عجیب طرح سے سوچا ہے زندگی کے لئے کہ زخم زخم میں کھلتا ہوں ہر خوشی کے لئے وہ مجھ کو چھوڑ گیا تو مجھے یقین آیا کوئی بھی شخص ضروری نہیں کسی کے لئے میں دیکھ رہا ہوں کہ علامتوں میں سیاست ہو رہی ہے۔بات سمجھنا اور سمجھانا دو مختلف عمل ہیں۔ ’’ایسے خبر ہے کہ اس کا کوئی نہیں اپنا اک آشنائی ہے کافی ہے اجنبی کے لئے۔بہرحال’’ خطا کسی کی ہو لیکن سزا کسی کو ملے یہ بات جبر نے چھوڑی ہے ہر صدی کے لئے اور’’ یہ سادگی تھی مری یا کہ سعد چاہت تھی کہ میں نے خود کو کیا پیش دل لگی کے لئے ۔جی اس سخن سرائی سے میں کوئی بات نکالنا چاہتا ہوں کہ دوستیاں اور وقت بدلتا رہتا ہے۔ لکھتے ہوئے ہمارے تو پر جلتے ہیں مگر ہم نقل ہی کر سکتے ہیں عمران خاں نے اسٹیبلشمنٹ کو خبردار کیا ہے کہ اس نے درست فیصلے نہ کئے تو فوج تباہ اور ملک کے تین ٹکڑے ہو جائیں گے جسے مخاطب کیا جا رہا ہے ممکن ہے اس میں کوئی اور ادارہ بھی رول ادا کر رہا ہو تاہم ہمیں اس موضوع پر سنجیدگی سے سوچنا ضرور چاہیے اس بیان میں سیف الدین سیف کے ایک نغمے کی سی صورت حال ہے کہ اظہار بھی مشکل ہے چپ رہ بھی نہیں سکتے مجبور ہیں اف اللہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتے لیکن یہاں تو سمجھنے والوں کے لئے بہت کچھ کہا جا رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ایسا بیان دینے سے احتراز کرنا چاہیے کہ جس سے اپنی ریاست کی کمزوری کا بیان ہو اور دشمن کو اندازے لگانے کی سہولت مہیا کی جائے ۔ میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ ہم یکجہتی اور اتحاد کی بات کریں۔آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کسی دلیل اور برہان کی بنیاد پر بات کی جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اقتدار کے حصول میں فائول نہ کھیلا جائے ایسی باتیں کرنے کی بجائے عمران خاں عوام سے رابطے میں رہیں پختونخواہ سے نکل کر دوسرے صوبے میں بھی جائیں یہ روایت اچھی نہیں کہ کوئی سندھ پر حصار کھینچ کر اپنا قلعہ بنائے اور کوئی پختون تک محدود ہو جائے۔ قومی لیڈر صوبائی سطح پر نہیں سوچتا۔میں پوری دیانتداری اور ہمدردی سے کہہ رہا ہوں کہ اس تاثر کو زائل کیا جائے کہ خان صاحب پی ٹی آئی کے لئے پختون خواہ کو کیمپ یا مرکز بنا کر وفاق پر یلغار کریں گے۔ ایک دوسری تصویر سامنے آتی ہے کہ موجودہ حکومت پیر جمانے کی کوشش کر رہی ہے تو یہ عین فطری ہے اس حوالے سے ان کی پھرتیاں اپنی جگہ ہیں کہ شہباز شریف اپنے پرانے دوست کے پاس پہنچ گئے ہیں ترک کمپنیوں کو سرمایہ کاری کی دعوت دی گئی ہے۔ تجارت 5ارب ڈالر تک بڑھانے میں اتفاق ہوا ہے عوام کی نظر میں یہ سب کچھ ہے۔ یقیناً آپ کو یاد ہو گا کہ ترک کمپنیوں لاہور کی صفائی ستھرائی کے لئے روبہ عمل تھی اور پھر تبدیلی پر اسے چھٹی کروا دی گئی اور صفائی کی صورتحال ایسی دگرگوں ہوئی کہ جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر لگ گئے اور پھر ترک کمپنی کا سامان اور مشینری بھی قبضہ میں لے لی گئی۔ شہباز شریف نے اس سے بھی آگے بڑھ کر بیان دیا کہ ملک میں سرمایہ کاری روکنے کی مذموم کوشش کی گئی ترک صدر وزیر خارجہ اور وزیر تجارت کے ساتھ وزیر اعظم کی ملاقاتیں اگر ثمر بار ہو گئیں تو اپنے ملک ہی کا فائدہ ہے دوسری بات یہ کہ کشمیر ایشو پر بھی بات کی گئی کہ اس مسئلے کو اجاگر کیا جائے گا اور پاکستان کا موقف دہرایا جائے گا کہ یو این او کی قرار دادوں کے مطابق اس کا حل ہے ۔آپ زرداری کے بیان کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے انہوں نے مزید کہا کہ اپنے پائوں پر کھڑے ہو کر سیاست کی جائے۔مقصد کہنے کا یہ ہے کہ یہ تینوں سٹیک ہولڈر ہیں جن کا میں نے تحریر بالا میں تذکرہ کیا ہے اب سوچنا تو عوام کو ہے کہ کون تعمیری کام میں مصروف ہے اور کون تخریب میں دلچسپی لے رہا ہے مثبت رویے ضروری ہیں: یہ جو اک صبح کا ستارا ہے دن نکلنے کا استعارا ہے جناب اپنی دائوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے سیدارشاد احمد عارف نے ایک سطر میں ہی بات سمجھا دی کہ عمران کس ڈگر پر چل پڑے بیان سے حیرانی ہوئی آپ کو بھی یاد ہو گا کہ بے نظیر کو اسی لئے چاروں صوبوں کی زنجیر کہا جاتا تھا کہ وہ وفاق کی بات کرتی تھیں یہ ذھن اور وژن کی بات ہے۔ بھٹو کا وژن اس سے بھی بلند تھا آپ جب خود کو محدود کرنے پر تل جاتے ہیں تو آپ اپنے دشمن کو سپیس دیتے ہیں کہ باقی سب کچھ اس کے حوالے کر دیں طاہرہ سرا کا ایک شعر ذھن میں آ رہا ہے: اوہ کہندا اے پیار وچ سب کچ چلدا اے میں کہندی آں پر اے ہیرا پھیری نہیں عمران خاں ایسی باتیں کر رہے ہیںتو ہر طرف سے ان پر تنقید ہونا شروع ہو گئی ہے کہ اقتدار جانے کے بعد وہ عجیب طرح کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ پہلے انہوں نے یہ کہا تھا کہ اس حکومت سے بہتر تھا کہ ملک پر ایٹم بم گرا دیا جاتا اس قدر تلخی اور غصہ اچھا نہیں کہ بندہ خود اپنے آپ کو ہی نقصان پہنچاتا ہے یونس متین کا ایک شعر ہے: طوفان ایک اور تھا گھر میں چھپا ہوا ہم اس لئے بھی گھر کی مرمت نہ کر سکے اب سپریم کورٹ کا فیصلہ ایک الگ مسئلہ ہے جو جگہ خود تحریک انصاف کی طرف سے مانگی گئی تھی وہ وہاں تک محدود نہیں رہی۔خان صاحب کو سوچنا چاہیے کہ ہوائیں ان کے خلاف چل رہی ہیں چلیے پھر بھی چار ججز نے حق میں بات کر دی لیکن وہ جو محمود خاں پر بات ہو رہی ہے کہ ان پر آرٹیکل لگتا ہے کہ انہوں نے کہا کہ وہ پختونخواہ کی پولیس لے کر وفاق جائیں گے بنیادی بات یہ ہے کہ خان صاحب کو سٹف اچھا نہیں ملا یہی وجہ ہے کہ وہ پنجاب کی قیادت سے مایوس ہوئے اور جنوبی پنجاب سے بھی۔زیادہ غیر منتخب نمائندوں پیرا شوٹرز اور الیکٹی بلز کے بل بوتے پر تحریک چلانا آسان نہیں۔ اگر موجودہ حکومت بھی کارکردگی دکھانے میں کامیاب نہ ہوئی تو نہیں بچے گی اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ خان صاحب پارلیمنٹ میں رہیں اور ن لیگ کی بری پرفارمنس کا انتظار کریں۔