ابوالکلام آزاد نے کہا تھا! سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ جہاں دل ہی نہ ہو وہاں احساس اور جذبات کا کیا کام۔ مگر کیا کیجیے کہ وزیر اعظم تو قوم کو سیاست ایسی شطرنج کی بساط کو کرکٹ کا کھیل سمجھ کر اخلاص کے جنوں سے میدان مارنے کے خواب دکھاتے رہے ۔اقتدار ملا تو این آر او نہیں دونگا‘ کسی کو نہیںچھوڑوں گا کہہ کر اپنا اور قوم کا دل بہلایا۔ مگر خواب تو خواب ہوتے ہیں آنکھ کھلتے ہی حقیقت کی دنیا سامنے منہ چڑا رہی ہوتی ہے۔ شورش وقت کی رفتار میں عمران خاں کے قوم کو دکھائے حوالوں کے آثار بھی گم ہوتے جا رہے ہیں ۔وزیر اعظم بننے سے پہلے کرپٹ اشرافیہ کے کڑے احتساب کے خواب جو قوم کی آنکھوں میں سجائے تھے ان کی کرچیاں اب عوام کو لہو کے آنسورلا رہی ہیں تو خود وزیر اعظم کی کیفیت کا اندازہ پوٹھوہار کی بنجر زمین کے زرخیز دماغ ڈاکٹر سعید احمد سعید کے اس شعر سے ہو جاتا ہے: اب کہ تمنائوں کے اثبات کا سمیٹے ہیں عذاب ہم کہ رہتے تھے کبھی نشہ انکار میں گم تحریک انصاف کی بنائی ہوئی احتساب کی فصیل ریت کا ڈھیر ثابت ہو چکی ۔وزیر اعظم اپنی تمنائوں کی لاش پہ بین کر رہے ہیں کہ بہت بے انصافی ہوئی جن کے رگ ریشہ سے قوم کی خوشحالی کشید کرنا تھی وہ پنچھی تو قفس توڑ کر پُھر ہو گیا۔ ادھر انصاف کے ایوانوں سے جواب آں غزل کہ حضور! قانون کی طاقتوروں کے سامنے کمزوری کا طعنہ ہمیں نہ دو۔ جب زندان کا دروازہ آپ نے خود ہی کھول دیا تو ہم پر تہمت کیوں دھرتے ہو۔ شہر اقتدار کی ہی تو کرشمہ سازی ہے کہ یہاں ان ہونیاں ہوتی ہیں اور ہونی ٹل جایا کرتی ہے۔ انہی سطور میں لکھا تھا کہ مجمع اس وہم کا شکار ہوتا ہے کہ بندر کو نچایا جا رہا ہے جبکہ مداری کی انگلیوں پر ہجوم ناچ رہا ہوتا ہے انگلیوں کا بھی عجیب معاملہ ہے کہ دکھائی نہیں دیتیں مگر اٹھتی ہیں۔ اقتدار کی غلام گردشوں کی خوبی ہی یہ ہے کہ صاحب اختیار بے اختیار ہوتا ہے اتنا بے اختیار کہ کرسی پر ہوتے ہوئے نااہل قرار پاتا ہے اور پس زنداں انصاف پر ماتھا دوسروں کو بھی چومنے کو کہتا ہے۔کل تک جو منصف ایک آنکھ نہیں بھاتاتھا وہی آنکھوں کا تارا بن جاتا ہے۔ دنیا جہان کی خبر رکھنے کے دعوے کرنے والے مریض کے مرض سے بے خبر رہتے ہیں اور سانپ کے گزر جانے کے بعد لکیر کو پیٹاجاتا ہے عمران خان کے احتساب اور این آر او نہ دینے کے دعوئوں کا انجام کچھ ایسا باعث تعجب اس لئے نہیں کہ و حشت کلکتوی نے کہا تھا: آغاز سے ظاہر ہوتا ہے جو انجام ہونے والا ہے انداز زمانہ کہتا ہے پوری ہو تمنا مشکل ہے انداز زمانہ نے تو 2018ء میں ہی کہہ دیا تھا کہ جس طرح پوجا ریوں کو اقتدار کے مندر کی طرف ہانکا جا رہا ہے، عمران خان کی اقتدار کی تمنا تو پوری ہو سکتی ہے’’ اختیار‘‘ کی تمنا تمنا ہی رہے گی۔ وہی اختیار جس کے لئے آصف زرداری نے اپنا اختیار پارلیمنٹ کی گود میں ڈال دیا۔ جس کی تمنا لئے میاں نواز شریف شہر اقتدار کی گلیوں سے رسوا ہوکر رخصت ہوئے کہ صرف اقتدار نہیں اختیار کا رونا ووٹ کو عزت دو کا نعرے لگوا کر روتے رہے۔ مولانا فضل الرحمن اس اختیار کے لئے اسمبلی میں جس دھرنے کو اکھاڑپھینکنے کے مشورے دیتے رہے اور پھر خودہی دھرنا دینے پر مجبور ہو گئے۔ اب عمران خاں کبھی اس فریب سے باہر نکلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں کہ اقتدار ملنے سے اختیار بھی مل جاتا ہے۔ بھولے بادشاہ نے جس اقتدار کے ذریعے انقلاب لانے کا خواب دیکھا اب اس کے اقتدار کے بے اختیار ہونے پر تلملا رہے ہیں حالانکہ ان کو یہ اندازہ اس وقت بھی ہو جانا چاہیے تھا کہ جب وزیر اعظم فیض آباد سے دھرنا اٹھوانے کا اختیار نہ رکھتا ہو ایسی وزارت عظمیٰ کے بل بوتے پر عمران کے این آر او دینے یا نہ دینے کے دعوے عمران خان کیسے کر سکتے ہیں ۔جو انگلی ان کو 2018ء میں دکھائی نہ دے سکی نواز شریف کی لندن رخصتی کے بعد یقینا اب عمران خان کو ضرور نظر آئی ہو گی۔ ان کو یہ ماننے کے لئے یقینا چلہ کاٹنے کی ضرورت ہو ئی نہ ہی کسی تعویذ کی حاجت۔ کہ جس مریض کے خون میں پلیٹ لیٹس کی تعداد دو ہزار تک پہنچ چکی ہو اس کو کون سی غیبی قوت ہے جو ہشاش بشاش اپنا کوٹ اٹھا کر ہیتھروایئر پورٹ پرچہل قدمی کروارہی ہے اور یہ کہ کرشمہ جناب کے ہاتھوں رونما ہوا اور مراقبے کے ذریعے حال جاننے والے بے خبر رہے۔ جناب وزیر اعظم کو اب تو سابق خادم اعلیٰ کی بات سمجھ آ جانی چاہیے کہ دوست ملک تعویذ گنڈوں سے نہیں چلا کرتے اس وہم سے نکلنا ہوگا، کہ آپ حکمران ہیں کب تک خوابوں کی خیالی جنت کے اسیر رہیں گے۔ ابھی تو اقتدار کی کرسی پر بیٹھے شخص کو بجلی کا پہلا جھٹکا لگا ہے اور دن کو تارے نظر آنا شروع ہو گئے ہیں ۔ سرکار کو اپنی مشینری کی جن لیبارٹری رپورٹوں کا یقین تھا جن کی تصدیق کے لیے کراچی سے لے کر شوکت خانم کے ماہرین بلوائے گئے جو وزیر صحت کی نگرانی میں مرتب ہوئیں ان کے اثرات لندن کی فضا میں جاتے ہی زائل ہونے پر وزیراعظم حیران اور اپنے انسان دوستی اور انسانیت کے نام پر کیے فیصلے پر پشیمان ہیں۔ یہ تو شہر اقتدار کے لا تعداد سیرابوں میں سے ایک اور پہلا سیراب ہے ، جس نے خواب بکھیر دیئے ہیں ابھی ایک خواب بکھرا ہے آہستہ آہستہ سب چکنا چور ہوں گے۔ تو حقیقت کے معانی کھلنا شروع ہو جائیں گے پھر یہ عقد کھلے کہ اقتدار سچ میں کانٹوں کی سیج ہے ۔اکبر الہ آبادی کا ایک شعر ہے اس قدر تھا کھٹملوں کا چارپائی میں ہجوم وصل کا دل سے مرے ارمان رخصت ہو گیا ڈر ہے کہ الفاظ کی تکرار کے چکر سے نکل کر عمران کے دل سے بھی وصل کا ارمان رخصت نہ ہو جائے اور موصوف بھی آصف زرداری‘ نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کے ساتھ ایک پیج پر آ ن کھڑے ہوں!!!!۔