پاکستان میں کئی ناقدین بڑھتے ہوئے امپورٹ بل کو معیشت کے لئے نقصان دہ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی تیل کی قیمتوں کی وجہ سے یہ بل مزید بڑھ گیا ہے۔ ''پیٹرولیم مصنوعات کا بل سات اعشاریہ پانچ بلین ڈالر سے 15 بلین ڈالرز تک پہنچ گیا ہے۔ اور یہ صرف مالی سال 2022 کے پہلے نو مہینوں کی کہانی ہے۔ دسویں مہینے میں ہمارا تجارتی خسارہ اور بھی بہت بڑھ گیا ہے، جو تقریباً 40 بلین ڈالرز کے قریب ہو گیا ہے-پاکستان کی برآمدات 1990 میں جی ڈی پی کا سولہ فیصد تھیں، جو اب صرف دس فیصد رہ گئی ہیں۔ ہمیں گزشتہ تین دہائیوں کا سنجیدگی سے تجزیہ کرنا چاہیے اور اس پر غور کرنا چاہیے کہ شرح نمو کم کیوں ہے۔ حکومت کو تیل اور بجلی کی قیمتوں کو مارکیٹ سے ہم آہنگ کرنا چاہیے۔ امپورٹس کو کم کرنا چاہیے۔ تیل اور دوسری اشیاء کے استعمال میں بچت کرنی چاہیے اور اس کے علاوہ عالمی مالیاتی اداروں یا دوست ممالک سے جو پیسہ ملے اس کو اپنے زر مبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔بحران کے پیش نظر تمام ممالک اپنے اندورنی معاشی مسائل کے بارے میں زیادہ فکر مند ہیں۔ انڈونیشیا نے خوردنی تیل کی ایکسپورٹ پر پابندی لگا دی ہے۔ خوردنی تیل کی پوری دنیا میں مانگ بڑھ رہی ہے اور انڈونیشیا میں ملکی ضروریات کی وجہ سے انہوں نے ایکسپورٹ پر پابندی لگا دی ہے۔ پاکستان خوردنی تیل کا ایک بڑا حصہ انڈونیشیا سے لیتا تھا، جو اب پاکستان کو عالمی مارکیٹ سے لینا پڑے گا اور وہ مزید مہنگا پڑے گا۔ اس کے علاوہ گندم کی پیداوار بھی توقع کے مطابق نہیں ہوئی اور وہ بھی درآمد کرنی پڑے گی اور یوکرین کے بحران کی وجہ سے اس کی قیمت بھی اوپر جائے گی۔عالمی مارکیٹ میں قیمتوں کے بڑھنے کی وجہ سے پاکستان میں گاڑیاں، موبائل، خام مال، مشینری اور غذائی اجناس مہنگی ہو گئی ہیں روپے کی قدر گری ہے، جس کی وجہ سے معیشت کو بہت دھچکا لگا ہے۔ پاکستان کو تین سے چار ملین ٹن گندم بھی امپورٹ کرنا ہے،پاکستان کو آئی ایم ایف، سعودی عرب یا چین سے معاشی ریلیف نہیں ملا اور اسی لئے قوی امکان ہے کہ اقتصادی مسائل مزید بڑھیں گے۔ پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر امکاناً کم ہوں گے، پیداواری لاگت مزید بڑھے گی اور معیشت کو چلانے کے لئے مزید قرضے لینے پڑیں گے۔وزیراعظم کی زیرصدارت گندم کی پیداوار اور ذخائر سے متعلق اجلاس میں انہیں گندم کی پیداوار کے حوالے سے مفصل بریفنگ دی گئی اور بتایا گیا کہ پیداوار کے ہدف اور متوقع پیداوار میں فرق گندم کی کاشت میں کمی اور پانی کی قلت کے باعث پیدا ہوا ہے جبکہ سابقہ حکومت کی جانب سے کھاد کی فراہمی کے معاملہ میں بھی بدانتظامی ہوئی اور امدادی قیمت کا اعلان بھی تاخیر سے کیا گیا جس کے باعث گندم کی کاشت میں دوفیصد کمی ہوئی۔ وزیراعظم شہبازشریف نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ سابقہ حکمرانوں کے غلط فیصلوں سے پاکستان کو گندم درآمد کرنے والا ملک بنا دیا گیا ہے۔ انکے بقول گندم کی سپورٹ پرائس کے اعلان میں تاخیر سے ذخیرہ اندوزوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ انہوں نے ضرورت پڑنے پر گندم بروقت درآمد کرنے کی بھی ہدایت کی اور کہا کہ پاکستان کو بہتر حکمت عملی سے گندم کی پیداوار میں خودکفیل بنائیں گے،پی ٹی آئی حکومت کے دور میں حکومتی نرم پالیسیوں اور انتظامی معاملات پر گرفت کمزور ہونے کے باعث شوگر‘ آٹا اور پٹرولیم مافیا سمیت تمام مفاد پرست ذخیرہ اندوز اور ناجائز منافع خور عناصر من مانیاں کرتے اور عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہے ہیں جو مصنوعی قلت پیدا کرکے اشیاء کی قیمتیں بڑھاتے اور مہنگائی میں اضافہ کرتے رہے۔ چونکہ ان مافیاز کی اقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل تھی اور انکے نمائندے حکومت میں شامل بھی تھے‘ اس لئے وہ مصنوعی قلت اور مہنگائی ختم کرنے کیلئے حکومتی اقدامات اور فیصلوں کو ناکام بناتے رہے اور اپنی بلیک میلنگ کی پاور میں اضافہ کرتے رہے۔ پٹرولیم مافیا نے ایکا کرکے ملک میں پٹرولیم مصنوعات کا بحران پیدا کیا اور حکومت کو پٹرولیم نرخوں میں کی گئی کمی واپس لینے پر مجبور کر دیا۔ ایسی ہی بلیک میلنگ کے مظاہرے فلور مل مالکان اور فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی جانب سے بھی ہوتے رہے جو گاہے بگاہے آٹے اور ادویات کی مارکیٹ میں سپلائی روک کر انکی مصنوعی قلت پیدا کرتے اور پھر من مانے نرخ مقرر کرکے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہے لیکن وہ کبھی قانون کی عملداری کی زد میں نہ آئے،پی ٹی آئی کے اقتدار کے دوران یقیناً کورونا وبا نے بھی ملکی معیشت کو جکڑے رکھا اور عالمی ادارہ صحت کے وضع کردہ ایس او پیز پر عملدرآمد کے نتیجہ میں ملک میں پیداواری عمل رک جانے سے جہاں بیروزگاری بڑھی وہیں اشیاء کی قلت بھی پیدا ہوئی اور انکی قیمتیں کنٹرول کرنا بھی ممکن نہ رہا۔ اسکے علاوہ سابقہ حکومت نے بیل آئوٹ پیکیج کیلئے آئی ایم ایف سے رجوع کرکے اور اسکی تمام ناروا شرائط منظور کرکے نئے ٹیکسوں کے ذریعے اور پٹرولیم مصنوعات‘ بجلی‘ گیس کے نرخوں میں ہر 15دن بعد اضافہ کرکے عوام کے اقتصادی مسائل بڑھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔موجودہ حکمرانوں کو پی ٹی آئی حکومت کی ان غلطیوں کے باعث ہی اقتدار کا میٹھا پھل ملا ہے اب عوام بجا طور پر موجودہ حکومت سے اپنے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے گھمبیر مسائل میں فوری ریلیف کی توقع رکھتے ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف اور انکی کابینہ کے ارکان مہنگائی میں عوام کو ریلیف کیلئے کوششیں بھی بروئے کار لا رہے ہیں اور وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز بھی عوام کے فوری ریلیف کی پالیسیاں وضع کر رہے ہیں تاہم بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ مختلف مافیاز نے عوامی ریلیف اور مہنگائی میں کمی کیلئے موجودہ حکومت کی کاوشیں بھی ناکام بنانے کی ٹھان رکھی ہے جو بدستور اشیاء کی قلت کا مصنوعی بحران پیدا کرکے دوبارہ من مانے نرخ مقرر کررہے ہیں۔ تمام سیاستدان ملک کو سنبھالا دینے کے لئے مل بیٹھ کر فوری بڑے فیصلے کریں،موجودہ حکومت کا دعویٰ ہے عمران خان کی حکومت معاشی محاذ پر جگہ جگہ لینڈ مائنز بچھا کر گئی ہے۔ نئی حکومت کے مطابق عمران خان نے ایک سو پچاس ارب روپے ماہانہ کی سبسڈی پیٹرول پر دی ، جو معاشی اعتبار سے بہت نقصان دہ ہے۔حکومت کا دعویٰ ہے کہ معیشت بہت برے حال میں ہے لیکن یہ کہ وہ پوری کوشش کر رہی ہے کہ اس میں بہتری لائی جائے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ اس بہتری کو لانا اتنا آسان نہیں ہے معیشت دانو ں کا خیال ہے کہ جب تک ہم آئی ایم ایف سے جان نہیں چھڑاتے ہمارے لیے یہ مسائل رہیں گے کیونکہ وہ ہمیں بجلی، گیس اور دوسری پیداواری چیزوں کی قیمت بڑھانے کا کہتا ہے جس سے پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے اور آپ کی معیشت متاثر ہوتی ہے-