اس کے باوجود، NGOs کے لیے مجموعی طور پر ماحول 1990 کی دہائی کے اوائل سے یقینی طور پر محدود رہا ہے اور 2015 تک یہ جابرانہ شکل اختیار کر گیا، جو22 20 میں بھی جاری ہے۔ اس لیے یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ جبر کی موجودہ لہر کا فنانشل ایکشن ٹاسک فورس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جسٹس شاہد کریم کے ریمارکس اور CIVICUS رپورٹس کے نتائج بھی اسی درد کی بازگشت ہے۔ لہٰذا، ریاستوں کو شہری آزادیوں پر رکاوٹ و قدغن لگانے پر چیلنج کرنا ہوگا اور شاید ضرورت پڑے تو پرامن مزاحمت ہی واحد آپشن ہوگا۔ کیونکہ (i) سول سوسائٹی کا جبر فطرت کے خلاف ہے اور ان رویوں سے یہ افراتفری اور بغاوت کا باعث بنے گا۔ (ii) مزید، یہ بالآخر ریاست کی قانونی حیثیت کو ختم کر دیتا ہے۔ (iii)، سول سوسائٹی کا گلا گھونٹنا پاکستان کے آئین اور بین الاقوامی کنونشنز اور UNO کے معاہدوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔ (iv) وسیع تر سول سوسائٹی کے حصے کے طور پر این جی اوز پہلے سے ہی کچھ قوانین کے تحت رجسٹرڈ ہیں، اس لیے وہ نہ صرف ریاست کے سامنے جوابدہ ہیں بلکہ قانونی حیثیت بھی رکھتی ہیں۔ اور آخر میں، لوکلائزیشن پائیدار ترقیاتی اہداف کے نظام کا ایک اہم ستون ہے اور ملک اس مقصد کو این جی اوز کے لیے سازگار ماحول پیدا کیے بغیر حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ ریاستی حکام اور پالیسی سازوں کے پاس کمیونٹیز اور عام طور پر عوام تک پہنچنے کی مطلوبہ صلاحیتوں اور مہارتوں کا فقدان ہے۔یہ پہلو غور طلب ہے۔ پاکستان کی اپنی ترجیحی SDGs پر کارکردگی پہلے ہی قابل رحم ہے۔ اس لیے، اپنے لوگوں کی فلاح و بہبود کو ان کی شرکت سے بہتر بنانا شاید آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔ اور صرف این جی اوز اور سی بی اوز ہی ایسا کرنے کے اہل ہیں۔ وہ این جی اوز جن کا خاصلتاً غیر ملکی فنڈنگ پرانحصار ہے ، عوامی حمایت اور احترام سے محروم نظر آتی ہیں۔ پاکستان کی سول سوسائٹی کی تنظیموں پر کیے گئے ایک سروے کے مطابق خطرناک رجحانات سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے ممبران پارلیمنٹ، تاجروں، مزدور یونینوں، این جی اوز، صحافیوں، ماہرین تعلیم اور سیاست دانوں وغیرہ سے بات چیت کی تھی۔ سوائے خود این جی اوز کے، تقریباً ہر شریک گروپ نے این جی اوز کے کام کے بارے میں کسی نہ کسی حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔ اکثریت کا خیال تھا کہ این جی اوز مغربی طاقتوں کی ایجنٹ اور مغربی اقدار کو آگے بڑھاوا دیتی ہیں۔ یہاں مسئلہ صحیح یا غلط کا نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر این جی اوز کو غیر ملکی ایجنٹ سمجھا جاتا ہے، جو عوامی اعتماد کے فقدان کا نشان ہے۔ لہٰذا، شہری آزادیوں پر ریاستی سرپرستی میںرکاوٹوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے، این جی اوز کو اپنی سماجی وقانونی حیثیت اور حمایت کی بنیاد مضبوط کرنے کیلئے حکمت عملی تیار کرنا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے درج ذیل اقدامات پر غور کیا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے، ملک میں دسیوں ،سینکڑوںسماجی تحریکیں ہیں۔ این جی اوز اپنے فیلڈ آپریشن کے شعبوں میں اور قومی سطح پر ان کے ساتھ رضاکارانہ وقت اور مہارت کے ذریعے مضبوط روابط قائم کر سکتی ہیں۔ کچھ کا تعلق بہت طاقتور تاجروں جیسے ملز کے مالکان اور بڑے زمینداروں سے ہے۔ پھر ہمارے پاس پروفیشنل گروپس جیسے وکلاء ، ڈاکٹرز وغیرہ کی طاقتور انجمنیں بنتی ہیں۔ چونکہ یہ دونوں گروپ ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے اور ہماری بیشتر برائیوں کے ذمہ دار ہیں، لہٰذا ان انجمنوں کو بااختیار بنا کر ان طاقتور انجمنو ں کو جوابدہ بنایا جانا چاہئے جو یومیہ اجرت پر کام کرنے والے طبقے نے بنائی ہیں، جیسے ؛ جھاڑو دینے والے، حجام، ڈرائیور، نرسیں، اساتذہ، فیکٹری ورکرز، ہاکرز اور سب سے بڑھ کر ملک کی خواتین اور نوجوانوں وغیرہ کو این جی اوز نے عرصہ دراز سے نظر انداز کیا ہے۔ ان کے مقاصد میں شامل ہونے کا وقت آگیا ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ انجمنیں رکنیت پر مبنی ہیں، یہ باقاعدگی سے فیس ادا کرتی ہیں اور باقاعدگی سے اپنے انتخابات کرواتی ہیں۔ لہذا، وہ ہماری جمہوری طرز حکمرانی کی ریڑھ کی ہڈی بن سکتی ہیں۔ دوسرا، خواہشمند این جی اوز کو چاہیے کہ وہ مفاد عامہ کے مسائل کی نشاندہی کریں، پسماندہ انجمنوں اور کمیونٹیز کی مشاورت سے تین یا پانچ کو ترجیح دیں۔ ان کے ذریعے عام لوگوں کو اس مقصد کے لیے متحرک کریں۔ یہ مسائل ماحولیات، معیاری سماجی خدمات کی فراہمی اور ناانصافی اور استحصال کا خاتمہ ہو سکتے ہیں جو کہ طاقتور آجروں اور اہلکاروں کے ذریعے کیے جا رہے ہیں۔ اس سے آرٹیکل 3،37 اور 38کے نفاذ میں مدد ملے گی۔ این جی اوز کے کارکن اس مقصد کے لیے ہر ہفتے کے صرف ایک دن رضاکارانہ طور پر کام کر سکتے ہیں۔ لیکن انہیں اس کام میں کوئی غیر ملکی فنڈنگ شامل نہیں کرنی چاہیے۔ اس سے بالآخر ایک عظیم سماجی تحریک کی تعمیر میں مدد ملے گی۔ تیسرا، ذہین طبقے کی شناخت کریں اور ان تک پہنچیں جو بامعنی اصلاحات کے لیے سماجی چارٹر تیار کرنے کے لیے اپنا وقت، حکمت اور علم رضاکارانہ طور پر دینے کے لیے تیار ہے۔ آخر میں، چونکہ اس کام میں کوئی غیر ملکی یا مقامی فنڈنگ شامل نہیں ہوگی، اس لیے اس میں شامل این جی اوز کو ضلعی انتظامیہ سے EAD یا NOC کی اجازت درکار نہیں ہوگی۔ یہ ایک قانونی، آئینی اور جمہوری راستہ ہے جس سے عوام کا اعتماد اورسماجی حیثیت کو دوبارہ حاصل کیا جاسکتا اور ملک میں حقیقی سماجی تحریک کی تعمیر کی جا سکتی ہے۔ این جی اوز کو ایک اجتماعی اور آزاد آواز تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ (ختم شد)