ایران کے ساتھ ہم نے اپنے معاملات بیرونی دباؤ یا خوامخواہ کے اخلاقی دباؤ کے باعث خراب کئے ۔ اس سلسلے میں ایران نے بھی کوئی مروت دکھائی نہ لحاظ کیا۔خواہ وہ سرحدی تنازعات ہوں یا ہمارے جوہری پروگرام کا حساس معاملہ ہو۔ میں ایران کی مشرق وسطی کی پالیسیوں کی شدید ناقد ہوں لیکن پاکستان مشرق وسطی میں فریق نہیں ہے اور نہ ہی اسے ہونے کی ضرورت ہے۔ مشرق وسطی میں ہماری دلچسپی کا موضوع مسئلہ فلسطین ہے اور اس پہ پاکستان اب تک اصولی طور پہ ڈٹا ہوا ہے اور اس میں تبدیلی کے اب تک کوئی آثار نہیں۔ مشرق وسطی سے اسی لاتعلقی کی پالیسی کے باعث پاکستان نے سعودی عرب کو یمن میں فوج بھیجنے سے انکار کیا اور اس تنازعہ کا حصہ نہ بننے کا دانشمندانہ فیصلہ کیا۔اگرچہ ہم اپنی خارجہ پالیسی کا وزن،اگر وہ کچھ تھا، تو ایران کے مقابلے میں سعودی عرب کے پلڑے میں ڈالتے رہے جس کی بالکل واضح وجوہات تھیں۔ایک سعودی عرب کی غیر مشروط امداد۔ دوسرا امریکی دبا ؤ جس کے تحت ہم نے اپنا شاید ہی کوئی فیصلہ آزادانہ طور پہ کیا ہو۔ اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کہ ہم نے اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہی امداد پہ رکھی تھی۔ایسی خارجہ پالیسیاں کسی بھی ملک کو معاشی خود داری اور خود انحصاری کی راہ پہ نہیں ڈال سکتیں۔بدقسمتی سے پاکستان نے روایتی طور پہ عالمی تنازعات میں ہمیشہ اصولی موقف اختیار کیا لیکن اپنے اندرونی معاملات ، بالخصوص معاشی معاملات طے کرنے میں بری طرح ناکام رہا۔ ہم اپنے دوستوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے رہے اور دشمنوں کے سامنے بڑھکیں مارتے رہے۔ہمارے حکمرانوں کے سامنے کوئی مستقل معاشی پالیسی تھی نہ ہی وہ اس کی ضرورت محسوس کرتے تھے۔ مارشل لا ادوار میں ہمیں امریکی امدادملتی رہی اور جمہوری حکمرانوں نے اپنی نااہلی اور کرپشن سے ملکی معیشت کا بھٹہ بھٹا دیا۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم اپنے دوستوں کے سامنے جھولی پھیلانے اور امداد وصول کرنے کی بجائے ان کے ساتھ آزادانہ تجارت کو فروغ دیتے اور معاشی سرگرمیوں میں اضافہ کرتے جس کا موقع ہمیں ہر بار ملتا رہا لیکن تن آسانی اور خوش فعلیوں سے کسے فرصت تھی۔نہ ہم نے امریکہ کے ساتھ تجارتی حجم بڑھایا نہ چین ترکی ایران اور سعودی عرب کے ساتھ۔قطر کے ساتھ ایک ایل این جی معاہدہ کیا جو کرپشن اور من پسند کمپنی کو ٹھیکہ دینے کے نتیجے میں تعطل کا شکار ہوگیا،شاہد خاقان عباسی جس کے مرکزی ملزم ہیں۔قطر کے ساتھ نواب شاہ گوادر گیس پائپ لائن منصوبہ، قطر پہ امریکی اور خلیجی پابندیوں کے بعد امریکی دباو ٔمیں آکر منسوخ کردیا گیا اور یہ کام ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ دینے والے اس’’ عظیم‘‘ حکمران نے کیا جو آج کل اپنی بیماری کو بہانہ بنا کر مستقل ضمانت کے لئے عدلیہ میں درخواستیں دیتا پھر رہا ہے۔بہانہ منصوبے پہ اٹھنے والے گراں اخراجات کا بنایا گیا حالانکہ اسی دوران سفید ہاتھی منصوبہ عرف اورنج ٹرین پہ کام جاری تھا جس کا بھگتان نئی حکومت اور پرانی عوام بھگت رہی ہے۔اس سے قبل ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبہ بھی اسی امریکی دباؤ پہ روک دیا گیا تھا۔عمران خان نے پابندیوں میں گھرے قطر کا دورہ کیا اور اس منصوبے پہ نظر ثانی کے بعد اسے جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس سے قبل پاکستان نے قطر سے ادھار ایل این جی کی درخواست کی تھی جو قطر نے یہ کہہ کر رد کردی کہ آپ اچھے ہیں ادھار اچھا نہیں ہے۔ اس پہ تاخیری ادائیگی کی سہولت اور منصوبے کے اخراجات میں کمی پہ بات ہوئی ۔ اہم بات یہ ہے کہ قطر ی سرمایہ کاروں کونجی سیکٹر میں سرمایہ کاری کی سہولیات کااعلان کیا گیا اورپاکستان سے زرعی اجناس قطر برامد کرنے کا اعلان کیا جو ہر سال اربوں ڈالر تک ہوسکتی ہے۔اس کے علاوہ زرعی سیکٹر میں ہی قطر کو اہم انفرااسٹرکچر کے منصوبوں کے ٹھیکے دینے کی پیشکش بھی کی گئی ہے۔یہی کام عمران خان نے سعودی عرب کے ساتھ کیا اور امداد نہیں تجارت کا نعرہ بلند کیا۔ اس سے قبل خشوگی قتل کیس میں بری طرح پھنسے ہوئے سعودی عرب کے ساتھ عمران خان نے یوں اظہار یکجہتی کیا کہ ریاض میں فیوچر انویسٹمنٹ انی شیوٹیو کانفرنس، جس کاامریکہ سمیت تمام بڑے ممالک کی سرمایہ کار کمپنیوں نے بائیکاٹ کردیا تھا،شرکت کی اور سعودی عرب سمیت تمام شریک ممالک کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دی۔ یہ درست وقت پہ اٹھایا گیا درست اقدام تھا جس کا اثر محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان میں واضح طور پہ نظر آیا جس نے پاکستان کے ساتھ بیس بلین ڈالر کے معاہدے کئے۔اس سے بڑے تجارتی معاہدے انہوں نے پاکستان کے روایتی دشمن بھارت کے ساتھ کئے۔ یہ معاہدے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں ۔ عربوں کے ساتھ بھارت کے تعلقات کبھی خراب نہیں ہوئے، مسئلہ کشمیر پہ بھی نہیںجس پہ ہر عالمی فورم پہ ایک روایتی اصولی موقف اپنا یا جاتا رہا۔ اس کی واحد وجہ یہ تھی بھارت پاکستان سے بڑی مارکیٹ تھی اور ہم تجارت کر ہی کب رہے تھے ہم تو امداد پہ پل رہے تھے۔عمران خان نے خود انحصاری اور امداد نہیں باہمی تجارت کی انتہائی درست سمت میں جرات مندانہ پالیسی اپنائی ہے۔ ان کا دورہ چین اس پالیسی کا عکاس ہے جب انہوں نے سی پیک سے الگ چین کے ساتھ آزاد معاشی معاہدے کئے ہیں اور ایک بہت بڑا بریک تھرو پاک چین تعلقات میں آیا ہے جس کے تحت پاکستان کو آسیان ممالک کے برابر ڈیوٹی فری ٹیرف کی سہولت حاصل ہوگئی ہے ورنہ چین کے ساتھ پاکستان کا تجارتی حجم مضحکہ خیز حد تک یکطرفہ تھا۔ یہ عمران خان کی بہت بڑی سفارتی اور خارجہ کامیابی ہے جس پہ حیرت انگیز طور پہ قلم اور زبانوں کو چپ لگ گئی ہے۔آسیان ممالک کو پاکستان کی تزویراتی حیثیت سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور اس سلسلے میں پاکستان کی مارکیٹنگ عمران خان نے بہت موثر انداز میں کی ہے۔ہم اپنے دوست ملکوں کے ساتھ اپنا تجارتی حجم دیکھیں توشرمندگی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ وہاں سے یا تو امداد آتی ہے یا تجار تی خسارہ۔ اس بار خوش قسمتی سے عنان اقتدار جھولی پھیلانے اور اپنی تجوریاں بھرنے والے حکمرانوں کے ہاتھ میں نہیں بلکہ عمران خان جیسے دیانت داراور جرات مند شخص کے ہاتھ میں ہے جو عالمی اور مقامی تنازعات سے دامن بچا کر پاکستان کو خود انحصاری اور خودداری کی راہ پہ ڈالنے کے لئے مذکورہ بالا ممالک کے ساتھ باہمی تجارت کے ساتھ ہی افغانستان کے اندرونی معاملات میں دخل نہ دینے کا اعلان بھی کررہا ہے اور بھارت کو امن کی پیشکش بھی۔اسی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ آج امریکہ پاکستان کو خیرات وصولنے اور امداد کھا جانے کا طعنہ دینے کی بجائے پہلی بار پاکستان اور امریکہ تجارت کے حجم کی بات کررہا ہے جو چھ ارب ڈالر سالانہ ہے۔ایسی بات اشارتا ًکہی گئی ہے کہ اس میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔ مسئلہ بس یہ ہے کہ بڑی مارکیٹ چھوٹی مارکیٹ کو کھا جاتی ہے۔خانہ ساز مصنوعات میں اضافہ کرکے برامدات بڑھانے کی دیر ہے۔دنیا عمران خان کے غیور پاکستان کو ہاتھوں ہاتھ لینے کو تیار ہے۔(ختم شد)