2018ء کے انتخابات میںعمران خان برسراقتدارآئے تودیگرجماعتوں نے ان انتخابات کوماننے سے انکار کرتے ہوئے عمران خان کواقتدارسے بے دخل کرنے کے ایک درجن سے زائداتحادی جماعتیں سلیکٹیڈحکومت کاشورمچاتے رہیں اورساتھ ساتھ مہنگائی پر واویلا اورسینہ کوبیکی جاتی رہی ،احتجاجی تحریکیں چلائیںلیکن جناب عمران خان ٹس سے مس نہ ہوئے بالآخرساڑھے تین برس کے بعدعمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرتے ہوئے عمران خان کواقتدارکی کرسی سے ہٹا دیا۔بادی النظر میںجس بات کاڈھول پیٹاجارہا تھا وہ مہنگائی اورعوام کی بدترین معاشی اور معاشرتی صورتحال تھی لیکن وقت نے ثابت یہ کیا کہ احتجاج کرنے اور مہنگائی کا شور مچانے والوں کا ہرگز یہ مقصودومطلوب نہ تھا بلکہ ان کا مقصودومطلوب اقتداراور وزارتیں تھیں۔ عمران خان کے اقتدار کے خاتمے کے بعدجناب شہباز شریف وزیراعظم بن گئے ن لیگ کے درجن بھرلیڈر وزارتوں تک پہنچ گئے ،جناب مولانافضل الرحمان نے اپنے فرزندہ ارجمند کے بشمول اپنی پارٹی کے لئے چار عدد وزارتیں حاصل کرلیں ،جناب آصف علی زرداری نے اپنے نورچشم کو وزارت خارجہ کی کرسی پر متمکن کرکے دم لیا اوراپنی پارٹی کے چیدہ چیدہ افرادکے لئے نصف درجن وزارتیں حاصل کرلیں جبکہ حصہ بقدر جثہ تمام اتحادیوں نے بھی وزارتوں میں اپنا اپنا حصہ بٹور لیا۔اسی طرح سابق وزیراعظم عمران خان جنہوں نے عوام سے بڑے وعدے کئے تھے ایفائے عہدکرنے میں بدترین حد تک ناکام رہے اورایک چھوٹی سی کیبنٹ رکھنے کے بجائے جہاز سائز کی کیبنٹ بنا ڈالی جس میں غیرمنتخب افراد پرمشتمل مشیروں کی بھر مار تھی ۔غرض عوام کی بہبود کے بجائے یہ سب اپنی بہبودکے لئے سرگرم وسرگرداں رہے،رہی عوام تووہ چلی گئی بھاڑ میں۔سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے کہ مملکت میں مسلسل اقتصادی بحران ان سیاست کاروںکو بے کل اورمضطرب کر دے۔ معیشت کے زوال پذیر ہونے سے ریاست یا مملکت کوکئی طرح کے خطرات گھیر لیتے ہیں۔اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت کا بحران ہے اورپاکستان کوشدید خطرات لاحق ہوچکے ہیں ۔ 2018ء کے انتخابات کے بعد سے پاکستان کی معیشت بے یقینی اور پھر مسلسل بحرانی حالات کا شکار ہے۔ آج پاکستان میں عام آدمی کی زندگی جہاں مہنگائی، بیروزگاری اور اقتصادی حالات نے مشکل تر بنا دی ہے۔ وہاں ملکی صنعتیں تباہی کے دھانے پر پہنچ چکی ہیں۔ اگرچہ مہنگائی عمران خان کے دوراقتدارمیں شروع ہوئی تاہم شہباز کی حکومت بننے کے بعد پاکستان شدید نوعیت کے اقتصادی بحران کا شکارہوچکا ہے ۔کسی ملک کی معیشت اگر مضبوط ہو، توکتنے بھی طوفان آجائیں وہ توگزرکرچلے جاتے ہیںلیکن جب معیشت بدحالی کی شکارہو توملک کے تمام شعبہ جات اورادارے جام ہوجاتے ہیں اوراس طرح کشتی بھنورمیں پھنس کر رہ جاتی ہے اس لیے کہ معیشت کااستحکام ہر ملک کے لئے اولیت رکھتا ہے لیکن اس کے لئے ملک سے پیاراور اپنے عوام سے ہمدردی ،غمخواری اوروژن یعنی بصیرت ہونی چاہئیں ۔ پاکستان کی معیشت کا جو حشر ہے، وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ اندازوں کے مطابق پاکستان میں مہنگائی کی موجودہ شرح پندرہ فیصد ہے، جو اگلے سال بیس فیصد تک ہو جانے کا خدشہ ہے تو یہ ایک عام پاکستانی کے لیے کسی عذاب سے کم ہے کیا؟ معیشت گڑھے میں گرتی جا رہی ہے اور سیاسی جماعتیں پارلیمانی رائے دہی کے نتیجے میں فیصلوں تک کی تشریح کے لیے عدلیہ کے طوافین بن چکے ہیںتو ایسے میں معاشی استحکام ملک کی اقتصادیات کی طرف کون التفات کرے،کسے یہ فکر دامن گیرہے کہ ملک کس طرف جارہا ہے؟ سچ یہ ہے کہ پاکستانی عوام کی گزر بسر مشکل تر ہو چکی ہے۔غریب الغرباء کی نوبت فاقوںتک پہنچ چکی ہے بلکہ اب تو متوسط طبقے کے جینے کا حق چھن چکاہے۔عام شہریوں سے بات کریں تووہ صاف صاف بتاتے ہیں کہ حکمران عوام دشمن ہیں ۔انہیںبس ایسے لگتا ہے کہ جیسے یہ ملک تو صرف غریبوں کا خون چوسنے کے لیے بنایا گیا ہو۔ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی مسلسل بڑھتی ہوئی قدر، مہنگائی، پٹرول کی قیمتوں میں اضافے، بجلی کے نرخوں اور غذائی اجناس کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے نے جینا مشکل کر دیا ہے اورسیاست کارایک دوسرے کوپچھاڑنے بلکہ ننگاکرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ عام آدمی تو بس اپنے مالی وسائل اور مشکلات میں گرا ہوا ہے اس کے لیے ذاتی معاشی ترقی بس ایک خواب ہی ہے۔عام لوگوں کے گھروں میں چولہے جلیں انکی دال روٹی سستی ہواس کے لئے چاہئے عمران خان، شہباز،نواز شریف یا زرداری برسراقتدار ہووہ ا س سے بے غرض رہتے ہیں۔پاکستان کی سیاست دانوں کایہ المیہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھنچنے پر لگے ہیں ۔یادرکھیں کہ پاکستان کے سیاست کارجب تک اسی طرح آپسی سرپھٹول میں لگے رہیںتب تک ملکی معیشت اسی طرح سر کے بل کھڑی رہے گی اور عوام کے مصائب میں اضافے کا باعث بنتی رہے گی۔ویسے بھی سوچنے کی بات یہ ہے کہ رائے ونڈ محلات اوربنی گالہ کی آرام گاہوںکے مکینوں کوغریب الغرباء کی کیا فکر لاحق ہوسکتی ہے ۔ انہیں اسے کیا لینا دینا ہے کہ ملک کاعام آدمی مہنگائی کے طوفان کی نذرہوچکاہے۔