امریکہ کی ریاست منی سوٹا کے شہر منیا پولس میں حال ہی میں ایک نہتے سیاہ فام جارج فلائیڈ کے پولیس کے ہاتھوں قتل عمد کے بعد پورا ملک شدید ہنگامہ آرائی کی لپیٹ میں آ گیا۔ واشنگٹن ،نیویارک ،لاس اینجلس ،فلا ڈیلفیا ،منی سوٹا سمیت 20 ریاستوں میں بڑے بڑے احتجاجی مظاہرے ہوئے اور 40 شہروں میں کرفیو نافذ کیا گیا۔نیویارک اور ہوسٹن میں لوٹ مار کے بھی کئی واقعات ہوئے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس کے سامنے مظاہرین کے خوف سے وائٹ ہاؤس میں بنے بنکر میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔امریکہ بھر میں اس احتجاج کے دیکھا دیکھی مغربی ممالک میں بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔امریکہ میں سیاہ فام جو آبادی کا 12.6 فیصد ہیں ، پولیس کے مسلسل ظلم وستم اور پرلے درجے کی نسل پرستی کا شکار ہیں۔ کورونا وبا جس میں ایک لاکھ دس ہزار سے زائد امریکی مارے جا چکے ہیں اور دنیا کی یہ واحد سپر پاور آہستہ آہستہ لاک ڈاؤن بھی کھول رہی ہے وہاں امریکیوں کا یہ غم و غصہ کسی حد تک چونکا دینے والا تھا۔ ٹرمپ کی اس دھمکی نے کہ لوٹ مار کرنے والوں کو شوٹ کر دیا جائے گا ، جلتی پر تیل کا کام کیا۔ لاابالی طبیعت رکھنے والے ٹرمپ سفید فاموں کی اجارہ داری کے علمبردارہیں۔ان کا ووٹ بینک بھی امریکہ میں انتہائی دائیں بازو کے نظریات رکھنے والی سفید فام آبادی ہے۔ ٹرمپ اپنے مقاصد کے لیے فوج کو بھی استعمال کرنا چاہتے ہیں جس پرکڑی نکتہ چینی بھی کی گئی ہے۔ مائیک مولن جو امریکہ کے70ویں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف ہیں نے ایک مضمون میں جس کا عنوان ہے کہ’’ میں اب خاموش نہیں رہ سکتا‘‘ ،امریکی صدر کی نیشنل گارڈ کے پرامن مظاہرین پر تشدد کی مذمت کرتے ہوئے لکھا کہ وہ خود سفید فام ہیں لیکن اس ملک میں سیاہ فام آبادی کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کو خاصی حد تک سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں بطور شہری افریقی امریکیوں کے ساتھ پولیس تشدد اور مسلسل ناانصافیوں کے مسئلے کو حل کرنے کی بھرپور سعی کرنی چاہیے۔ انھوں نے اس پر کف افسوس ملا کہ امریکہ میں فوج یا نیشنل گارڈز کے نیم فوجی دستوں کو بھی ان کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ ہمارے فوجی قانونی احکامات پر عمل کرنے کے پابند ہیں لیکن انہوں نے موجودہ کمانڈر انچیف کے احکامات کی اصابت پر شکوک وشبہات کا اظہار کیا، ان کا کہنا ہے کہ ہمارے ساتھی اور شہری دشمن کی فوج نہیں ہیں،ان کیساتھ ایسا سلوک نہیں کرنا چاہئے۔ اس قسم کے جذبات کا اظہار ایک اور سابق جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل Dempseyنے بھی کیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ امریکہ ایک سپرپاور ہے کوئی تیسری دنیا کی "بنا ناری پبلک" نہیں لیکن ٹرمپ کی پوری کوشش لگتی ہے کہ وہ امریکی جمہوریت کے چیک اینڈ بیلنس کے نظام کو سبوتاژ کر کے آمر مطلق کا روپ اختیار کر لیں۔امریکی آئین کے تحت شاید ایسا کرنا ناممکن ہے لیکن امریکہ اور دنیا بھر میں ہونے والے مظاہروں میں سفید فام لوگوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی اور اس قسم کے مظاہرے زندہ قوم کی علامت ہوتے ہیں۔ٹرمپ جتنی بھی کوشش کریں نومبر میں ہونے والے انتخابات میں ان کا دوبارہ جیت جانا بہت مشکل نظر آ رہا ہے۔دنیا میں یہ کوئی پہلی مثال نہیں ہے کہ ظلم وجبر، آمریت اور ناانصافی سے تنگ آئی ہوئی قومیں اٹھ نہ کھڑی ہوتی ہوں لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس قسم کی مجموعی طور پر رائے عامہ کا سڑکوں پر اظہار کامیا بی سے بھی ہمکنار ہو۔ دنیا میں کئی مثالیں ملتی ہیں جب عوام کی طاقت کو ریاستی ظلم وتشدد سے کچل دیا گیا۔ 1956ء میں مشرقی یورپ کے ملک ہنگری میں جسے’ ہنگرین انقلاب ‘ بھی کہا جاتا ہے، عوام سوویت یونین کی فوجوں کے تسلط کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے اور بارہ روز بعد ہی ڈیڑھ لاکھ سوویت فوجوں نے اس مزاحمت کو اپنے3000 ٹینکوں کے نیچے روند ڈالا۔ 20000 سے زیادہ ہنگرین کو ہلاک کر دیا گیا ،ڈھائی لاکھ وطن چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ واضح رہے کہ ہنگری میں اشتراکی حکومت کے قیام کے بعد چھ لاکھ سے زیادہ ہنگرین کو سوویت یونین میں بیگار کیمپوں میں قید کر دیا گیا تھا ، لاکھوں افراد مار دئیے گئے۔1968ء میں مشرقی یورپ کی ایک اور ریاست چیکو سلواکیہ میں انقلاب برپا ہو گیا اور وہاں کی قیادت نے سیاسی لبر لائزیشن کی پالیسیوں پر عمل درآمد شروع کر دیا جسے چیکو سلواکیہ کے دارالحکومت پراگ کے حوالے سے ’پراگ سپرنگ ‘ بھی کہا جاتا ہے۔اس وقت چیکو سلواکیہ کے صدر Alexander Dubcekکی کوششوں کو سوویت ٹینکوں کی قوت سے روند دیا گیا۔ چند برس قبل ہی دنیائے عرب کے ممالک بالخصوص مصر ،الجزائر ،مراکش ،شام اور لیبیا میں ’’عرب سپرنگ‘‘ہوا۔ اگرچہ یہ انقلاب صرف محدود پیمانے پرکامیاب ہو سکا لیکن ان ممالک میں آج بھی حقیقی جمہوریتیں نہیں آ سکیں تاہم اس کے اثرات بھی دیکھے جا سکتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جدوجہد ہمیشہ ناکام رہتی ہے۔ مشرقی یورپ کے ایک اور ملک رومانیہ میں وہاں کے کرپٹ آمر نیکولائی چاؤشسکو کو دبوچ لیا گیا اور پھر پھانسی پر چڑھا دیا گیا جس کے بعد ملک میں نسبتاً ایک جمہوری نظام آ گیا۔ مشرقی یورپ میں بھی سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد عوامی امنگوں کے نتیجے میں دیوار برلن منہدم ہو گئی۔ اب مشرقی یورپ کے اکثر ممالک میں نسبتاً جمہوری نظام پنپ رہے ہیں۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ہنگری میں Viktor Orbanجمہو ریت کے نام پر آمر مطلق بن بیٹھے ہیں۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت کیا ہے، پاکستان میں بھی مسلسل عوامی جدوجہد اور قربانیوں کے نتیجے میں ہی جمہوریت کا احیا ہوا۔ پاکستان کے پہلے فوجی آمر ایوب خا ن جن کو اپنی اصلاحات پر اتنا ناز تھا کہ ایک دہائی کے بعد اس کا باقاعدہ جشن منایا گیا، عوامی جدوجہد جس کی قیادت ان کی کابینہ کے ایک سابق رکن ذوالفقار علی بھٹو کر رہے تھے ‘کے نتیجے میں ایوب خان کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔ایوب خان کے خلاف بغاوت راولپنڈ ی کے طلباء پر فائرنگ کے نتیجے میں شروع ہوئی تھی۔یہ الگ داستان ہے کہ ایوب خان اپنے ہی گھنٹہ گھر نما آئین پر عمل کرنے کے بجائے اس وقت فوج کے سربراہ جنرل یحییٰ خان کو عنان اقتدار دے کر اور اپنے لیے محفوظ راستہ لے کر رخصت ہوئے تھے جس کے نتیجے میں پاکستان دولخت بھی ہو گیا۔ پھر 1977ء میں بظاہر دھاندلی کے خلاف ایک تحریک کے نتیجے میں جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اوراسلام کے نام پر گیارہ برس تک سفاکانہ آمریت نافذ کر دی جس نے آئین اور قانون کا حلیہ ہی بدل کر رکھ دیا جس سے آج تک پاکستان نبرد آزما ہو رہا ہے۔ اس کے بعد جمہوریت تو بحال ہوئی لیکن 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے اس پر شب خون مارا ، وہ بزغم خود قوم کے مسیحا بن گئے لیکن عوام ان سے اس حد تک اکتا چکے تھے کہ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کے لیے چلنے والی تحریک ،بحالی جمہوریت کی تحریک بن گئی۔ لیکن آج ہم کہاں کھڑے ہیں ،مختلف حیلوں بہانوں اور خفیہ طریقوں سے جمہوریت اور جمہوری اداروں کو سبوتاژ کیا جا رہا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو بھی تاریخ اور دنیا میں اپنے ارد گرد ہونے والے واقعات سے سبق سیکھنا چاہیے۔ پاکستان اپنے قیام کے بعد انتہائی سنگین بحران سے گزر رہا ہے، ایک طرف معیشت تباہ حال ہے دوسری طرف Covid 19نے عوام کے مورال اور روزگار کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے لیکن اس کے باوجود ریاستی ادارے اپنی ہی ڈفلی بجائے جا رہے ہیں۔حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی عروج پر پہنچ چکی ہے کہیں ایسا نہ ہو عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے اور وہ سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہو جائیں۔ پاکستانی زندہ قوم ہیں اور ایسا مرحلہ آ سکتا ہے۔ ہمارے حکمران طبقوں اور اشرافیہ کو عوام کے صبر کا مزید امتحان نہیں لینا چاہیے کیونکہ اگر انقلاب آیا تو اس میں بھوک سے تنگ عوام کے ہاتھوں لوٹ مار جیسے واقعات کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ امریکہ میں ایسا ہو سکتا ہے تو پاکستان کسی اور سیارے کا ملک نہیں۔