شب کا تیسرا پہر شروع ہوتا تھا کہ پیغام موصول ہوا ’’صبح 11 بجے ایوان وزیراعلیٰ پہنچئے۔ ملتان کی صحافی کالونی کے جو بقایا جات ایک مدت سے معلق تھے، وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار کے ہاتھوں وہ ملتان ترقیاتی ادارہ کے حوالے کئے جائیں گے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر آپ کو خصوصی طور مدعو کیا گیا ہے‘‘۔ سچی بات ہے میرے منہ سے بے اختیار نکلا کہ ’’ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کند‘‘ یہ کام سردار عثمان بزدار ہی کر سکتے تھے اور ملتانی صحافیوں کو سردار صاحب کے ہاتھوں ہی ریلیف ملنا تھا۔ دو حکومتیں اپنی مقررہ مدت پوری کر کے گھروں کو جاچکیں، ان سے پہلے چودھری پرویز الٰہی کے دور میں پنجاب جرنلسٹ ہاؤسنگ فاؤنڈیشن بنی جس کے تحت لاہور، راولپنڈی اور ملتان میں صحافی کالونیاں بننا تھیں۔ سن دوہزار چھے میں ملتان کی کالونی کیلئے جگہ مختص ہوگئی۔ ان دنوں ملتان ترقیاتی ادارہ (ایم ڈی اے) وہاڑی روڈ پر فاطمہ جناح ٹاؤن بنا رہا تھا، اسی میں پانچ سو چونتیس پلاٹوں پر مشتمل "جے بلاک" صحافی کالونی کے طور پر مختص کردیا گیا۔ تب عام خیال یہ تھا کہ چونکہ ایک ایسے ٹاؤن میں کالونی بنائی جارہی ہے جس پر کام پہلے ہی شروع ہے سو ملتان کی صحافی کالونی لاہور اور اسلام آباد سے پہلے بنے گی مگر ہوا کچھ الٹ۔ اگلے دس سال کے لئے پنجاب میں ایسی حکومت آگئی جسے نہ جنوبی پنجاب سے دلچسپی تھی اور نہ ہی یہاں کے صحافی حلقوں سے کوئی غرض۔ لاہور، اسلام آباد کی کالونیاں بن گئیں، وہاں صحافی حضرات نے رہائشیں بنا لیں مگر جنوبی پنجاب کے سب سے بڑے صحافتی مرکز، ملتان کے عامل صحافی اپنے پلاٹوں کا قبضہ نہ پاسکے۔ پنجاب حکومت کی طرف سے تو خیر فنڈز کی فراہمی کا سوال ہی نہ تھا، اس وقت کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کچھ فنڈز دئے تو خدا خدا کر کے جے بلاک کی کچھ شکل صورت بنی۔ اب پچھلے کئی برس سے ایم ڈی اے کے پانچ کروڑ چالیس لاکھ روپے واجب الادا تھے جس کی بنا پر صحافیوں کو ان کے پلاٹوں کا قبضہ نہ مل رہا تھا۔ متواتر دو مرتبہ وزیر اعلیٰ رہنے والے ’’خادم‘‘ صاحب نے بار بار کی درخواستوں پر کوئی کان نہ دھرا۔ ان تیرہ برسوں میں اپنے پلاٹ کا خواب دیکھتے دیکھتے ملتان کے کتنے ہی صحافی راہی ملک عدم ہوئے۔ صحافی برادری میں اپنی کالونی کے حوالے سے مایوسی پائی جاتی تھی۔ اس دوران قریب ڈیڑھ برس پہلے پنجاب کو سردار عثمان بزدار کی صورت میں ایک دھیمے مزاج کا نرم خو وزیر اعلیٰ میسر آیا جو کام زیادہ کرتا ہے مگر تشہیر سے غرض نہیں رکھتا۔ ان تک ملتان کی صحافی کالونی کا مسئلہ پہنچا تو انہوں نے اسے اپنی ترجیحات میں جگہ دی۔ محکمہ اطلاعات و ثقافت کے پارلیمانی سیکرٹری ملتان کے متحرک اور جواں سال رکن صوبائی اسمبلی ندیم قریشی مقرر ہوئے۔ انہوں نے ملتان کی صحافی برادری اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے درمیان پل کا کردار ادا کیا۔ ملتان کے محکمہ اطلاعات میں پنجاب جرنلسٹ ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کا ذیلی دفتر ڈپٹی ڈائریکٹر محمد اصغر خان کی سربراہی میں قائم کیا گیا۔ اس دفتر کے قیام سے فائلوں کی جانچ پرکھ مقامی طور پر کر کے صحافیوں کو این او سی جاری کئے جاتے ہیں۔ تاہم ایم ڈی کے جو پانچ کروڑ چالیس لاکھ روپے واجب الادا تھے، ان کی بنا پر صحافیوں کو پنجاب جرنلسٹ فاونڈیشن کے این او سی کے باوجود پلاٹ کا قبضہ ملنے میں دشواری تھی۔ رکن صوبائی اسمبلی محمد ندیم قریشی اور پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات راجہ جہانگیر انور نے یہ معاملہ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار تک پہنچایا تو انہوں نے ان واجبات کی فوری ادائیگی کے احکامات جاری کئے۔ منگل کے روز ایوان وزیراعلیٰ پنجاب میں مذکورہ رقم کا چیک ایم ڈی اے کے حوالے کیا گیا۔ اس موقع پر وزیر اطلاعات پنجاب فیاض چوہان، پارلیمانی سیکرٹری اطلاعات محمد ندیم قریشی، سیکرٹری اطلاعات راجہ جہانگیر انور ، ڈی جی پی آر ڈاکٹر اسلم ڈوگر، ایم ڈی پنجاب جرنلسٹ ہاؤسنگ فاونڈیشن نبیلہ غضنفر، صدر ملتان پریس کلب شکیل انجم و دیگر افسران بھی موجود تھے۔ ملتان کی صحافی برادری کا تیرہ سالہ پرانا مسئلہ وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کی ذاتی دلچسپی سے حل ہوا۔ بے یقینی کی کیفیت ختم ہوئی، اب صحافی حضرات کو اپنے پلاٹوں کا قبضہ ملے گا اور وہ ان کو اپنے تصرف میں لاسکیں گے۔ میڈیا کارکنوں پر ان دنوں کڑا وقت چل رہا ہے۔ ادارے ڈاؤن سائزنگ کے عمل سے گزر رہے ہیں، ایسے میں ملتان کے صحافیوں کو تیرہ برس سے معطل پلاٹوں کا مل جانا کسی نعمت سے کم نہیں اور یہ سب سردار عثمان بزدار کی ذاتی دلچسپی سے ممکن ہوسکا۔ چیک ایم ڈی اے کے حوالے کرنے کے بعد جب میٹنگ کے شرکا رخصت ہوگئے تو سردار عثمان بزدار نے اس کالم نویس اور شکیل انجم کو علیحدگی میں کچھ وقت دیا۔ اس مختصر وقت میں وہ وزیر اعلیٰ نہ تھے۔ انیس سو چوراسی، چھیاسی میں ایمرسن کالج ملتان کا ایف ایس سی کا طالب علم اور انیس صد اکانوے، ترانوے میں زکریا یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کا متعلم عثمان بزدار ہمارے ساتھ تھا۔ دھیما، شرمیلا اور زیرِلب گفت گو کرنے والا۔ پرانے دوستوں کا حال احوال دریافت کرتے رہے اور کچھ ایسی یادیں تازہ کیں کہ جن کا تذکرہ ان سطور کا حصہ بنانا مناسب نہیں۔ انجم کاظمی کا ذکر ہوا اور غازی گھاٹ والے ناصر المانی کا۔ ماسک کے اوپر سردار صاحب کی چمکتی آنکھوں میں یادوں کے دیپ روشن تھے۔ اس موقع پر ان سے کہا کہ ڈیڑھ برس ہوگیا آپ ملتان آتے ہیں مگر ایمرسن کالج اور زکریا یونیورسٹی نہیں گئے۔ تب انہوں نے کہا "بالکل جانا ہے، دونوں ہی ادارے میرے دل میں دھڑکتے ہیں لیکن" اس لیکن کے بعد انہوں نے دو خوش خبریاں بریک کیں۔ پتہ نہیں وہ یہاں شئیر کرنی چاہئیں یا نہیں۔ میں ان کا ذکر فی الحال دانستہ گول کر رہا ہوں۔ یہ خوشی کی خبریں، وزیر اعلیٰ پنجاب خود بریک کریں تو زیادہ اچھا لگے گا۔ شکیل انجم کی دعوت پر جلد ہی وزیر اعلیٰ پنجاب نے ملتان پریس کلب کے دورے کا عندیہ دیا۔ ملتان کی صحافی برادری کو اپنے پلاٹوں کا قبضہ مبارک ہو۔ سردار عثمان بزدار اور ندیم قریشی کا بجا طور پر شکریہ۔ تاہم وزیر اعلیٰ پنجاب سے گزارش ہے کہ اب وہ جب بھی ملتان آئیں تو ایک ملاقات پرانے ہم جماعتوں کے ساتھ ضرور رکھیں۔ ابھی سے اپنے سٹاف کو اس امر کی ہدایت کر دیں تاکہ بعد میں سٹاف کے پاس کوئی بہانہ نہ رہے سردار صاحب کو دوستوں سے دور رکھنے کا۔