توقع کے مطابق حالیہ انتخابات میں کامیابی کا سہرا پاکستان تحریک ِ انصاف کے سر بندھا ہے ۔ عمران خان کی دو عشروں پر محیط جدوجہد خاص طور پر گزشتہ چند ایک سالوں سے رنگ لارہی ہے۔ گزشتہ انتخابات میں اُنھوں نے خیبرپختونخواہ میں حکومت بنائی، اب وہ مرکز اور ممکنہ طور پر پنجاب میں بھی حکومت بنانے جارہے ہیں ۔ خیر یہ کوئی راز نہیں کہ عمران خان اسلام آباد جارہے ہیں، لیکن اہم بات یہ ہے کہ اُنہیں لاکھوں رائے دہندگان کا مینڈیٹ اور اعتماد حاصل ہے ۔ یقینا یہ ایک منفرد ادغام ہے ، لیکن ضروری ہے کہ اب وہ کارکردگی دکھائی کیونکہ ان کی راہ میں بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں ہے ۔ عوام کے اعتماد کا اندازہ پی ٹی آئی کے کل حاصل کردہ ووٹوں سے لگایا جاسکتا ہے ۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مواد کے مطابق پاکستان تحریک ِ انصاف نے 16.8 ملین ووٹ حاصل کیے ۔ اس کے بعد دوسرے نمبر پی ایم ایل (ن) ہے ، جس کے حاصل کردہ کل ووٹوں کی تعداد 12.8 ملین ہے ۔ پی پی پی 6.9 ملین ووٹروں کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ 2013 ء میں پی ٹی آئی کو 7.7 ملین ووٹ ملے تھے۔ اس طرح اس نے موجودہ انتخابات میں اپنے ووٹوں کو کم وبیش دگنا کرلیا ہے ۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اگرچہ ان ووٹوں کی اکثریت پنجاب سے ملی لیکن پی ٹی آئی کو چاروں صوبوں سے ووٹ ملے ہیں۔ پی پی پی کو اب بھی اتنے ہی ووٹ ملے ہیں جتنے 2013 ء میں ، لیکن پی ایم ایل (ن) کو ملنے والے ووٹوں میں دوملین کی کمی واقع ہوئی ہے ۔ دھاندلی کے الزامات اور مبینہ سیاسی انجینئرنگ ایک طرف، پی ٹی آئی کی حمایت میں حیران کن اضافہ ہوا ہے، اور اس کا اظہار انتخابی نتائج میں دکھائی دیتا ہے ۔ 2013 ء میں پاکستانی ووٹر نے پی پی پی کو اقتدار سے رخصت کردیا تھا۔ اب اس نے 2018 ء میں پی ایم ایل(ن) کو چلتا کردیا ہے ۔ درحقیقت پی ایم ایل (ن) کو اس لیے بھی نقصان ہوا کیونکہ اس کی مرکزی قیادت جیل میں تھی ، اور پاناما لیکس نے پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچایا تھا۔ اس کے علاوہ مرکزی دھارے کے میڈیا کے ایک بڑے حصے کی توپوں کا رخ اس کی طرف تھا۔ اس نے شہروں اور قصبوں میں عوامی رائے کا پلڑا اس کے خلاف جھکا دیا۔ پی ایم ایل (ن) کو اپنے منقسم پیغام کی وجہ سے بھی نقصان پہنچا۔ شہباز شریف کے ترقیاتی کاموں کا ایجنڈا اُن کے بڑے بھائی کے جارحانہ ایجنڈے سے لگا نہیں کھاتا تھا۔ اس نے ووٹر کو کنفیوژن میں مبتلا کردیا۔ لیکن ان تمام رکاوٹوں اور چرکوں کے باوجود پی ایم ایل (ن) ا بھی بھی پنجاب میں ایک طاقتور سیاسی حقیقت ہے۔ خوفناک الزامات کے باوجود اسے ختم کیوں نہ کیا جاسکا؟ اس کا جواب تلاش کرنے کے لیے بہت سے عوامل اور حقائق کا ناقدانہ جائزہ ضروری ہے ۔ لیکن یہاں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ شہباز شریف اپنی حمایت کی بنیاد اور عوام کے موڈ کااندازہ لگانے میں غلطی کرگئے ۔ ان انتخابات کا ایجنڈا ترقیاتی کام وغیرہ نہیں تھے ۔ وہ نہ سمجھ سکے کہ اسٹبلشمنٹ کو خوش کرنے کا وقت جاچکا ہے ، اور نہ ہی اس کی کوئی کوشش اب کام دے گی۔ پی ایم ایل (ن)کے لیے ضروری ہے کہ اس شکست سے سبق سیکھ کر اپنی گزشتہ ایک سال کی پالیسی کا جائزہ لے اور اس پر نظر ثانی کرے ۔ یہ وقت عمران خان کا ہے۔ اس میں کوئی دوآراء نہیں۔ انتخابات جیتنے کے بعد اپنی پہلی غیر معمولی تقریر میں عمران خان نے نہایت سادہ اور عاجزانہ لب و لہجہ اپنایا، اور اسے کم وبیش سب نے پسند کیا۔ لیکن اُن کا مرکزی موضوع وہی تھا جو وہ گزشتہ کئی برسوںسے دہرا رہے ہیں، جیسا کہ غربت ، بدعنوانی اور وی آئی پی کلچر کا خاتمہ ، انسانی وسائل کی ترقی، اور ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات۔ اس کے علاوہ اُنھوں نے کھلے دل کے ساتھ اُن حلقوں کو کھولنے پر رضامندی ظاہر کی جس پر اُن کے سیاسی مخالفین کودھاندلی کا شک تھا۔ اس سے بھی اہم بات، اُنھوں نے ایک منجھے ہوئے قومی رہنما کے طور پر خود پرکیے گئے ذاتی حملوں کو نظر انداز کرنے اور سیاسی طور پر انتقامی کارروائی نہ کرنے کا اعلان کیا۔ دوسری طرف یہ بھی کہا جاسکتا ہے اس ملک نے اچھے ارادوں کا اظہار کوئی پہلی مرتبہ نہیں سنا۔ لیکن جو چیز کبھی دیکھنے میں نہیں آئی وہ ان پر عمل درآمد ہے ۔ اس کی راہ میں سیاسی عزائم کے علاوہ دقیانوس افسرشاہی ایک رکاوٹ کے طور پر موجود ہے ۔ امید کی جانی چاہیے کہ عمران خان کی ٹیم سول سروس میں بہت سی اصلاحات لائے گی تا کہ سول انتظامیہ پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) سے مختلف دکھائی دے ۔ پی ٹی آئی مرکز اور خیبرپختونخواہ کے علاوہ پنجاب میں بھی حکومت سازی کے قریب ہے ۔ درحقیقت اس کی خیبرپختونخواہ میں کارکردگی تھی جس نے اسے 2018 ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے قابل بنایا۔ اس نے خیبرپختونخواہ کی پولیس کے علاوہ صحت اور تعلیم کے شعبوں کو درست کیا۔ تاہم اس تجربے کو ملک گیر سطح پر دہرانا آسان نہ ہوگا۔ خاص طور پر پنجاب کی افسرشاہی ابھی بھی برطانوی راج کی ذہنیت رکھتی ہے ، اور یہ کسی بھی متوقع تبدیلی سے پہلے اپنے مفادات کی حفاظت کرنے کی کوشش کرے گی ۔ مرکز اور صوبوں میں کابینہ کے ممبران، مشیروں اور اعلیٰ سرکاری افسران کا چنائوظاہر کرے گا کہ پی ٹی آئی کس طرح کی تبدیلی لانے جارہی ہے ۔ یہ ایسے افراد ہوں جن پر بدعنوانی کے الزامات نہ ہوں۔ اس کے علاوہ وہ کام کرنے کی مہارت اور اہلیت بھی رکھتے ہوں۔ ٹیکنیکل ایشوز ایک طرف ، عمران خان کا راستہ کسی طور آسان نہیں ہے ۔ اس وقت تک پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) اسمبلی میں بیٹھنے کے لیے تیار ہیں لیکن انتخابات کی ساکھ کا سوال اتنی جلدی حل نہیں ہو گا۔ پی ٹی آئی حکومت کو مرکز اور پنجاب میں طاقتور اپوزیشن سے واسطہ پڑے گا۔ اگر پی ایم ایل (ن) دھاندلی کو جواز بنا کر پی ٹی آئی کی طرح احتجاج کاراستہ چنتی ہے تو عمران خان کے لیے اپنے اصلاحاتی اور ترقیاتی ایجنڈے پر عمل درآمد مشکل ہوجائے گا۔ جہاں تک بدعنوانی کے خلاف کارروائیوں کا تعلق ہے تو اب عمران کو احتیاط سے قدم اٹھانا ہے ۔ اُنہیں اپنے طرزعمل سے ثابت کرناہوگا کہ احتساب کا رخ یک طرفہ ، یا کسی خاص جماعت کی طرف نہیں ہے ۔اُنھوں نے اپنی تقریر میں کہا تو ہے کہ احتساب کا آغاز اُن سے ، اور ان کے وزرا ء سے ہوگا، لیکن یہ بات کہنے میں آسان، کرنے میں بہت مشکل ہے۔ آخر میں، نیشنل سکیورٹی کے معروضات میں کسی قسم کی تبدیلی کی کوشش کی مزاحمت کی جائے گی۔ اسی طرح خارجہ پالیسی پر بھی سویلین کو مکمل کنٹرول حاصل نہیں ہوتا ہے ۔ اگلے چند برس جہاں عمران خان کی قیادت کا امتحان ہوں گے ، وہاں اُن کے حامیوں کو بھی صبر سے کام لینا ہوگا ۔ اس وقت اُن کے جوشیلے حامی تبدیلیوں اور تمام مسائل کے حل کی امید لگائے ہوئے ہیں۔ لیکن پھر اُن سے وعدے ہی اس طرح کے کیے گئے ہیں۔ پی ٹی آئی کو فوری طور پر جس مسئلے کا سامنا ہے ، وہ معاشی بحران ہے ۔ ممکن ہے کہ اسے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے ۔ حالیہ دنوں سی پیک منصوبوں پر عمل درآمد کافی سست ہوچکا ہے۔ اُنہیں فعال کرنا ہوگا۔ یہ ملک کے لیے خو ش آئند ہے کہ عمران خان کو تبدیلی کے اس سفر میں عوا م کی بھاری اکثریت کی حمایت حاصل ہے ۔