لڑکپن کیا بچپن سے ہی اخبار بینی ہمارے روزمرہ معمولات کا حصہ رہی ہے۔ ہم نے گزشتہ نصف صدی میں ہر بجٹ کے بارے میں یہی پڑھا اورسنا کہ یہ ایک عوام دوست بجٹ ہو گا۔ بڑے سے بڑے ’’عوام دشمن‘‘ بجٹ کو بھی عوام دوست کہہ کر ہی پیش کیا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ کم و بیش وہی الفاظ‘ وہی تراکیب ‘ وہی خوشنما وعدے اور وہی مستقبل کے حسین سپنے سب کچھ یکساں چلا آ رہا ہے کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ البتہ ایک بجٹ مجھے ایسا یاد ہے کہ جو پنجاب کے ایک ادیب‘ شاعر‘ آرٹسٹ اور غریب نوازوزیرخزانہ جناب حنیف رامے مرحوم نے جس ادیبانہ و شاعرانہ انداز میں پیش کیا اسے سن کر ہم جھوم اٹھے تھے۔ انہوں نے کہا تھا۔’’وسائل محدود اور مسائل لامحدود ہیں اور میری مثال مصر کی اس بڑھیا جیسی ہے جو سوت کی اٹی لے کربازار مصر سے یوسف کی خریداری کے لئے نکل پڑتی ہو‘‘ موجودہ حکومت کے پاس تو کوئی ایسا خوش بیاں اور شیریں مثال وزیرخزانہ نہیں جو زہرکو اپنی شیریں بیانی سے قند بنا کر بیچارے مفلوک الحال عوام کے حلق سے نیچے اتار دے۔ اس حکومت نے نو دس ماہ تو گومگو اور اپوزیشن کو دھمکیاں دینے میں ضائع کئے۔ آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے نہیں جانا اور کب جانا ہے اس کے بارے میں کوئی واضح وژن نہ تھا۔ ہم نے بھی اپنی بساط کے مطابق چھ سات ماہ پہلے لکھا تھا کہ طواف کوئے ملامت کو بالآخر جانا پڑے گا، اس لئے بہتر ہے کہ ابھی چلے جائیں۔ سروے رپورٹ کے مطابق گزشتہ دس ماہ کے دوران حکومت کی اقتصادی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی ہے۔ حکومت نے شرح نمو کا ہدف 6.3فیصد مقرر کیا تھا مگر وہ 3.3فیصد تک بھی نہیں پہنچا اور گروتھ ریٹ کے مزید نیچے آنے کا خدشہ ہے۔ صنعتی میدان میں ترقی کا ہدف 7.6فیصد مقرر کیا گیاتھا مگر یہ ہدف خوفناک حد تک نیچے گرا اور شرح نمو صرف 1.4فیصد رہی۔مینو فیکچرنگ کے شعبے میں ہدف8.1فیصد مقرر کیا گیا تھا مگر یہ ہدف نہ صرف پورا نہیں ہوا بلکہ اس میں منفی دو فیصد کمی ہوئی۔ کاٹن‘ چاول وغیرہ کی پیداوار کے ہدف میں بہت کمی ہوئی۔ میں عام قاری کے لئے شرح نمو کی وضاحت کر دوںکہ یہ کس بلا کا نام ہے۔ سادہ الفاظ میں یوں سمجھیے کہ اگر اس وقت گندم 100روپے کی پیدا ہو رہی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ اگلے سال 105روپے کی پیدا ہو تو یہ اضافہ 5فیصد شرح نمو کہلائے گی۔ میں نے گزشتہ شب وزارت خزانہ کی ایک نہایت ہی محترم سابق شخصیت سے اسلام آباد بات کی تاکہ موجودہ معاشی صورت حال کی حقیقی تصویرکو سمجھا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ محاورتاً نہیں حقیقتاً معاشی صورت حال جتنی تشویشناک آج ہے۔ پہلے کبھی نہ تھی اور اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ان انتہائی سنجیدہ اور پیچیدہ معاملات کا حکومتی سطح پر کوئی خاص ادراک بھی نہیں۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان سے ہمارا احترام کا اور پنجاب حکومت کے مرکزی ترجمان ڈاکٹر شہباز گل کے ساتھ دیرینہ رفاقت کا رشتہ ہے مگر بجٹ جیسے اہم معاملے پر دونوں شخصیات کے سطحی تبصرے اور اپوزیشن کے بارے میں طنزو طعنے کے تیروں کی بوچھاڑ دیکھ کر اندازہ ہوا کہ انہیں معیشت کی نازک صورتحال کا کچھ اندازہ نہیں۔ البتہ گزشتہ روز وزیر اعظم کے معاون خصوصی جناب نعیم الحق نے نہایت مثبت سنجیدہ اور بروقت بات کہی ہے۔ انہوں نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ لندن میں طویل قیام کے بعد فریش ہو گئے ہوں گے۔ امید ہے کہ آپ بجٹ سیشن میں مثبت اور تعمیری رویہ اختیار کریں گے۔ نعیم الحق کا یہ جملہ حکومتی پالیسی میں مثبت تبدیلی کی جھلک دکھا رہا ہے کہ ’’انتشار کی سیاست چھوڑی اور صحت مندانہ بحث کو فروغ دیں‘‘ گزشتہ دس ماہ کے دوران اقتصادی شعبے میں حکومت کی جو کارکردگی سامنے آئی ہے وہ خالصتاً اس کی اپنی کارکردگی ہے اس میں کسی پرانی حکومت کا کوئی حصہ نہیں۔ حکومت نے 44سو ارب روپے کا ٹیکس جمع کرنے کا ہدف مقرر کیا تھا مگر صرف 3300ارب جمع ہوئے اگلے بجٹ کے لئے حکومت نے 5500ارب کا ٹیکس حاصل کرنے کا ہدف ایف بی آر کو دیا ہے کہ جس کنفیوژن کی شکارحکومت سے مکمل ہونا تقریباً ناممکن ہے۔ جو اعداد و شمار اب تک مل سکے ہیں ان کے مطابق 2ہزار 900ارب روپے کے خسارے کا بجٹ پیش کیا جائے گا۔ خسارہ زیادہ سے زیادہ ریونیو اکٹھا کر کے پورا کیا جاتا ہے۔ مگر 5500ارب روپے ٹیکس کے طور پر اکٹھے کرنا اونچے پہاڑ بلکہ کوہ ہمالیہ پرچڑھنے کے مترادف ہے اور حکومتی پارٹی میں کوئی ایسا کوہ پیما دکھائی نہیں دے رہا جو اس بلند و بالا ہدف تک پہنچ پائے گا۔ دنیا میں بجٹ کیسے تیار ہوتا ہے؟ چلیے زیادہ دور نہیں جاتے اپنے ہی جیسے معاشی و معاشرتی حالات والے بھارت کی مثال لیتے ہیں۔ بھارت میں بجٹ سازی کا عمل بجٹ پیش کرنے کی تاریخ سے چھ سات ماہ شروع ہو جاتا ہے۔ بجٹ سازی کے عمل میں پارلیمنٹ کو مکمل طور پر شامل کیا جاتا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ایوان کی قائمہ کمیٹیاں بھر پور ہوم ورک کے بعد اپنی تجاویز دیتی ہیں جن کو بجٹ کی تیاری میں ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ پھر بجٹ پیش کرنے کے بعد جب ایوان میں اس پر بحث ہوتی ہے تو حکومت حزب اختلاف کی تنقید کو خوش دلی سے سنتی اور ان کی تجویزکردہ اصلاحات کو بجٹ میں شامل کرتی ہے۔ یہاں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ یہاں ہر حکومت اپوزیشن سے مشورہ لینے کو اپنی ہتک عزت سمجھتی ہے اور افراتفری میں خفیہ طور پر ’’بجٹ سازی‘‘ کرتی ہے۔ جب بجٹ ایوان میں پیش کیا جاتا ہے تو حکومتی ارکان اسے ایک ضابطے کی کارروائی کے طور پر ایوان میں پیش کرتی ہیں اور اپوزیشن بجٹ کے بارے میں اپنی تجاویز ایسے پیش کرتی ہے جیسے کسی ڈیبیٹنگ سوسائٹی میں پیش کر رہی ہو کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی بات سنی ان سنی کر دی جائے گی۔ بقول شاعر ؎ مجھ سے بے فائدہ ہے میری حسرتوں کا پوچھنا تم وہی آخر کرو گے جو تمہارے دل میں ہے حکومت کو کیا کرنا چاہیے؟ حکومت کو فی الفور حالات کی سنگینی کا ادراک کرنا چاہیے۔ اپوزیشن کے بغیر دو چار مانگے تانگے کے ووٹوں کی حکومت چار والی نہیں دو پہیوں والی گاڑی ہوتی ہے۔ معیشت کے علاوہ حکومت نے اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کو جواز فراہم کرنے کے نئے سے نیا محاذ کھولتی جا رہی ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کا محاذ‘ پشتون تحفظ موومنٹ کے خلاف محاذ‘ اپوزیشن کو منہ نہ لگانے کا محاذ اور تاجروں و سرمایہ کاروں کو ڈرانے دھمکانے کامحاذ وزیر اعظم کے ایمنسٹی سکیم کے بارے میں آج کے پریشان کن خطاب سے سمجھ لینا چاہیے کہ یہ اسکیم بھی سرمایہ باہر لانے میں ناکام رہی ہے۔ حکومت فی الفور کم از کم معاشی سطح پر محاذ آرائی بند کرے۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے ساتھ مفاہمت اختیار کرے۔ اپوزیشن کی بجٹ تجاویز کو سنجیدگی سے بجٹ کا حصہ بنائے اور دھمکیاں دینے کا سلسلہ بند کرے۔ بجٹ سے پہلے یہ مہنگائی کے ہاتھوں عوام کی چیخیں بلند ہو رہی ہیں اب نئے سے نیا بلاواسطہ و بالواسطہ ٹیکس لگا کہ اگر حکومت عوام کو زندہ درگورکر دے گی تو پھر تنگ آمد بجنگ آمد ہو گا۔ دمادم مست قلندر ہو گا اوربقول اسفند یار ولی یہاں خونی انقلاب آئے گا۔ اللہ نہ کرے کبھی ایسا ہو۔ حکومت ہوشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے حقیقی معنوںمیں بجٹ کو عوام دوست بنائے اور ایسے تمام انقلابوں کا راستہ بند کر دے۔