کچھ پرانے لوگ شامل تھے، کارکنوں میں جذبہ بھی تھا، اس لئے ویسی مایوسی نہیں ہوئی۔ اگر اسٹیبلشمنٹ اس وقت پیپلزپارٹی سے جان چھڑانے کے لئے اتاولی نہ ہورہی ہوتی توجناب زرداری کے کرشموں کے باوجود وہ اپنی مدت مکمل کر جاتیں۔ میاں نواز شریف وزیراعظم بنے تو ان کے پاس پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تجربہ موجود تھا، قومی سطح پر اگرچہ وہ ناتجربہ کار تھے۔ انہیں دو تین ایڈوانٹیج ملے، ایک تو انورزاہد جیسے اہل اور ایماندار پرنسپل سیکریٹری، اپنے والدمیاں شریف جیسے گرم سرد چشیدہ شخص کی معاملہ فہمی اور اینٹی بھٹو جذبات رکھنے والے حلقوں کی غیر مشروط سپورٹ۔ رائیٹ ونگ کی نظریاتی قوت ان کے ساتھ کھڑی رہی ۔ جماعت اسلامی کو ان کے ساتھ چلنے کا نقصان یہ ہوا کہ اس کا کچھ فیصد ووٹ بینک واپس ہی نہیں آیا۔ عمران خان اور تحریک انصاف کی بنت ایک خاص سطح پرنظریاتی تھی، مگر خان صاحب اس نظریاتی قوت کو استعمال نہیں کر پائے۔ ان کے ساتھیوں میں کون ہے جس کا کسی قسم کے نظریے سے تعلق باقی رہ گیا؟اس میں سبق ہم سب کے لئے موجود ہے ،اپنے اپنے حساب سے اخذ کر لیجئے۔ ’’ایک صفحہ‘‘ کامیابی کی دلیل نہیں میاں نواز شریف کے خلاف ایک دلیل دی جاتی تھی اور اس وقت وہ خاصی وزنی لگتی تھی ۔ کہا جاتا تھا کہ اپنی افتاد طبع اور مزاج کے باعث وہ ہر بار اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکرا جاتے ہیں، جس کا نقصان گورننس کو پہنچتا ہے۔ اس وقت یہ خیال تھا کہ اگر کبھی سول ملٹری ’’ایک ہی صفحے‘‘ پر ہوں تو زیادہ یکسو ہو کر، موثر انداز میں آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ پچھلے چالیس برسوں میں فوجی ڈکٹیٹروں کا دور چھوڑ کر موجودہ دور جیسی یگانگت، یکسوئی اور ایک صفحے پر کھڑے ہونے کاحقیقی عزم کبھی نظر نہیں آیا۔ اس کے مطلوبہ نتائج کیوں نہیں ا ٓرہے؟ اس لئے کہ صرف اس ایک فیکٹر سے کچھ زیادہ حاصل نہیں ہوسکتا۔ البتہ اگر ایسا نہ ہوتا تو یقینی طور پر خان صاحب کی حکومت اب تک گر چکی ہوتی۔ لیڈر کے لئے روزنِ دیوار اہم ہے اقتدار میں آنے کے بعد ہر لیڈر کے چاروں طرف ایک گھیرا سا ڈال دیا جاتا ہے۔بہت سے خوشامدی،موقعہ شناس ، موقعہ پرست لوگ اکٹھے ہوجاتے ہیں ۔لیڈربھی ان کی آنکھوں سے دیکھنے اور کانوں سے سننے لگتا ہے۔ تب اسے تعمیری تنقید بھی بری اور اپنی شان کے منافی لگتی ہے۔ میڈیا میںوہ اپنے چند پسندیدہ لوگوں سے ملتا ہے، تاکہ کچھ ناگوار، تلخ سننے کو نہ ملے۔ یہ سب سے خطرناک صورتحال ہے۔ سمجھدار لیڈر اپنے ارد گرد بنائی جانے والی دیوار میں کہیں نہ کہیں کوئی روزن، سوراخ ایسا رکھتے ہیں جس سے تازہ ہوا آئے اوروہ باہر جھانک بھی سکیں۔ جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں جب چودھری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ پنجاب تھے، تو ہمارے ایک صحافی دوست ان کے میڈیا سیل میں شامل تھے۔ایک دن وہ بتانے لگے کہ ہمارا سیل چودھری صاحب کو روزانہ مختلف اخبارات سے اہم خبروں، کالموں کی سمری بنا کر دیتا ہے۔ یا در ہے کہ ہر وزیراعلیٰ کو سرکاری طور پر بھی ایسی سمری متعلقہ سرکاری محکمہ بنا کر پیش کرتا ہے، مگر چودھری صاحبان نے یہ میڈیا سیل نجی سطح پر بنا رکھا تھا تاکہ دوسرا نقطہ نظر بھی سامنے آئے۔ وہ دوست بتانے لگے کہ چودھری صاحب کے بقول وہ اپنے گھرآنے والے ایک دو اخبارات جن کا جھکائو اپوزیشن کی طرف تھا، انہیںپہلے سے پڑھ کر دفتر آتے تھے تاکہ آزادانہ رائے بنا سکیں۔ بتانے کا مقصد یہ تھا کہ عمران خان کے پاس ایسے کسی روزنِ دیوار کی شدید کمی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہیں حقیقت حال کا اندازہ نہیں یا وہ خود ہی اصل تصویر دیکھنا نہیں چاہتے۔ تنقید سننے کی عادت ڈالنا پڑتی ہے۔ کسی عام دفتر کاباس بھی اختلاف رائے کا عادی نہ ہو تو ماتحت عملہ اسے ہرگز منفی رائے نہیں دیتا۔ہاں میں ہاں ملائی جاتی ہے، چاہے بعد میںاس کا ہر منصوبہ خوفناک ناکامی سے دوچار ہو۔ عمران خان اس وقت ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہیں۔اپنے پرانے حامیوں سے کٹے ہوئے، سب سے الگ تھلگ، ایک گنبد بے در میں مقید۔ کالم لکھتے ہوئے خیال آیا کہ یہ تو وہ باتیں ہیں جو کسی نہ کسی انداز میں کہی اورلکھی جا رہی ہیں۔ عمران خان کی ناکامی ہمیں بطور قوم ایسے سبق بھی سکھاتی ہے جن کی طرف ہماری توجہ نہیں جا رہی یا ہم دانستہ انہیں سمجھنا نہیں چاہ رہے۔اللہ نے چاہا تو اس پر اگلی نشست میں بات کریں گے۔