روزنامہ 92 نیوز کی گزشتہ روز کی سپر لیڈ وزیر خزانہ اسد عمر کی 92 نیوز کے پروگرام میں کی گئی گفتگو سے متعلق تھی ۔ جس میں انہوں نے کہا کہ روپے کی قدر گرنا نہ سازش ہے اور نہ ہی آئی ایم ایف نے کہا کہ ڈالر 150 کا کریں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وزیراعظم سے ڈانٹ نہیں پڑی تاہم کچھ لوگوں کی یہ خواہش ضرور ہوگی ۔ جناب اسد عمر صاحب ! کسی کو یہ خواہش کیوں ہوکہ اسد عمر کو ڈانٹ پڑے لیکن یہ حقیقت تو آپ تسلیم کریں کہ آپ کے آنے کے بعد معاشی مسائل میں کمی کی بجائے اضافہ ہوا ہے اور ملک کے غریب اور پسے ہوئے طبقات کو تبدیلی مشکلات کے اضافے کی شکل میں ملی ہے ۔ 92 نیوز کی دوسری لیڈ سٹوری چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار کی طرف سے طبی سہولتوں کی مخدوش صورتحال سے متعلق تھی ۔ انہوں نے ہسپتالوں میں وینٹی لیٹر کی عدم دستیابی پر بھی برہمی کا اظہار کیا ۔ وینٹی لیٹر کی عدم دستیابی پر برہمی کا اظہار بالکل بجا اور درست ہے لیکن اگر سرائیکی وسیب میں آ کر دیکھا جائے تو ہسپتالوں میں وینٹی لیٹر تو کیا معمولی ادویات بھی میسر نہیں ۔ ایک خبر فواد چوہدری سے متعلق شیخ رشید کا بیان ہے ۔ فواد چوہدری کہتے ہیں کہ میں شیخ رشید کیلئے وزارت چھوڑنے کو تیار ہوں جبکہ شیخ رشید کہتے ہیں کہ فواد چوہدری میرے بھائی ہیں ۔ اس ضمن میں سینئر صحافی ، معروف تجزیہ نگار اور گروپ ایڈیٹر روزنامہ 92 نیوز ارشاد احمد عارف نے شیخ رشید کے وزارت اطلاعات کے حوالے سے بیان پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شیخ رشید کیلئے وزارت اطلاعات مناسب فیصلہ ہے، فواد چوہدری دباؤ سے چھٹکارا پا کر خوش ہونگے۔ شیخ رشید ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہی نہیں بلکہ کامیاب وزیر اطلاعات گردانے جاتے ہیں ۔ جناب ارشاد عارف کے تجزیہ میں یہ اضافہ کروں گا کہ جناب فواد چوہدری سے جو توقعات تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں ۔ تحریک انصاف میں فواد چوہدری اور اسد عمر کو بگ گن کہا جاتا تھا مگر افسوس کہ ان دونوں کی وجہ سے نہ صرف یہ تحریک انصاف بلکہ عوام کو بھی سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ آج میڈیا سخت مشکلات کا شکار ہے ۔ ٹی وی چینلز اور اخبارات کے واجبات کی ادائیگیاں نہیں ہو رہیں ۔ اشتہارات نہ ہونے کے برابر ہیں اور بہت سے اداروں میں چھانٹیوں کی وجہ سے ہزاروں لوگ بے روزگار ہوئے ہیں ۔ سب لوگ آنے والی حکومتوں سے ریلیف چاہتے ہیں ، اس کے بدلے انہیں تکلیف ملی ہے ۔ تحریک انصاف کو اس مسئلے پر غور کرنا چاہئے ۔ 92نیوز کی ایک خبر چولستان میں پانی سے متعلق ہے ۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ چولستان میں ٹوبھے خشک ہو گئے ہیں ، پانی کی سخت قلت ہے ، خشک سالی کی وجہ سے جانور ہلاک ہو رہے ہیں اور لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں ۔ چولستان سے ملحقہ علاقہ راجھستان ہے جو کہ انڈیا کی حدود میں آتا ہے ، درمیان میں لوہے کی باڑ ہے ۔باڑ سے دوسری طرف راجھستان میں پانی ، ہریالی اور زندگی ہے جبکہ چولستان میں افلاس ، پیاس اور موت ہے ۔ یہ بھی دیکھئے کہ دریائے ستلج کی فروختگی کے بعد سرائیکی وسیب کے اضلاع بہاولپور ، بہاولنگر ، لودھراں اور رحیم یارخان میں ایک اور چولستان وجود میں آ رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارت سے مذاکرات کر کے دریائے ستلج کو زندہ کیا جائے۔ روزنامہ 92 نیوز ملتان میں ہائی کورٹ بنچز کے لئے وکلاء کی ہڑتال سے متعلق شائع ہوئی ہے ۔ فیصل آباد، سرگودھا اور ڈی جی خان کے وکلاء ایک عرصے سے ہائیکورٹ کے بنچز کے قیام کیلئے ہڑتال کر رہے ہیں ۔ وکلاء نے 13 دسمبر کو لاہور میں دھرنے کا بھی اعلان کیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ مال روڈ پر بھرپور احتجاج اور دھرنا ہوگا اور ہم اس وقت ہی واپس آئیں گے جب ہمارے مطالبات تسلیم کر لئے جائیں گے ۔ دوسری طرف لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس محمد انوارالحق کا یہ بیان ہے کہ ہائیکورٹ کے انفراسٹرکچر کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ عدلیہ کے پاس کمرے نہیں ،جس کمرے میں ایک افسر کی جگہ ہے، وہاں 4 افسر کام کر رہے ہیں ۔ ان حالات میں وکلاء کی طرف سے نئے بنچزکا مطالبہ بھی بجا اور درست ہے کہ اس طرح کام کی تقسیم ہوگی ۔ اسی طرح ملتان ہائیکورٹ کے وکلاء نئے صوبے کے قیام اور مکمل ہائی کورٹ کا مطالبہ ایک عرصے سے کرتے آ رہے ہیں ، ہر جمعہ کو ہڑتال بھی کی جاتی ہے ، ان مطالبات پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ روزنامہ 92 نیوز ملتان کی ایک خبر کے مطابق صوبے کا وعدہ پورا نہ کرنے کے خلاف سرائیکستان قومی کونسل کی طرف سے دولت گیٹ پر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا ۔مقررین نے کہا کہ صوبہ بنانے کیلئے 100 دن کا وعدہ کیا گیا؟ وسیب کو ملتان بہاولپور کے نام پر لڑانے کی بجائے صوبہ دیا جائے۔جھوٹ بولنے والے صادق اور امین کیسے ہو سکتے ہیں ، اگر صوبہ نہیں بنانا تھا تو وعدہ کیوں کیا ؟ جھوٹے وعدے پر آئین کے آرٹیکل 62، 63 کا نفاذ ہونا چاہئے ۔ ظلم تو یہ ہے کہ وسیب سے پی پی اور ن لیگ نے بھی دھوکہ کیا اور اب جنوبی پنجاب صوبہ محاذکے قائدین نے وزارتیں اور مراعات کے عوض اپنا مشن فروخت کر دیا ۔حکمران جنوبی پنجاب کے سب سول سیکرٹریٹ کے قیام کا جزوی اعلان کر کے عوام کو بھول بھلیوں میں ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ طارق بشیر چیمہ ، مخدوم خسرو بختیار ، میر بلخ شیر مزاری اور نصر اللہ دریشک ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ، ان کا مقصد سرائیکی صوبہ نہیں اقتدار ہے، جو کام ان سے انجام پذیر نہیں ہو رہے ، اس کے لئے آپس میں ہی دکھاوے کی لڑائی کر کے یہ پاکستان کے اہم مسئلے کو لٹکانے کی کوشش میں مصروف ہو گئے ۔ محمد علی درانی اور طارق بشیر چیمہ جو آج بہاولپور صوبہ کی بحالی کی بات کر رہے ہیں ، ماضی میں ان کے بڑوں نے صوبے کا مطالبہ کرنے والوں پر گولیاں چلانے والوں کی حمایت کی۔