گلگت بلتستان کے انتخابات کی دھوم ہے۔ تمام فریق ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے ’’میں ‘‘ کے بخار میں مبتلا ہو کر نہ صرف خود کو نجات دہندہ بتا رہے ہیں بلکہ پھنے خانی بھی دکھا رہے ہیں۔ سینہ چوڑا کرکے اپنے کارنامے گنوا رہے ہیں اور پہاڑوں کے بیچ اور خوبصورت مناظر سے مالا مال علاقوں میں رہنے والوں ، لیکن غربت کی دلدل میں غوطے کھاتے لوگوں کو مستقبل کے سہانے خواب دکھا رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ انتظامی سیاسی اور معاشی اصلاحات مقامی آبادی کی امنگوں کی عکاس ہے لیکن جوش خطابت میں ایسی ایسی بونگیاں ماری جا رہی ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ خاص طور پر ایک وفاقی وزیر تو تمام حدود پھلانگ گئے ہیں، انہیں دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی فلم کی عکس بندی میں امیتابھ بچن کسی ولن کو للکار رہا ہو۔ اگر تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو یہ حقیقت ہے کہ جہاں وطن عزیز سیاسی جدو جہد کے نتیجے میں وجود آیا وہاں گلگت بلتستان وہ خطہ ہے جس کے سپوتوں نے بندوق اٹھا کر آزادی حاصل کی ۔ اس خطے کی پوری تاریخ پولیٹیکل ایجنٹ کی تعیناتی ، حکمرانی مختلف ادوار ، نوجوانوں کی جد و جہد ، عوامی خواہشات ، باہمی سیاسی تضادات سے رقم ہے ۔ پہلی بار جب ذولفقار علی بھٹو کی حکومت آئی تو اس علاقے کی قسمت نے پلٹا کھایا۔ 1974ء میں نادرن ایریا کونسل قائم ہوئی۔ راجوڑوں اور ریاستوں کا خاتمہ ہوا۔ سلاخوں کے پیچھے مقید سیاسی قیدیوں کو رہائی ملی ۔ 1979ء میں شاہراہ قراقرم کی تعمیر سے اس علاقے میں نئے دور کا آغاز ہوا۔ پاکستان کے تمام علاقوں تک رسائی اور رابطوں کا سلسلہ شروع ہو گیا وہاں کے لوگوں کے احساس اور شعور نے کروٹ لی۔ ظاہر ہے کہ جب آمدو رفت بڑھی تو اس کے اثرات کے طور پر معاشرت ، سماجی اور معاشی حالات میں خوشگوار تبدیلی کا آغاز ایک فطری عمل تھا۔ 1994 ء میں بے نظیر بھٹو کے دور میں جماعتی بنیاد پر کونسل کے انتخابات میں بھر پور حصہ لیا۔ بین الاقوامی طور پر اور ریکارڈکے حوالے سے یہ کشمیر کا حصہ بنے سیاسی طور پر ایک قدرمشترک ہے کہ جس جماعت کا اقتدار اسلام آباد میں ہوتا ہے وہی جماعت کشمیر اور بلتستان میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوتی ہے۔ 2009ء میں ایک بار پھر آصف علی زرداری کی سر کردگی میں پیپلز پارٹی نے سیلف گورننس ایکٹ متعارف کرایا۔ 2015ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے علاقائی اقتدار اور اختیار کے لئے سرتاج عزیز کی سربراہی میں بننے والی کمیٹی نے نئی جہتوں پر کام کیا اور اس سلسلے میں بڑی موثر شفارشات اور تجاویز مرتب کیں لیکن ان پر عمل نہ ہو سکا ۔ اب انتخابات کے حوالے سے پاکستان کی تینوں بڑی جماعتوں پی ٹی آئی ، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میدان میں ہیں اور جیت کے لئے پوری وادی کی فضائوں میں دعوئوں اور وعدوں کا شور ہے۔ ایک دوسرے پر بے رحمانہ تنقید ہو رہی ہے۔ شائستگی کے دامن چھوڑ کر فریقین ریڈ لائن کراس کر رہے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ یہ ایک دوسرے کے سیاسی حریف نہیں دشمن ہیں۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام فریقین ریڈ لائن کراس نہ کریں۔ اعتدال پسندی ہی بہترین پالیسی ہے۔ اس وقت صورت حال ایسی ہے کہ وفاقی حکومت اور اپوزیشن میں شامل تمام پارٹیاں انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنائیں اور ان چیلنجوںکو ملحوظ خاطر رکھیں جن کا وطن عزیز کو اس وقت سامنا ہے۔ بہت احتیاط اور دانشمندی سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ جی ہاں جناب وزیر اعظم ۔ تاریخ بڑی سنگدل ہے اسے حکمرانوں کی ذاتی ایمانداری اور انفرادی اخلاق سے کوئی غرض نہیں ۔ وہ صرف بڑے لوگوں کے کارنامے دیکھتی ہے اور آپ تو ریاست مدینہ کی بات کر رہے ہیں۔ اگر آپ واقعی چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کو سلیوٹ کریں تو خدا کے لئے اس قوم کے ساتھ انصاف کر جائیں ۔ آپ خوب صورت باتیں کرتے ہیں اور آپ کا مطالعہ بھی شاندار دکھائی دیتا ہے تو آپ نے تاریخ کی یہ حقیقت بھی پڑھی ہو گی کہ اللہ کے بندوں کو مایوس کرنے والے لوگ تاریخ کے بجائے کوئز بکس میں زندہ رہتے ہیں ۔ جنہیں بچے ، پہیلیوں کی طرح بوجھتے اور کہانیوںکی طرح کہتے ہیں۔آپ نے کبھی سوچا کہ وہ لوگ جنہوں نے آپ کو کندھوں پر بٹھا کر ایوان اقتدار تک پہنچایا اور آپ کے وہ اتحادی جن کی مدد سے آپ وزیر اعظم ہائوس تک پہنچے ، وہ آپ سے شاکی کیوں ہیں۔ عوام تو مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ آ کر آپ سے مایوس ہو رہے ہیں اور آپ کے اتحادی آپ کے رویئے سے شاکی ہیں ۔ چودھری شجاعت اور چودھری پر ویز الٰہی کی وضعداری کی ایک تابندہ مثال مجھے یاد ہے جب مشرف کے دور میں نوازشریف پابند سلاسل تھے تو ان کی اہلیہ کلثوم نواز نے قیادت کی باگ ڈور سنبھالی ۔ امکان اس بات کا تھا کہ انہیں گرفتار کر لیا جائے گا اس لئے وہ جاتی عمرہ سے نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر مجید نظامی کے گھر چلی گئیں ۔ جب چودھری شجاعت کو علم ہوا تو وہ خود مجید نظامی صاحب کے گھر گئے اور بیگم کلثوم نواز کو اپنے ساتھ بٹھا کر اپنے گھر لے آئے ۔ انہوںنے کلثوم نواز سے کہا کہ آپ میر ی بہن ہیں اور یقین رکھیں کہ میری زندگی میں آ پ کو کوئی ہاتھ لگا نہیں سکتا ۔ جناب وزیر اعظم آپ خود سوچیں کہ جب چودھری برادران آپ سے شاکی اور نالاں ہوں تو پھر کہیں نہ کہیں آپ کے کیمپ میں گڑ بڑ ضرور ہو گی۔ اس وقت ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق آپ کی حکومت کے لئے بیساکھیاں ہیں۔ یہ بھی گلے شکوے کر رہے ہوں اور دوسری طرف اپوزیشن آپ پر دبائو بڑھا رہی ہے۔ ایسی صورت حال میں آ پ کو بہت سرعت کے ساتھ فیصلے کرنے ہو نگے اور اپنے رویئے بدلنے ہونگے ۔ اگر آپ کابینہ میں اپنے ساتھیوں کی نہیں سنیں گے تو سسٹم بیٹھ جائے گا ۔ آپ کے آپشن کم ہوتے جا رہے ہیں، اگر آپ اسمبلی توڑ دیتے ہیں اور ایک نڈر لیڈر کی طرح دوبارہ پنجہ آزمائی کے لئے میدان میں آتے ہیںتو بقول خوشحالی اور بڑھتے ہوئے انڈیکیٹرز آپ کی مدد نہیں کرینگے عوام کی تائید اور حمایت ہی جمہوری سسٹم میں حکمران کی حقیقی قوت ہوتی ہے، اس لئے خدارا ان کو نظر انداز نہ کریں۔