ہم جیسے طالب علم عمران خان پر تنقید کریں تو بات سمجھ میں آتی ہے کیونکہ ہمیں اصلاح احوال کی امید تھی اور یہ امید بر آتی دکھا ئی نہیں دے رہی لیکن شریف اور زرداری خاندان کے دستر خوان پر عشروں پیٹ کے بل رینگنے والے یہ گداگرانِ سخن کس منہ سے تنقید کر رہے ہیں؟ کیا وہ بھول گئے، خواجہ آصف نے فرمایا تھا: کوئی شرم ہوتی ہے ، کوئی حیا ہوتی ہے۔ عمران خان کے خلاف ہمارا بنیادی مقدمہ کیا ہے؟ یہی کہ دعووں کے مطابق وہ اصلاح ااحوال نہیں کر پائے۔ باقی جو بھی کہا جائے وہ اسی مقدمے کی شرح میں دیے گئے دلائل ہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے اگر عمران کو اصلاح احوال میں ناکامی پر تنقید اور تضحیک کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے تو جو اس بگاڑ کے ذمہ دار ہیں ان کے ساتھ کیا معاملہ ہونا چاہیے؟ ایک طرف وہ ہیں جنہوں نے عشروں یہاں حکومت کی اور معیشت ہی کی نہیں ہر حکومتی ادارے کی چولیں ہلا دیں، دوسری جانب وہ ہیں جنہیں دعوی تھا وہ سب ٹھیک کر دیں گے مگر ڈور کا کوئی سرا ان کے ہاتھ نہیں آ رہا، آپ ہی بتائیے ہر دو میں سے بڑا مجرم کون؟ عمران خان جب حکومت میں آئے مسلم لیگ ن مالی سال کا بجٹ دے چکی تھی۔ کیا آپ کو معلوم ہے اس بجٹ کے اعدادو شمار کیا تھے؟ ہمارے ہاں شور مچایا جاتا ہے کہ دفاع پر بہت خرچ ہو رہا ہے لیکن یہ حقیقت کم لوگوں کو معلوم ہے قرض کی قسطوں اور ان پر سود کی مد میں ہم نے اس سال اپنے دفاعی بجٹ سے بھی زیادہ رقم مختص کی ہے۔ مسلم لیگ ن کے اس آخری بجٹ میں بیرونی قرض کی قسطوں اور ان پر سود کی مد میں ادائیگی کے لیے ایک اعشاریہ چھ ٹریلین روپے رکھے گئے جو کل بجٹ کا قریبا 31 فیصد بنتا ہے۔دفاع کے لیے مختص رقم ایک اعشاریہ ایک ٹریلین یعنی کل بجٹ کا 23 فیصد تھی۔عمران کو پہلے ہی مالی سال میں قرض اور سود کی ادائیگی میں ایک اعشاریہ چھ ٹریلین ادا کرنے تھے۔ آج مسلم لیگ ن دعوے کر رہی ہے ہم تو بڑی اچھی معیشت چھوڑ گئے تھے۔دفاعی بجٹ سے 8 فیصد زیادہ رقم قرضوں اور سود کے جہنم میں جھونکنے کے بعد ایسا دعوی جنگل کا بادشاہ ہی کر سکتا ہے۔ عمران کو حکومت ملی تو خزانے میں کیا تھا؟ قرض کا بوجھ۔ اور بوجھ بھی کتنا؟ یاد رہے کہ ایک ایٹمی طاقت کے دفاعی بجٹ سے 8 فیصد زیادہ۔عمران خان نے دائیں بائیں ہاتھ پائوں مارے اور دوست ممالک سے رجوع کیا تا کہ معاملات سنبھالے جا سکیں۔اس پر اسے طعنہ دیا گیا کہ وہ کشکول پکڑ کر بھیک مانگ رہا ہے۔ یہ طعنہ وہ دے رہے تھے جنہوں نے بجٹ کا ایک تہائی قرض اور سود کی ادائیگی کے جہنم میں غرق کر دیا تھا۔عمران خان سے ہماراشکوہ تو بنتا ہے لیکن جن کے کرتوتوں نے ہمیں یہ دن دکھائے وہ کس منہ سے تنقید کر رہے ہیں؟ آپ جون 2018ء میں جاری ہونے والی پبلک ڈیٹ مینجمٹ رسک رپورٹ پڑھیے ، لکھا ہے کہ معیشت کے تمام انڈی کیٹرز خطرے کی طرف جا رہے ہیں۔جون 2018ء میں کس کا دور حکومت اختتام کے قریب تھا؟ عمران خان کو کیا آپ نے قومی خزانہ بھر کر دیا تھا جو اس نے آٹھ ماہ میں اللوں تللوں میں اڑا دیا؟حالت یہ ہے کہ پاکستان کی پوری تاریخ کا قرض ایک طرف اور ان کے پانچ سالوں کا قرض ایک طرف۔ عمران ان قرضوں کا سود ادا کرے ، دوست ممالک سے امداد مانگ کر تنکوں کا سہارا لے یا اپنا سر پیٹے؟ہم تو عمران خان سے شکوہ کر سکتے ہیں کہ اس نے تباہ حال معیشت کو سنبھالنے کے لیے ابھی تک کچھ نہیں کیا لیکن جنہوں نے یہ معیشت تباہ کی وہ کس منہ سے تنقید کر رہے ہیں؟ یہ بات درست ہے کہ عمران خان ابھی تک پولیس کے شعبہ میں ڈھنگ کی کوئی ایک پالیسی متعارف نہیں کرا سکے ۔ اس پر میرے جیسے عام لوگ تو عمران سے شکوہ کر سکتے ہیں کہ اللہ کے بندے آٹھ ماہ ہو گئے اور پنجاب میں افراتفری کا سماں ہے اور تم وہ غلاظت ابھی تک صاف نہیں کر سکے جو سابق ادوار میں پھیلائی گئی ،لیکن ان لوگوں کو تو تنقید کرتے ہوئے شرم آنی چاہیے جنہوں نے پولیس کا محکمہ ذاتی نوکروں اور وفاداروں سے بھر کر اس کا بیڑہ غرق کر دیا۔ سانحہ ساہیوال پر ہم جیسے افتادگانِ خاک تو عمران کا گریبان پکڑیں تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن جو درباری سانحہ ماڈل ٹائون پر پوری بے شرمی سے گونگے ہو گئے تھے کیا انہیں کچھ شرم نہیں آنی چاہیے؟ پنجاب میں شریف خاندان کے اقتدار کا دورانیہ بیس سال پر محیط ہے۔ یہی عالم سندھ میں پی پی پی کا ہے۔ مرکز میں یہ تین تین باریاں لے چکے ہیں۔اب ان کا ارشاد ہے کہ چوتھی بار ہمیں وزیر اعظم بنایا جائے تو ہم انقلاب لائیں گے۔ ہم تو عمران خان سے ایک ایک دن کا حساب مانگیں گے لیکن عمران کے آٹھ ماہ پر حکم سنانے والے دستر خوانی قبیلے کے ماہرین شریفوں اور زرداریوں کے عشروں کا حساب کرتے ہوئے گونگے بہرے اور اندھے ہو جاتے ہیں۔یہ نفرت کی آگ میں جل رہے ہیں۔ہمارا معاملہ کچھ اور ہے ، ان کی تکلیف کچھ اور ہے۔ عمران خان کے و زراء کی کارکردگی نے حیران اور پریشان کر دیا ہے۔ دیانت اور خیر خواہی کا تقاضا تھا غلط کو غلط کہا جائے اور پوری قوت سے کہا جائے۔ تماشا یہ ہو ا کہ جب جب حکومت پر نقد کیا کچھ اور لوگ طعنے دینے آ گئے۔’’ ہم تو پہلے سے یہی کہتے تھے، آپ کو عمران سے بڑی امید تھی، آپ بھی اس گناہ میں شریک ہیں‘‘ وغیرہ وغیرہ اور وغیرہ۔ یہ وہ رجالِ کار ہیں جن کی زندگی میں کوئی ایسی ساعت سعید نہیں جب انہوں نے اپنے ممدوحین کی کسی پالیسی پر تنقید کی جسارت کی ہو۔یہ اس بات پر دلیل کی صورت زندہ ہیں کہ ہر رہنما اپنے حصے کے بے وقوف ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے۔ عمران توقعات پر بھلے پورا نہیں اتر رہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ملک کو نوچ کھانے والے گِدھوں کو اب مسیحا کا درجہ دے دیا جائے۔معاملہ جب ہمارے اور عمران کے درمیان ہو گا ہم فرد جرم لکھیں گے، بات جب تمہارے اور عمران کے بیچ ہو گی معاملے کی نوعیت بدل جائے گی۔