عموماً یکساں نظام تعلیم کے نعرے سے یہ مراد لی جاتی ہے کہ اس ملک کے تمام سکولوں کو ان مغرب زدہ انگلش میڈیم سکولوں کے قالب میں ڈھال دیا جائے جن میں اشرافیہ کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ہر سکول معیار اور سہولیات کے اعتبار سے ایچی سن اور گرامر کا ہم پلہ ہوجائے اور ہر بچہ پہلے دن سے ہی ان نرسری نظموں (Rhyms) کو گانا شروع کر دے، ان کامکس کو پڑھنے لگے اور اس لباس کو زیب تن کرنے لگے جو دراصل ایچیسن، گرامر یا کسی بھی انگلش میڈیم سکول نے انگریزوں سے مستعار لیا ہوا ہے۔ اس سے بڑی خودکشی اور کوئی نہ ہوگی۔ حیرت کی بات ہے کہ دنیا کے جغرافیے اور معاشی و سیاسی گروہ بندیوں کو دیکھا جائے تو فرانس، جرمنی، ناروے، سویڈن، ڈنمارک، فن لینڈ، آئس لینڈ، آسٹریا سمیت یورپ کے تیس سے زیادہ ممالک انگلستان کے قریب بھی ہیں اور امریکہ کے حلیف ہونے کی وجہ سے اس سیاسی گروپ میں شامل بھی ہیں جن کا دفاع بھی مشترک ہے اور اقتصادیات و سیاسیات بھی۔ ان میں سے اکثر ممالک اتنے چھوٹے ہیں کہ ان کی آبادی چند لاکھ سے بھی زیادہ نہیں۔ لیکن ان تمام ممالک میں سے کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں جس نے برطانیہ یا امریکہ میں رائج انگریزی ذریعہ تعلیم کو اپنایا ہو۔ سب کے سب نرسری سے لے کر پی ایچ ڈی تک کی تعلیم اپنی زبان میں دیتے ہیں۔ اگر او لیول، اے لیول یا انگریزی ذریعہ تعلیم دنیا کا بہترین ذریعہ تعلیم ہوتا تو تب بھی ہم مان لیتے کہ چلو ہم نے اگر نقل اتاری بھی تو کسی ایسے نظام تعلیم کی جس سے بڑھ کر کوئی اور دوسرا نظام تعلیم دنیا میں موجود نہیں ہے۔ اس وقت اپنے مقام اور مرتبے (Ranking) کے اعتبار سے دنیا میں چالیس نظام ہائے تعلیم کو چنا جاتا ہے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو کسی دوسرے کی زبان میں اپنے بچوں کو تعلیم دیتا ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ رینکنگ کے اعتبار سے بھی دنیا کے نظام ہائے تعلیم میں پہلے نمبر پر جنوبی کوریا، دوسرے نمبر پر جاپان، تیسرے نمبر پر سنگاپور، چوتھے نمبر پر ہانگ کانگ، پانچویں نمبر پر فن لینڈ اور چھٹے نمبر پر انگلینڈ آتا ہے۔ انگلینڈ جس کا نظام تعلیم ہم نے بغیر کسی تبدیلی کے اپنے ملک میں رائج کر رکھا ہے۔ اس کے بعد اگلے سات ممالک، ہالینڈ، آئرلینڈ، پولینڈ، ڈنمارک، جرمنی، روس اور کینیڈا ہیں۔ ان تمام ممالک میں بھی کوئی کسی غیرملکی زبان میں تعلیم نہیں دیتا۔ یہاں تک کہ کینیڈا کا فرانسیسی بولنے والا حصہ فرانسیسی میں تعلیم حاصل کرتا ہے اور انگریزی بولنے والا انگریزی میں۔ ہم ان چند بدقسمت ترین ممالک میں سے ایک ہیں جنہوں نے گزشتہ تیس سال سے انگلش میڈیم کو ایک بھونڈے طریقے سے پروان چڑھانے کی کوشش کی۔ ہم سے پہلے یہ کوشش دیگر تین ممالک نے بھی کی تھی۔سنگاپور والے ، سب کچھ انگریزی میں کرنے کے بعد ہوش میں آئے کہ ہم تو تخلیقی صلاحیتوں سے عاری ہو گئے، واپسی کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں، ویسے بھی انہوں نے تعلیم ہی نہیں اپنے اردگرد بھی سب کچھ انگریزی میں کرلیاتھا۔ وہ اپنی انگریزی کو سنگلش (Singalish) کہتے ہیں۔ ان کی آبادی میں سے 42 فیصد ایسے ہیں جو ملک سے باہر پیدا ہوئے اور تجارتی مرکز ہونے کی وجہ سے کوئی علاقائی زبان وہاں نہ پنپ سکی۔ لیکن اس کے باوجود بھی جب انہیں اندازہ ہوا کہ انہوں نے اپنی قوم کو صرف انگریزی میں پڑھا کر کس قدر زیادتی کی ہے تو اب وہاں مالے، مینڈرن اور تامل بھی ساتھ ساتھ پڑھائی جا رہی ہے تاکہ واپس لوٹا جا سکے۔ دوسرا ملک سری لنکا اور تیسرا بھارت ہے۔ ان دونوں ممالک کی وزارت تعلیم انگریزی سے نجات کی جانب واپسی کا سفر شروع کر چکے ہیں۔ اس وقت دنیا کی کسی بھی یونیورسٹی یا زبان کی ٹیسٹنگ TESTINGسروس کو بھارت میں امتحان لینے کی اجازت نہیں۔ کوئی برٹش کونسل، آکسفورڈ یا کیمبرج بھارت میں او لیول یا اے لیول کا امتحان نہیں لے سکتی۔ دنیا کا ہر ملک اب اس حقیقت سے واقف ہو چکا ہے کہ ترقی صرف اور صرف اپنی زبان میں ہی تعلیم دینے سے کی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں سب سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ ہم نے نظام تعلیم تو درآمد کرنا ہی تھا، ساتھ ہی ان کا کلچر، تہذیب اور تاریخ کو بھی اپنے نصاب کا حصہ بنا لیا۔ فزکس، کیمسٹری، بیالوجی وغیرہ اگر انگریزی میں پڑھائے جاتے تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے لیکن ان سکولوں میں سوشل سائنسز یعنی معاشرت، تہذیب، حتیٰ کہ تاریخ بھی یورپ کی پڑھائی جانے لگی۔ دنیا کے بدترین حد تک مرعوب اور بے شرم ملک میں بھی اس طرح کی بھونڈی مثال نہیں ملتی۔ ہر کوئی اپنے بچوں کو اپنی تاریخ، اپنا کلچر، اپنی شاعری اور اپنے اساسی نظریات پڑھاتا ہے۔ لیکن ہم تو اپنے بچوں کو گیت بھی وہ گنواتے ہیں جو ایک انگریز کا بچہ برمنگھم یا مانچسٹر میں گاتا ہے۔ شاہ ایران کی حکومت تک ایران اسی طرح کی مرعوبیت کا شکار تھا۔ آیت اللہ خمینی کی حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم اس زبان میں تعلیم دیں گے جو ایران کی ہر جگہ بولے جانے والی زبان ہے۔ فارسی وہاں صرف 45 فیصد کی مادری زبان ہے لیکن پورے ایران میں اسی زبان میں رابطہ ہوسکتا ہے۔ تو فوراً تمام نظام ہائے تعلیم کو فارسی زبان میں کردیا گیا۔ جگہ جگہ دارالترجمہ کھلے۔ ایران جو کبھی تعلیمی نقشے پر موجود نہ تھا وہاں سے اب ہر سال ایک شخص نوبل انعام کے لئے نامزد ہوتا ہے۔ ترکی کی ترقی کا راز ان کا اپنی زبان میں علم حاصل کرنا ہے حالانکہ وہاں یورپ سے الحاق کی ایک جاندار تحریک مسلسل زندہ رہی ہے۔ عموما یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کتابیں اور علم اردو زبان میں میسر نہیں ہوتا۔ یہ گلہ بھی جدید ٹیکنالوجی نے دور کردیا ہے۔ دنیا بھر میں کتاب کہیں چھپے، سافٹ ویئر کے ذریعے ترجمہ ہوکر دنیا کی کسی بھی زبان میں دس پندرہ دن میں مارکیٹ میں آ جاتی ہے۔ دنیا کی تاریخ میں دو وقتوں میں حیران کن علمی ترقی ہوئی۔ سب سے پہلے عرب یا مسلمان جن کے دامن میں کوئی علمی خزانہ نہ تھا، سوائے ان سبعہ معلقات)سات قصیدوں( کے جو خانہ کعبہ میں لٹکائے ہوتے تھے۔ ایک جنون پیدا ہوا کہ دنیا کا ہر علم اپنی زبان میں ترجمہ کرنا ہے۔ ھارون الرشید کے زمانے میں ایک مترجم کی تنخواہ تیس ہزار دینار تھی۔ اس کے بعد کی (سات صدیاں) علم کی دنیا میں مسلمانوں کی حکمرانی کی صدیاں تھیں۔ دوسری ترقی انگریزوں نے کی۔ آج سے تین سو سال پہلے انگریزی نام کی کوئی زبان دنیا کے عالمی منظرنامے پر موجود نہ تھی۔ انگریزی میں کوئی علمی کام بھی موجود نہیں تھا۔ وہی مسلمانوں والا جنون کہ ترجمہ کرو اور آج عالم یہ ہے کہ دنیا کی کوئی کتاب اپنی زبان میں ملے نہ ملے، انگریزی میں مل جاتی ہے۔ یہ ہے انگریزی کے عروج کی کہانی۔ لیکن میں اس حقیقت کو کہاں لے جاؤں کہ آج بھی نوبل انعام حاصل کرنے والوں کی بہت بڑی اکثریت انگریزی نہیں جانتی۔ شاعر، ادیب، سائنسدان، موجد، سب کی اکثریت وہ ہے جنہوں نے اپنی زبانوں میں علم حاصل کیا اور اپنی زبان میں تحقیق یا تخلیق کی۔ یہ نظام تعلیم جہاں میرے ملک میں ایک ایسی نسل کو پروان چڑھا رہا ہے جو اپنے ماضی سے برگشتہ، اپنی روایات سے ناآشنا اور اپنے ماحول سے نفرت کرتی ہے، بلکہ المیہ یہ ہے کہ یہ نظام تعلیم ان میں ان ممالک میں بس جانے، وہاں ملازمت کرنے اور ان معاشروں میں زندگی گزارنے کی آرزو پیدا کرتا ہے۔ اس المیے کو برین ڈرین Brain drain کہتے ہیں جو گزشتہ دو دہائیوں سے ہمارے ملک میں جاری ہے۔ ہم اپنے بچوں کو پال پوس کر، تعلیم دلوا کر، ٹوکری میں رکھ کر بیٹھے ہیں کہ کوئی آئے اور ان کو خرید کر اپنے ملک کو بہتر بنائے۔ خیبر پختونخوا میں یکساں نظام تعلیم آیا تو سب انگلش میڈیم کر دیا گیا ، میں نے اعتراض کیا تو جواب ملا کہ اردو میں اس لئے ممکن نہیں تھا کہ باقی ملک میں انگلش میڈیم موجود ہے اور اردو کرنے سے خیبر پختونخوا پیچھے رہ جائے گا۔ لیکن اب تو آپ مرکز میں بھی آگئے ہو۔ اب آپ کا فیصلہ اس ملک کا مقدر بدل بھی سکتا ہے اور بگاڑ بھی سکتا ہے۔