اک سمندر ہو کوئی اور وہ لب جو آئے کیوں نہ اظہار کو ان آنکھوں میں آنسو آئے خوش گمانی نے عجب معجزہ سامانی کی اب ہمیں کاغذی پھولوں سے بھی خوشبو آئے بات یہ ہے کہ میں رجائیت پسند ہوں۔ کوشش کرتا ہوں کہ معاملات کے روش پہلوئوں کو دیکھا جائے مگر کبوتر کی طرح آنکھیں تو بند نہیں کی جا سکتیں جو چیز ہویدا ہو اسے صرف فلسفے کے زور پرردکیا جاسکتا ہے۔ غالب کی طرح کہا جاسکتا ہے کہ نہ ہم سمجھے نہ تم آئے کہیں سے۔ پسینہ پونچھئے اپنی جبیں سے۔ اور خوش گمانی یا امید میں ہم بند نیازی کی طرح بھی سوچ سکتے ہیں کہ آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے۔ ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے۔ خان صاحب کی بات مان لیتے ہیں کہ دو سال مشکل گزر گئے اور اب آگے بڑھنے کا وقت آ گیا ہے مگر قرائن تو کچھ اور کہہ رہے ہیں۔ مہنگائی تو ٹوٹے ہوئے بند سے نکلنے والے پانی کی طرح شگاف کو بڑھاتی جا رہی ہے۔ کوئی رکاوٹ کارگر نہیں۔ مسئلہ تو اس وقت ہے ہی معیشت۔ آگے کہاں بڑھنا ہے اورکس نے بڑھنا ہے۔ کوئی شخص تو ایسا دکھائی نہیں دیتا کہ جس میں کوئی تدبر‘ سنجیدگی یا وژن نظر آئے۔ کوئی وزیر یا مشیر ہر کوئی منہ کھول دیتا ہے اور بے ربط و بے معنی بیانات برآمد ہونے لگتے ہیں اور تو اور آپ کے کے پی کے کی میٹرو ہی اب تک ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔ یہ تو نمونہ ہے مشت از خروارے، آپ کہہ رہے ہیں کہ کشتیاں جلا دیں اب پیچھے مڑ کر دیکھا نہیں۔ قبلہ یہ کس کی کشتیاں آپ نے جلائی ہیں۔ طارق بن زیاد بننا ہے تو کشمیر کا سوچئے۔ فی الحال آپ پیچھے مڑ کر دیکھیں کہ ساتھ چلنے والے نظریاتی لوگ کہاں رہ گئے۔ کوئی پلکوں میں لے کر وفا کے دیے دیکھ راہوں میں بیٹھا ہے تیرے لیے لیکن آپ تو اپنی وفا نبھا رہے ہیں۔ کسی کو ہم نہ ملے اور ہم کو تو نہ ملا والا معاملہ ہے۔ آپ کے فیورٹ فرما رہے ہیں کہ لاہور کو بسانے جا رہے ہیں اور یہ کہ پاکستان کی شفاف ترین حکومت پی ٹی آئی کی ہے۔ لاہور تو داتا کی نگری ہے یہ آباد ہی ہے اور رہے گی۔ مسئلہ تو اس کے تعمیراتی کام کا ہے جو فی الحال رکا ہوا ہے اورنج ٹرین ہی کو لے لیں‘ وعدہ فردا یہ آپ نے ٹال رکھا ہے۔ کبھی کبھی ٹرائی ٹرین گزار دی جاتی ہے مگر اب تو آپ نے صاف کہہ دیا کہ یہ ترقی کی علامت نہیں کہ اس پر سبسڈی کا خرچ اٹھے گا۔ گویا کہ آپ نے اسے نہ چلانے کا فیصلہ کرلیا۔ تو قبلہ پھر ایک نایاب نسخے پر عمل کیجئے۔ یہ جو اربوں روپے اس پر اٹھے ہیں یہ قومی نقصان کون پورا کرے گا۔ آپ اس پر بازار کھول دیں یا اس کا کوئی او ر محدود استعمال نکال کر لیں تاکہ آپ کو کچھنہ کچھ ریونیو آ جائے۔ آپ کی ہر ترقی میں اپوزیشن رکاوٹ ہے اور بقول آپ کے وہ دو سال این آر او مانگتے رہے۔ چلیے آپ نے نہیں دیا مگر قوم پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ انہیں یعنی عوام کو کیا ملا۔ تنگ آئے ہوئے لوگ انہی چور ڈاکوئوں کو کیوں یاد کر رہے ہیں۔لوگ آپ کے ساتھ آگے بڑھنے کی بجائے مراجعت کا کیوں سوچتے ہیں۔ لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو۔ انور ملک کا شعر یاد آگیا: تارے توڑ کے لے آئوں گا امبر سے لیکن آنے جانے میں کچھ دیر لگے گی میں ان کے قریب بیٹھا تھا۔ ان کا وزن بھی کچھ زیادہ ہی تھا۔ میں نے کہا ملک صاحب دیر تو پھر لگے گی۔ بہرحال کہتا ہوں میں وہی بات سمجھتا ہوں جس کو حق۔ آپ غور تو کریں کہ آپ کر کیا رہے ہیں۔ چینی اور آٹا مافیا تو آپ سے کنٹرول نہیں ہو سکا۔ آپ اپنے ہی لوگوں کو سزا دے کر مثال بنائے تو بات بن جاتی۔ وہ تو باہر دوڑ گئے یا وزارتیں بدل کر بیٹھ گئے۔ آپ کے دور میں ایشوز بھی بہت اٹھے۔ عوام کا غیظ و غضب اپنی جگہ درست ہے۔ آخر یہ انتشار پھیلانے کی کوشش کرنے والے آپ کے نوٹس میں کیوں نہیں۔ فواد چوہدری ہے تو وہ مذہبی سرکردہ لوگوں سے پنگا لیتے نظر آتے ہیں۔ ہر سو ایک بے سکونی اور بے برکتی ہے: تم ہی نہ سن سکے اگر قصہ غم سنے گا کون کس کی زبان کھلے گی پھر ہم نہ اگر سنا سکے میں کوئی حکومت کا دشمن نہیں۔ ہم عوام ہی تو خان صاحب کولانے والے ہیں اسی لیے موجودہ افراتفری پر تشویش بھی ہمیں ہے۔ تبدیلی کا سوچنے والے خود مذاق بن گئے ہیں۔ تبدیلی تبدیلی کرنے والے مزید تبدیل ہو کر یا تو دوسری طرف جا رہے ہیں یا آرام سے بیٹھ گئے ہیں کہ ہم باز آئے ایسی محبت سے اٹھا لو پان وان اپنا۔ جناب! یہ کوئی ہوائی اور مافوق الفطرت باتیں نہیں زمینی حقائق ہیں۔ ادویات کی قیمتوں میں 400 فیصد اضافہ ہوا تو غریب تو بالکل مارے گئے۔ مہنگائی کا چالیس سالہ ریکارڈ توڑگیا۔ دکھ تو یہ ہے اس نے ہی لوٹا ہے ہم کو جس کے لیے گھر بار لٹایا جا سکتا تھا اور آخری بات یہ کہ ہمیں مہاتیر کو سلام پیش کرنا ہے کہ جو کشمیر کے حوالے سے خم ٹھونک کر سامنے آ گئے اور کہا کہ اس مسئلے میں خاموشی کوئی آپشن نہیں۔ پام آئل پر پابندی کوئی حیثیت نہیں رکھتی وہ بھارت کے خلاف اپنی رائے سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ بھارت کہ یہ بدمعاشی بند کرنا ہوگی۔ اس حوالے سے عمران خان کی تعریف ہی ان کا حق ہے کہ اب انہوں نے سٹینڈ تو لیا ہے اور اس طرح ہم چین کے بھی قریب جا رہے ہیں۔ ہم نے پہلے بھی غلطی کی تھی کہ مہاتیر اور اردوان کی کال پر بلکہ اپنی ہی تجویز پر رکھی گئی کانفرنس میں شرکت نہیں کی تھی۔ لگتا ہے خارجہ پالیسی بہتر جا رہی ہے مگر داخلی صورتحال خاص طور پر مہنگائی اور افراتفری رکنی چاہیے۔ ایک شعر: نیچی پرواز میں اڑنا نہیں آتا ہم کو اونچا اڑتے ہیں تو اس جسم سے پر جاتے ہیں